Open Menu

Lailahaillah Or Aamli Zindagi - Article No. 3323

Lailahaillah Or Aamli Zindagi

لا الہ الا اللہ اور عملی زندگی - تحریر نمبر 3323

جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے ،وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔

جمعرات 27 فروری 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے ،وہ جنت میں داخل ہو گیا ۔دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ کلمہ اُسے اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے۔مسند احمد میں حضرت رفاعہ الجھنی کی روایت کے الفاظ اس طرح ہیں ۔
”جو بندہ صدق دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی گواہی دے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔پھر سیدھے راستہ پر چلتا رہے تو جنت میں پہنچ جائے گا ۔اور سنن ترمذی میں آخری الفاظ یہ ہیں کہ کلمہ توحید کے ساتھ ساتھ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے گا تو جنت میں داخل ہو گا۔

(جاری ہے)


گرامی قدر سامعین !مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی اہمیت اور عظمت سے خوب واقف ہیں ۔

اس کلمہ کے پہلے جزو میں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی الہٰ بننے کے قابل نہیں۔ عبادت ،اطاعت اور محبت کے سارے قرینے اُس کے لئے وقف ہیں ۔اس کی ذات میں اُس کا کوئی شریک نہیں ۔اس کی صفات میں اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔اور اس کے حقوق میں اس کا کوئی ساجھی نہیں ۔قرآن حکیم میں ہے :ساری بڑائیاں اور عظمتیں اسی کے لئے ہیں ۔ اپنی انہی عظمتوں اور پاکیزگیوں کی وجہ سے اس کو کلمہ طیبہ کہا جاتاہے ۔
قرآن حکیم نے اس کی تشریح کو اپنا خاص موضوع بنایا ہے اور اسے عمدہ درخت یعنی شجرة طیبہ سے تشبیہ دی ہے ۔اور فرمایا ہے کہ اس کی جڑ زمین میں پیوست ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں پہنچی ہوئی ہیں ۔گویا کہ کائنات ارضی و سماوی دونوں اس کلمہ کی گرفت میں ہیں ۔پھر تمام انبیاء کرام کی تبلیغی کاوشوں کا محور، نقطہ آغاز اور نقطہ اختتام لا الہ الاللہ رہا ہے ۔
جب حقیقت حال یہ ہے تو نہایت سچا ہے یہ ارشاد گرامی کہ جس شخص نے اخلاص کے ساتھ اس کلمہ کو پڑھا ،وہ جنت میں داخل ہو گیا۔
جب آنحضرت علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ بات ارشاد فرمائی تو دریافت کیا گیا کہ اخلاص کا کیا مطلب ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کلمہ اپنے پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے روک دے ۔جبکہ مسند احمد میں اخلاص کو دل کی سچائی سے تعبیر کیا گیا اور محارم اللہ سے اجتناب کو راہ راست پر چلتا رہے کے الفاظ سے بیان کیا گیا ۔
سنن الترمذی میں اس مضمون کو کبیرہ گناہوں سے بچنے سے واضح کیا گیا ہے ۔سو الفاظ کے اختلاف کے باوجود مفہوم ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ اس کلمہ کے اخلاص کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں اور کبیرہ گناہوں سے بچنا از حد ضروری ہے ۔محارم اللہ سے اپنے آپ کو آلودہ کرنا اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کلمہ کے اخلاص میں ضعف اور کمزوری کی نشاندہی کرتاہے ۔
اخلاص کی طاقت یہ ہے کہ وہ مسلمان کے قلب و دماغ اور جوارح کو کلی طور پر اپنی گرفت میں رکھے ۔ اُسے اللہ تعالیٰ کے سمیع وبصیر اور حاضر وناظر ہونے کے یقین سے ہمکنار کرے ۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی سوچ پاکیزہ ہو گی ،اس کی ہر بات جچی تلی ہوگی اور اس کا ہر قدم مکمل احتیاط سے اٹھے گا ۔اس کے نزدیک گناہ کے کبیرہ اور صغیرہ ہونے کی تقسیم بے معنی ہو گی ۔
وہ یہ نہیں دیکھے گا کہ نافرمانی کا حجم کیا ہے بلکہ اُس کا دل اس خیال سے ہی لرزاں ہو گا کہ کتنی بڑی ذات کی نافرمانی ہوئی اور کتنے عظیم محسن کی نا شکری ہوئی ۔اس لئے اب وہ مسند احمد کی روایت کے مطابق سیدھی راہ پر چلتا رہے گا ۔کلمہ کا اخلاص اُسے اس طرح تھامے گا کہ اِدھر اُدھر کی پگڈنڈیوں پر لگی جھاڑیوں سے اس کے دامن کو تارتار ہونے سے بچالے گا۔
زندگی کا یہ چلن اُسے جنت کے راستہ پر کھے گا تا آنکہ وہ اس میں داخل ہو جائے ۔
سامعین محترم!ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاص کی تشریح سے سمندر کو کوزے میں بند فرمایا ہے ۔اور ہر کلمہ گوکو یہ بات سمجھا دی ہے کہ لا الہ الا اللہ جنت کی وسیع راہوں پر چلنے کی راہداری یا پروانہ ہے ۔اب کامیابی کے اس سفر پر روانہ ہونے کے لئے ساری رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں ۔
لیکن اس راہداری کے باوجود کچھ دیگر لوازمات کا انتظام بھی ضروری ہے ۔اور وہ نیک اعمال کی پونچی ہے ۔اگر خدا نخواستہ یہ زاد راہ تیار نہ ہوا تو راہداری اور پروانہ ہونے کے باوجود منزل مقصود تک پہنچنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔
بات محارم اللہ کی ہو رہی ہے تو آئیے صحابی رسول حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک نہایت ہی جامع ارشاد گرامی سنتے ہیں جسے امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے ۔
فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی ۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کی لاج رکھ لی ۔اور جو شہبات میں ملوث ہو گیا تو اب حرام اور اس کے درمیان بہت کم ہی فاصلہ رہ گیا ہے کسی بھی لمحے وہ اس کا ارتکاب کر سکتاہے ۔
جس طرح وہ چرواہا جو کسی چراگاہ کے قریب اپنے مویشی چرا رہا ہوتو اس کے مویشی کسی بھی وقت چراگاہ کارخ کرکے اُسے روند سکتے ہیں ۔جس طرح ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی چراگاہ ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی بھی چراگاہ ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔ہاں یہ بھی سن لو کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ صحیح کام کر رہا ہوتو پورا جسم درست کام کرتاہے ۔
اور جب اس میں بگاڑ آجائے تو پورا جسم نا کارہ ہو جاتاہے ۔اور یاد رکھو کہ خون کے اس لوتھڑے کو دل کہتے ہیں ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء سے فاصلہ پر رہنا ضروری ہے ۔ایک اور حدیث میں آپ نے اپنے صحابی کو نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا:محارم سے بچ جاؤ، سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے ۔وجہ یہ ہے کہ محارم سے اجتناب میں ایک طرف نفس کی سر کوبی ہے تو دوسری طرف شیطان کی شکست ہے ۔

