Open Menu

Khalifa Adal Syedina Hazrat Umar Farooq Razi Allah Anho - Article No. 2347

Khalifa Adal Syedina Hazrat Umar Farooq Razi Allah Anho

خلیفہ عدل سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ - تحریر نمبر 2347

امام عدل وحریت، مرادِ مصطفےٰ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کی دین اسلام کےلئے روشن خدمات، جرأت وبہادری، عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار و کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایک موقع پر حضورﷺ نے فرمایا کہ بلا شبہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو (جاری ) قائم کر دیا ہے۔ (ترمذی)

منگل 11 ستمبر 2018

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
امام عدل وحریت، مرادِ مصطفےٰ، خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروقؓ کی دین اسلام کےلئے روشن خدمات، جرا¿ت وبہادری، عدل وانصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار و کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ایک موقع پر حضور نے فرمایا کہ بلا شبہ تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر فاروقؓ کی زبان اور ان کے دل پر حق کو (جاری ) قائم کر دیا ہے۔

(ترمذی) ایک روز رحمت دو عالم گھر سے مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور آپ کے ہمراہ دائیں بائیں ابو بکر ؓ وعمرؓ بھی تھے اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اسی حالت میں آپ نے فرمایا کہ قیامت کے روز ہم اسی طرح اٹھیں گے۔ (ترمذی) آپ نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ان کے ساتھ مل کر اسلام کی اشاعت و غلبہ کےلئے بہت کام کیا۔

(جاری ہے)


خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کو اپنے دور خلافت میں اس بات کا تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے بعد منصب خلافت کےلئے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے بہتر کوئی شخص نہیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی ”جانشینی“ کا اعلان ہوا تو بعض مو¿رخین کے مطابق رائے شماری کے دوران چند صحابہ کرامؓ نے کہا کہ حضرت عمرؓ کا مزاج سخت ہے اگر وہ سختی پر قابو نہ پا سکے تو بڑا سانحہ ہو گا۔
حضرت ابو بکرصدیقؓ نے جواب دیا کہ عمرؓ کی سختی میر نرمی کی وجہ سے ہے۔ جب تنہا ان پر ذمہ داری عائد ہو گی تو یقینا جلال و جمال کا امتزاج قائم ہو جائے گا۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور اس خطبہ میں فرمایا کہ ! اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضوراور سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کی نرمیوں اور مہربانیوں سے فیضیاب تھے۔
میر ی سختی، نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔اب میں تم پر سختی نہ کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔ اسی خطبہ میں آپ نے سوال کیا کہ اے لوگو! اگر میں ”سنت نبوی“ اور ”سیرت صدیقیؓ“ کے خلاف حکم دوں تو تم کیا کروگے....؟ لوگ کچھ نہ بولے اور خاموش رہے پھر دوبارہ آپ نے یہی سوال دہرایا تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اس تلوار سے سر کاٹ دیں گے۔
اس پر آپ بہت خوش ہوئے۔
”خلیفة المسلمین “ بننے کے بعد آپ منبر پر تشریف لائے تو اس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ پاو¿ں رکھتے تھے صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ اوپر بیٹھ جائیں.... تو فرمایا! میرے لئے یہ کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں صدیق اکبرؓ کے پاو¿ں رہتے ہوں۔
آپ کے زہد و تقویٰ کی یہ حالت تھی کہ بیت المال میں سے اپنا وظیفہ سب سے کم مقرر کیا جوآپ کی ضرور ت کےلئے بہت کم تھا اور کئی مرتبہ بیت المال سے صرف دو ہی جوڑے کپڑے کے لیتے وہ بھی کسی موٹے اور کھردرے کپڑے کے ہوتے جب وہ پھٹ جاتے تو ان پر چمڑے اور ٹاٹ کے پیوند لگاتے۔

سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ جب کسی صوبہ یا علاقہ میں کسی کو گورنر وغیرہ مقرر کرتے تو اس کی عدالت و امانت لوگوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں خوب تحقیق کرتے اور پھر مقررکرنے کے بعد اس کی مسلسل نگرانی بھی کرواتے۔ اور رعایا کو حکم تھاکہ میرے حکام (گورنرز) سے کسی کو بھی کوئی شکایت و تکلیف پہنچے تو وہ بے خوف وخطر مجھے اطلاع دیں۔ آپ اپنے حکام کی ذرا ذرا سی بات پر گرفت کرتے اور ان کو مقرر کرتے وقت ایک پروانہ لکھ کر دیتے جس پر یہ ہدایات درج ہوتیں! باریک کپڑا نہ پہننا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھانا، اپنے مکان کا دروازہ بند نہ کرنا، کوئی دربان نہ رکھنا تاکہ جس وقت بھی کوئی حاجت مند تمہارے پاس آنا چاہے بے روک و ٹوک آجاسکے بیماروں کی عیادت کو جانا، جنازوں میں شرکت کرنا۔

حضرت عمر فاروقؓ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و آرام کا بہت خیال کرتے اور ان کی شکایات کو ہر ممکن دور کرنے کی کوشش کرتے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ہوئے موقع پر احکامات جاری کرتے، راتوں کو گشت کرتے اور سفر میں راہ چلتے لوگوں سے مسائل وشکایات دریافت کر کے ان کو دور کرتے۔

سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں ”بیت المقدس“ کو فتح کرنے اور ”قیصر وکسریٰ“ کو پیوند خاک کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا۔ اس کے علاوہ آپ کے عہد خلافت میں شام، مصر، عراق، جزیرہ خوزستان، عجم، آرمینہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خرسان اور مکران سمیت دیگر کئی علاقے فتح کئے گئے۔آپ کے دورِ خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900 جامع مسجدیں اور 4000 عام مسجدیں تعمیر ہوئیں۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں بیت المال یعنی خزانہ کا محکمہ قائم کیا۔ عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے۔ ”جیل خانہ“ اور پولیس کا محکمہ بھی آپ نے ہی قائم کیا۔ ”تاریخ سن“ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ امیر المو¿منین کا لقب اختیار کیا فوجی دفتر ترتیب دیا۔ ”دفترمال“ قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، شہر آباد کروائے، ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔
اصلاح کےلئے ”درہ“ کا استعمال کیا، راتوں کو گشت کر کے رعایا کا حال دریافت کرنے کا طریقہ نکالا، جا بجا فوجی چھاو¿نیاں قائم کیں اور ان میں خدمات کے عوض تنخواہیں مقرر کیں۔ پرچہ نویس مقرر کئے۔ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کےلئے مکانات تعمیر کروائے ، گم شدہ بچوں کی پرورش کےلئے ”روز ینے“ مقرر کئے۔ مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کروائے۔
مکاتب و مدارس قا ئم کئے، معلمین اواساتذہ کے مشاہرے مقرر کئے، مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوںکے ”روزینے“ بھی آپ نے ہی مقرر کئے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح عمری ”الفاروقؓ“ میں رقمطراز ہیں کہ! تمام دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو....؟
جس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیص میں دس دس پیوند لگے ہوں، کاندھے پرمشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی پھر آتا ہو، فرش خاک پر سو جاتا ہو، بازاروں میں پھرتا ہو۔
اور پھر یہ رعب و ادب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دہل جاتی ہو، سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا، عمر فاروقؓ کے ”سفر شام“ میں سواری کے اونٹ کے سوا اور کچھ نہ تھا چاروں طرف (شورو) غل پڑا تھا کہ ”مرکز عالم“ جنبش میں آگیا ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ شان و شوکت اوراسلامی فتوحات کے ساتھ اللہ کی زمین پر نظام خلافت راشدہ کو جاری کرنے کے بعد 63 برس کی عمر میں قاتل کے ہاتھوں زخمی ہونے کے پانچویں روز ”یکم محرم الحرام“ کو ” شہادت “ کا مرتبہ پا گئے۔
حضرت صہیبؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور ”روضہ نبوی“میں خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پہلو میں
دفن ہوئے.... رضی اللہ تعالیٰ عنہ

Browse More Islamic Articles In Urdu