Open Menu

Loud Speaker Ka Ghalat Istemal - Article No. 3253

Loud Speaker Ka Ghalat Istemal

لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال - تحریر نمبر 3253

جس طرح وہ واعظ صاحب اپنی قدرتی بلند آواز سے تکلیف کا سبب بن رہے تھے اسی طرح ہم لاؤڈ اسپیکر کا بے جا استعمال کرکے مصنوعی آواز سے لوگوں کے لئے تکلیف کا سب بن رہے ہیں

پیر 14 اکتوبر 2019

تحریر- عبداللّٰہ ماحی:


أم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا واقعہ روایت میں آتا ہے کہ آپ جس حجرے میں مقیم تھیں اور جس میں حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک واقع ہے، بعض اوقات ایک واعظ صاحب وعظ کہنے کے لئے آتے اور مسجد نبوی میں اس حجرے کے سامنے بلند آواز سے وعظ کہنا شروع کردیتے تھے۔
اس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر تو نہیں تھا لیکن آواز بہت بلند تھی۔ کافی دیر تک وہ تقریر کرتے رہتے تھے۔ ان کی آواز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں آتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی عبادت یا کام میں مشغول ہوتیں یا آرام کررہی ہوتیں تو اس آواز سے ان کو تکلیف ہوتی۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس وقت کے خلیفہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ یہ صاحب یہاں آکر اتنی بلند آواز سے تقریر کرتے ہیں کہ مجھے اس کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو بلوایا اور سمجھایا کہ بے شک دین کی بات کرنا بہت اچھی بات ہے، لیکن اس طرح کرنی چاہئے جس سے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے، لہذا آئندہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے سامنے اس طرح تقریر مت کرنا۔ اگر تقریر کرنی ہے تو کسی اور جگہ جاکر کرو۔ اگر وہیں کرنی ہے تو اتنی آواز سے کرو جو سننے والوں تک محدود رہے، دور تک نہ جائے۔

کچھ دن تک وہ واعظ صاحب خاموش رہے، لیکن بعض لوگ بہت جذباتی قسم کے ہوتے ہیں، ان کو تقریر کئے بغیر چین نہیں آتا وہ صاحب بھی اسی طرح کے تھے۔
چنانچہ چند روز بعد دوبارہ مجمع جمع کیا اور بلند آواز سے تقریر شروع کردی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ ان صاحب نے دوبارہ وہی سلسلہ شروع کردیا ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان صاحب کو بلایا اور فرمایا: میں نے پہلی مرتبہ تمہیں سمجھایا۔ معلوم ہوا کہ تم نے دوبارہ وہی حرکت شروع کردی ہے۔ اب اگر تیسری مرتبہ شکایت آئی تو یہ جو میرے ہاتھ میں سونٹا ہے اس کے ذریعے سے مار مار کر یہ سونٹا توڑ دوں گا۔
اندازہ لگائیے کہ لوگوں کے لئے باعثِ تکلیف ہونے کی وجہ سے اس تقریر کرنے والے سے کتنے سخت الفاظ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمائے۔

اگر چہ وہ دین کی بات کررہا تھا لیکن ایسے طریقے سے جس سے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی تھی۔
لہذا اب آپ سوچیں کہ غیر مذہبی کام تو کُجا دینی بات بھی ایسے طریقے سے منع کیا گیا جو مخلوقِ خدا کے لئے تکلیف کا باعث ہو۔
جس طرح وہ واعظ صاحب اپنی قدرتی بلند آواز سے تکلیف کا سبب بن رہے تھے اسی طرح ہم لاؤڈ اسپیکر کا بے جا استعمال کرکے مصنوعی آواز سے لوگوں کے لئے تکلیف کا سب بن رہے ہیں۔

کوئی بھی چیز اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں ہوتی اس کا مثبت یا منفی استعمال اسے اچھا یا برا بنادیتا ہے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو اچھے اور تعمیری کاموں میں کم اور تفریحی و بے فائدہ کاموں میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ایک اچھی ایجاد نعمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ہاں "لاؤڈ اسپیکر" کے ساتھ بھی ہوا۔
جب سے یہ لاؤڈ اسپیکر اور مختلف ساؤنڈ سسٹم ایجاد ہوئے ہیں ہمارے ہاں شور و غل کا ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس کا بے تحاشہ غلط استعمال ہورہا ہے جو کہ سراسر گناہ ہے۔
بعض لوگ تقریبات میں زور زور سے گانے چلاتے ہیں اور آواز اتنی بلند ہوتی ہے کہ سارا محلہ پریشان ہوتا ہے۔ اس طرح اس ایک عمل کی وجہ سے دوہرے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، ایک خود گانا بجانے کا گناہ اور دوسرا لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے کا گناہ۔

افسوس یہ ہے کہ جو لوگ دین کے نام پر کام کرنے والے ہیں، جن کو دین کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، وہ بھی اس سلسلے میں احتیاط نہیں کرتے۔ چنانچہ لاؤڈ اسپیکر پر تقریریں ہورہی ہیں، نظمیں پڑھی جارہی ہیں، رات گئے تک جلسے اور مجالس ہورہی ہیں اور اس کی وجہ سے سارا محلہ جاگ رہا ہے۔ جب تک وہ پروگرام ختم نہیں ہوگا کوئی آدمی سو نہیں سکتا۔ اس میں بھی ڈبل گناہ ہے۔
اس لئے کہ یہ گناہ کا کام دین کے نام پر کیا جارہا ہے۔
اگر کوئی بیمار اس آواز کی وجہ سے تکلیف میں ہے تو وہ اس وجہ سے کچھ نہیں کہتا کہ میرا کچھ کہنا کہیں دین کے خلاف نہ ہوجائے۔ اس ڈر سے لوگ خاموش رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ سنگین گناہ ہے۔
دنیاوی تقاریب کا تو کہنا ہی کیا ایسی تمام مذہبی تقاریب جن کی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہو ان کے پیچھے درحقیقت دینی جذبے کے بجائے ہمارا میلے ٹھیلے والا مزاج کار فرما ہوتا ہے۔
اصل میں وہ ہماری خواہش ہوتی ہے جسے ہم دین کے پردے میں کررہے ہوتے ہیں۔ عبادت کو بھی میلے کا رنگ دے کر ہم اپنے نفس کی تسکین تو کرسکتے ہیں لیکن اللّٰہ کی رضا ہرگز حاصل نہیں کرسکتے۔

سوچنے کی بات ہے کہ یہ خدا کی کیسی عبادت ہے کہ جس سے خود خدا کے بندے تکلیف میں مبتلا ہوجائیں۔
اسلام مسلمان تو کیا، اپنے غیر مذہب والے لوگوں کو بھی ناجائز تکلیف پہنچانے کو روا نہیں رکھتا۔ انسان کیا بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم اسلام ہی کا نام لے کر وہ کچھ کریں کہ مخلوقِ خدا کے لئے عذاب بن جائیں تو ہمارا ٹھکانہ کیا ہوگا؟
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu