Open Menu

Mairaaj Alnbi Aur Mshahdat - Article No. 3085

Mairaaj Alnbi  Aur Mshahdat

معراج النبی ﷺ اور مشاہدات - تحریر نمبر 3085

’’معراج ‘‘ لفظ عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ ؐ سے عُرِجَ لِیْ مجھ کو اوپر چڑھایا گیا‘

پیر 8 اپریل 2019

علامہ منیر احمد یوسفی
’’معراج ‘‘ لفظ عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اُوپر چڑھنا کے ہیں۔ چونکہ اَحادیث مبارکہ میں آپ ؐ سے عُرِجَ لِیْ مجھ کو اوپر چڑھایا گیا‘
مروی ہے۔ اِس لئے اِس کا نام معراج ہے۔اسریٰ کے معنی رات کو لے جانے یا چلانے کے ہیں چونکہ نبی کریم رؤف ورحیمؐ کا یہ حیرت انگیز معجزانہ سفر رات کو ہوا تھا ۔

اِس لئے اِس کو اسراء کہتے ہیں اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اِس کو اِسی لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ سُبْحَانَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا ’’یعنی پاک ہے وہ ذات جو اپنے (محبوب) بندے (حضرت محمد مصطفی ؐ) کو لے گیا‘‘۔
آیتِ مبارکہ میں تین کلمات قابلِ توجہ ہیں (۱)اَسْرٰی (۲)عَبْدِہٖ اور (۳)لَیْلًا۔

(جاری ہے)

اَسْرٰی رات کو لے جانا اور لَیْلًا سے مراد رات ہی کو ہے۔

لَیْلًا کا لفظ دو زبر کی وجہ رات کی قلت کو بیان کرتا ہے یعنی رات کے تھوڑے حصّے میں یعنی راتوں رات۔ اِس سیر کے کرانے کا دعویٰ ربِّ ذوالجلال والاکرام کا ہے۔ چونکہ سفر محیر العقول ہے اِس لئے رَبِّ کائنات نے پہلے اپنی تسبیح بیان فرما دی تاکہ پڑھنے‘ سننے والے کے دِل میں یہ بات اُتر جائے کہ جس ذاتِ برحق نے سیر کرائی ہے وہ ہر قسم کی کمزوری‘ خامی اور نقص سے پاک ہے۔
اُس کے لئے اَیسی سیر راتوں رات سیر کرا دینا ناممکن اور مشکل نہیں۔ صرف مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے آنے کا سفر ڈیڑھ دو ماہ کا تھا۔ لیکن رات کے کچھ حصّے کا دعویٰ اور دعویٰ بھی قادرِ مطلق رب ذوالجلال والاکرام کا۔ پھر یہ سفر روح کا نہیں یا خواب کا واقعہ نہیں بلکہ روح مع الجسد اور بیداری کا واقعہ ہے۔ بیان شدہ تینوں کلمات میں اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ اور لَیْلًا روح مع الجسدبیداری میں سیر کی تائید قرآنِ حکیم سے ہی ہو جاتی ہے اِس کے لئے سورۃ الدخان کی آیت مبارک نمبر ۲۳‘ سورئہ طٰہٰ کی آیت نمبر ۷۷‘ سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۵۲‘ سورئہ ھود کی آیت نمبر ۸۱ اور سورۃ الحجر کی آیت مبارک نمبر ۶۵دیکھی جا سکتی ہے۔

اِن آیاتِ مبارکہ میں حضرت سیّدنا موسیٰ ؑ اور حضرت سیّدنا لوط ؑ کا واقعہ بیان ہے۔ سورۃ الدخان میں اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت سیّدنا موسیٰ ؑ سے اِرشاد فرماتا ہے فَاَسْرِ بِعِبَادِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مَّتَّبَعُوْنَo ’’کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں ضرور آپ کا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔ اِسی طرح سورۃ الشعراء کی آیت مبارک نمبر ۵۲ میں ہے وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَo ’’اور ہم نے موسیٰ (ں) کو وحی فرمائی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چلے جائیں بے شک آپ کا پیچھا کیا جائے گا‘‘۔
اِن آیات میںدرج واقعات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب اَسْرٰی‘ بِعَبْدِہٖ‘ لَیْلًا یا اسری اھلک اور لیل کا ذکر آئے تو واقعہ جاگتے‘ بیداری اور روح مع الجسد کا ہوتا ہے۔اگر معراج شریف کا واقعہ روح کی سیر یا خواب کا واقعہ ہوتا تو نبیء مکرم ؐ کے ارشاد فرمانے پر کوئی شخص بھی اِنکار نہ کرتا۔ دعویٰ بیداری کی حالت میں سیر کرانے کا ہے۔
اِس لئے عظمت رَبِّ ذوالجلال والاکرام اور مقام مصطفی ؐ کے منکروں نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ لیکن قدرت کا کمال دیکھئے کہ اگر ایک طرف منکرین‘ اِنکار پر مصر ہیں تو دوسری طرف نبی کریم ؐ کے محسن حضرت سیّدنا صدیق اکبر ؓ واقعہ کی تصدیق کر کے فرما تے رہے کہ میں تو اِس سے بھی بڑی باتوں کی تصدیق کرتا ہوں اور اللہ رب العزت کی طرف سے انہیں لقب ’’صدیق‘‘ حاصل ہوا۔
مقام غور ہے‘ رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے اپنی کتاب لاریب کی سورۃ النمل میں حضرت سیّدنا سلیمان ؑکے ایک اُمّتی کا واقعہ بیان فرمایا ہے جس نے آنکھ جھپکنے سے پہلے تین ہزار میل کا سفر طے کر کے ملکہ بلقیس کا تخت حضرت سلیمان ؑ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔
جب خالقِ کائنات کے عظیم بندوں کا یہ کمال ہے جو ربِّ ذوالجلال والاکرام کی دی ہوئی طاقت اور فضل سے اِتنا لمبا سفر آنکھ جھپکنے میں طے کر سکتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ تو تمام اور لا محدود طاقتوں کا مالک ہے اُس نے رات کے کچھ حصّے میں اِتنا لمبا سفر طے کروا دیا کہ عقل اِنسانی حیرت میں مبتلا ہے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریم رؤف ورحیم ؐنے فرمایا کہ معراج کی رات جب میں حضرت موسیٰ ؑ کی قبر منور سے گزرا ، میں نے حضرت موسیٰ ؑکو قبر (اَنور) میں نماز پڑھتے دیکھا ۔

جنت کی حسین وادی:
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ پیارے نبی ؐ ایک وادی میں پہنچے جہاں نہایت نفیس‘ معطر‘ خوشگوار ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور نہایت راحت و سکون کی مبارک آوازیں آ رہی تھیں آپ ؐ نے سن کر فرمایا جبرائیلؑ یہ کیسی خوشگوار‘ معطر‘ مبارک‘ راحت و سکون والی آوازیں ہیں۔ عرض کیا اے محبوب کائناتؐ یہ جنت کی آوازیں ہیں‘ وہ کہہ رہی ہیں کہ اے باری تعالیٰ میرے ساتھ تو نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا فرما۔
میرے بالا خانے موتی‘ مونگے‘ سونا‘ چاندی‘ جام‘ کٹورے‘ شہد‘ پانی‘ دودھ‘ شراب طہور وغیرہ وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ اسے رب کائنات کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک وہ مسلمان جو مجھے اور میرے رسولوںؑ کو مانتا ہے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور نہ ہی میرے برابر کسی کو سمجھتا ہے وہ سب تجھ میں داخل کئے جائیں گے۔
پھر فرمایا اے جنت سن جس کے دل میں میرا خوف ہے وہ ہر خوف و خطر سے محفوظ ہے۔ مجھ سے سوال کرنے والا محروم نہیں رہتا۔ مجھے قرض دینے والا بدلہ پاتا ہے جو میرے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسے خوب عطا کر کے اسکی کفالت کرتا ہوں ‘ میں سچا معبود واحد ہوں میرے سوا کوئی اور عبادت کے لائق نہیں۔ میرے وعدے غلط نہیں ہوا کرتے۔ مومن نجات یافتہ ہے ۔اللہ پاک نے فرمایا میں بابرکت اور سب سے بہتر خالق ہوں۔
یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہوں۔
دوزخ کی خوفناک وادی:
حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے‘ کہ سید کونین ؐ نے ایک اور وادی دیکھی جہاں سے نہایت بھیانک اور خوفناک آوازیں آ رہی تھیں۔ اور سخت بدبو آ رہی تھی۔ آپ ؐنے اس کے بارے میں حضرت جبرائیل ؑ سے پوچھا اُنہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ یہ جہنم کی آواز ہے جو یہ کہہ رہی ہے مجھے وہ دے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔
میرے طوق و زنجیریں‘ میرے شعلے‘ تھوہر لہو او رپیپ‘ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں۔ میرا گہرائو بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے۔ مجھے وہ عنایت فرما جس کا وعدہ مجھ سے ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہر مشرک و کافر‘ خبیث‘ منکر‘ بے اِیمان مرد عورت میرے لئے ہے۔ یہ سن کر جہنم نے اپنی رضامندی ظاہر کی۔

اگر آپ ؐجواب عنایت فرماتے تو!
حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ابھی میں براق پر سوار ہو کر چلا ہی تھا تو مجھے کسی پکارنے والے نے دائیں طرف سے پکارا، ترجمہ:تین مرتبہ یہ کہا اے محمدمصطفی ؐ میری طرف دیکھئے میں آپ ؐ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ ؐفرماتے ہیں‘ نہ میں نے جواب دیا نہ ہی میں ٹھہرا۔ پھر جب تھوڑا آگے بڑھا تو بائیں طرف سے کسی پکارنے والے نے اِسی طرح پکارا: ’’اے محمد ؐ میری طرف دیکھئے میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘۔
سرکار کائنات ؐ فرماتے ہیں نہ میں نے اُس کی طرف دیکھا اور نہ میں ٹھہرا۔ پھر کچھ آگے گیا تو ایک عورت دُنیا بھر کی زینت کئے ہوئے بازو کھولے کھڑی ہے۔ اُس نے مجھے اِسی طرح آواز دی: یا محمد انظرنی اسلکلیکن میں نے نہ تو اس کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی وہاں ٹھہرا۔ جب بیت المقدس پہنچے تو حضرت جبرائیل ؑ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہؐ آپ ؐ متفکر کیوں ہیں؟ فرمایا راستے والے واقعات سے۔
عرض کیا‘ یا رسول اللہ ؐ پہلا شخص تو یہودی تھا اگر آپ ؐ اُس کا جواب فرما دیتے تو آپ ؐکی اُمّت یہودی ہو جاتی۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھا۔ اگر آپ ؐ وہاں ٹھہرتے اور اُس سے باتیں کرتے تو آپ کی اُمّت نصرانی ہو جاتی۔ اور وہ عورت دُنیا تھی اگر آپ ؐ اُسے جواب دیتے یا وہاں ٹھہرتے تو آپ ؐکی اُمّت دُنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی۔ اللہ اکبر!

Browse More Islamic Articles In Urdu