- Home
- Islam
- Prayer Timings
- Ramadan
- Quran Kareem
- Hadith
- Hajj/Umrah
- Muslim Calandar
- Islamic Info
-
Naats
- Famous Naat Khawan
- Atif Aslam Naats
- Junaid Jamshed Naats
- Amir Liaquat Hussain Naats
- Abdul Rauf Rufi Naats
- Siddique Ismail Naats
- Yousaf Memon Naats
- Shehbaz Qamar Fareedi Naats
- Amjad Sabri Naats
- Khursheed Ahmed Naats
- Marghoob Hamdani Naats
- Waheed Zafar Qasmi Naats
- Owais Raza Qadri Naats
- Fasih Ud Din Soherwardi Naats
- Sami Yusuf Naats
- Listen Urdu Naats
- Arabic Naats MP3
- 12 Rabi-ul-Awal Naats MP3
- More
Lailahaillah Or Aamli Zindagi - Article No. 3323
لا الہ الا اللہ اور عملی زندگی - تحریر نمبر 3323
جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے ،وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔
جمعرات 27 فروری 2020
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے ،وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ کلمہ اُسے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے۔مسند احمد میں حضرت رفاعہ الجھنی کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ۔”جو بندہ صدق دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔پھر سیدھے راستہ پر چلتا رہے تو جنت میں پہنچ جائے گا ۔اور سنن ترمذی میں آخری الفاظ یہ ہیں کہ کلمہ توحید کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے گا تو جنت میں داخل ہو گا۔
(جاری ہے)
گرامی قدر سامعین !مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی اہمیت اور عظمت سے خوب واقف ہیں ۔
جب آنحضرت علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ بات ارشاد فرمائی تو دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمہ اپنے پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے ۔جبکہ مسند احمد میں اخلاص کو دل کی سچائی سے تعبیر کیا گیا اور محارم اللہ سے اجتناب کو راہ راست پر چلتا رہے کے الفاظ سے بیان کیا گیا ۔سنن الترمذی میں اس مضمون کو کبیرہ گناہوں سے بچنے سے واضح کیا گیا ہے ۔سو الفاظ کے اختلاف کے باوجود مفہوم ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس کلمہ کے اخلاص کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں اور کبیرہ گناہوں سے بچنا از حد ضروری ہے ۔محارم اللہ سے اپنے آپ کو آلودہ کرنا اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کلمہ کے اخلاص میں ضعف اور کمزوری کی نشاندہی کرتاہے ۔اخلاص کی طاقت یہ ہے کہ وہ مسلمان کے قلب و دماغ اور جوارح کو کلی طور پر اپنی گرفت میں رکھے ۔ اُسے اللہ تعالیٰ کے سمیع وبصیر اور حاضر وناظر ہونے کے یقین سے ہمکنار کرے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی سوچ پاکیزہ ہو گی ،اس کی ہر بات جچی تلی ہوگی اور اس کا ہر قدم مکمل احتیاط سے اٹھے گا ۔اس کے نزدیک گناہ کے کبیرہ اور صغیرہ ہونے کی تقسیم بے معنی ہو گی ۔وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ نافرمانی کا حجم کیا ہے بلکہ اُس کا دل اس خیال سے ہی لرزاں ہو گا کہ کتنی بڑی ذات کی نافرمانی ہوئی اور کتنے عظیم محسن کی نا شکری ہوئی ۔اس لئے اب وہ مسند احمد کی روایت کے مطابق سیدھی راہ پر چلتا رہے گا ۔کلمہ کا اخلاص اُسے اس طرح تھامے گا کہ اِدھر اُدھر کی پگڈنڈیوں پر لگی جھاڑیوں سے اس کے دامن کو تارتار ہونے سے بچالے گا۔زندگی کا یہ چلن اُسے جنت کے راستہ پر کھے گا تا آنکہ وہ اس میں داخل ہو جائے ۔
سامعین محترم!ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاص کی تشریح سے سمندر کو کوزے میں بند فرمایا ہے ۔اور ہر کلمہ گوکو یہ بات سمجھا دی ہے کہ لا الہ الا اللہ جنت کی وسیع راہوں پر چلنے کی راہداری یا پروانہ ہے ۔اب کامیابی کے اس سفر پر روانہ ہونے کے لئے ساری رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں ۔لیکن اس راہداری کے باوجود کچھ دیگر لوازمات کا انتظام بھی ضروری ہے ۔اور وہ نیک اعمال کی پونچی ہے ۔اگر خدا نخواستہ یہ زاد راہ تیار نہ ہوا تو راہداری اور پروانہ ہونے کے باوجود منزل مقصود تک پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔
بات محارم اللہ کی ہو رہی ہے تو آئیے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نہایت ہی جامع ارشاد گرامی سنتے ہیں جسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ۔فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی ۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کی لاج رکھ لی ۔اور جو شہبات میں ملوث ہو گیا تو اب حرام اور اس کے درمیان بہت کم ہی فاصلہ رہ گیا ہے کسی بھی لمحے وہ اس کا ارتکاب کر سکتاہے ۔جس طرح وہ چرواہا جو کسی چراگاہ کے قریب اپنے مویشی چرا رہا ہوتو اس کے مویشی کسی بھی وقت چراگاہ کارخ کرکے اُسے روند سکتے ہیں ۔جس طرح ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی چراگاہ ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی بھی چراگاہ ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔ہاں یہ بھی سن لو کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ صحیح کام کر رہا ہوتو پورا جسم درست کام کرتاہے ۔اور جب اس میں بگاڑ آجائے تو پورا جسم نا کارہ ہو جاتاہے ۔اور یاد رکھو کہ خون کے اس لوتھڑے کو دل کہتے ہیں ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے فاصلہ پر رہنا ضروری ہے ۔ایک اور حدیث میں آپ نے اپنے صحابی کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا:محارم سے بچ جاؤ، سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے ۔وجہ یہ ہے کہ محارم سے اجتناب میں ایک طرف نفس کی سر کوبی ہے تو دوسری طرف شیطان کی شکست ہے ۔
اگر کسی کے دل میں یہ تاثر اُبھرے کہ یہ ایک دشوار گزار عمل ہے ۔انسان کیونکر اپنے آپ کو اس وادی میں داخل ہونے سے بچا پائے گا ۔ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ یہ محض کم ہمتی اور عزم کے فقدام کی وجہ سے ہے ۔ورنہ خالق کائنات نے انسان کو ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ اگر وہ انہیں صحیح طور پر اور صحیح وقت پر بروئے کار لائے تو خیروشر کی اس کشمکش میں سر خرو ہو کر نکل سکتاہے ۔کیونکہ تو فیق ایز دی اس کی پشت پناہ ہوتی ہے ۔اور اگر اس دوران ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی بھی ہو جسے امام دار قطنی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دین کو چار شعبوں میں تقسیم فرمادیا ہے اور ہر ایک کے لئے نہایت ہی قابل عمل لائحہ عمل تجویز فرما دیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ علماء محد ثین نے اسے جامع حدیث قرار دیا ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض قرار دی ہیں ۔
انہیں ضائع مت کرو،کچھ حدود مقرر کی ہیں ،اُن سے تجاوزمت کرو۔کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرادیا یہ ،اُن کا ارتکاب مت کرو اور کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ بھولنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ نے تم پر شفقت ومہربانی فرماتے ہوئے اُن سے سکوت اختیار فرمایا ہے ۔تم انہیں خواہ مخواہ مت کریدو ۔امت کی رہنمائی کے لئے یہ فرمان اس قدر واضح اور دو ٹوک ہے کہ عمل کی راہ آسان ہو کر سامنے آگئی ہے ۔ہر چیز کو اس کے صحیح عنوان کے تحت رکھ کر دیکھا جائے اورغیر ضروری بحث وتمحیص سے گریز کیا جائے تو دل سے آواز آئے گی کہ شریعت اسلامی نہایت آسانی ہے ۔جلیل القدر صحابہ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ۔”غیر ضروری کھوج کرید سے باز رہو،زیادہ گہرائی میں اترنے سے گریز کرو۔ اور پرانی باتوں یعنی صحابہ کرام کی باتوں کی پیروی کرتے رہو کیونکہ وہ لوگ تکلفات سے دور تھے ۔آج کی زیر مطالعہ حدیث بھی جنت کی راہ اور اس کے داخلہ کو آسان بنانے کا نسخہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو لا الہ الا اللہ کی حقیقت اور اس کا اخلاص نصیب فرمائے ۔محارم اور کبائر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Browse More Islamic Articles In Urdu
ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان رضی اللہ عنہا
ummul momineen hazrat umm habiba bint abu sufyan RA
ولادت باسعادت مدینہ علم کا دروازہ۔مولا علی رضی اللہ عنہ
Wiladat Basadat Madina Ilam Ka Darwaza - Maula Ali RA
اسلام کا تیسرا اہم رکن زکوٰة
Islam Ka Teesra Ehem Rukan Zakat
شب قدر۔ فضائل مسائل
Shab e Qadar - Fazail Masail
رمضان کا عشرہ مغفرت !
Ramzan Ka Ashra Maghfirat
جابر ابن حیان
Jabir ibn Hayyan
شب برات کی عظمت وفضیلت
Shab e Barat Ki Azmat O Fazeelat
شعبان المعظم استقبال رمضان کا مہینہ
Shaban Al Muazzam
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شادی
Hazrat Fatima RA Ki Shaadi
زکوۃ ادا نہ کرنے کا گناہ
Zakat Ada Naa Karne Ka Gunah
سورۂ اخلاص کا اجر وثواب
Sorah Ikhlas ka Ajar o Sawab
میرے آقا ﷺ کا جانثار ساتھی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
Meere Aaqa SAW Ka Jan Nisar Saathi