اگر کسی کے دل میں یہ تاثر اُبھرے کہ یہ ایک دشوار گزار عمل ہے ۔انسان کیونکر اپنے آپ کو اس وادی میں داخل ہونے سے بچا پائے گا ۔ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ یہ محض کم ہمتی اور عزم کے فقدام کی وجہ سے ہے ۔ورنہ خالق کائنات نے انسان کو ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے کہ اگر وہ انہیں صحیح طور پر اور صحیح وقت پر بروئے کار لائے تو خیروشر کی اس کشمکش میں سر خرو ہو کر نکل سکتاہے ۔
کیونکہ تو فیق ایز دی اس کی پشت پناہ ہوتی ہے ۔اور اگر اس دوران ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ ارشاد گرامی بھی ہو جسے امام دار قطنی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے دین کو چار شعبوں میں تقسیم فرمادیا ہے اور ہر ایک کے لئے نہایت ہی قابل عمل لائحہ عمل تجویز فرما دیاہے ۔
یہی وجہ ہے کہ علماء محد ثین نے اسے جامع حدیث قرار دیا ہے ۔آپ نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں فرض قرار دی ہیں ۔
انہیں ضائع مت کرو،کچھ حدود مقرر کی ہیں ،اُن سے تجاوزمت کرو۔کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرادیا یہ ،اُن کا ارتکاب مت کرو اور کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ بھولنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ نے تم پر شفقت ومہربانی فرماتے ہوئے اُن سے سکوت اختیار فرمایا ہے ۔
تم انہیں خواہ مخواہ مت کریدو ۔امت کی رہنمائی کے لئے یہ فرمان اس قدر واضح اور دو ٹوک ہے کہ عمل کی راہ آسان ہو کر سامنے آگئی ہے ۔ہر چیز کو اس کے صحیح عنوان کے تحت رکھ کر دیکھا جائے اورغیر ضروری بحث وتمحیص سے گریز کیا جائے تو دل سے آواز آئے گی کہ شریعت اسلامی نہایت آسانی ہے ۔جلیل القدر صحابہ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے ۔
”غیر ضروری کھوج کرید سے باز رہو،زیادہ گہرائی میں اترنے سے گریز کرو۔ اور پرانی باتوں یعنی صحابہ کرام کی باتوں کی پیروی کرتے رہو کیونکہ وہ لوگ تکلفات سے دور تھے ۔آج کی زیر مطالعہ حدیث بھی جنت کی راہ اور اس کے داخلہ کو آسان بنانے کا نسخہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو لا الہ الا اللہ کی حقیقت اور اس کا اخلاص نصیب فرمائے ۔محارم اور کبائر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu