Open Menu

Mashal Islam - Article No. 2933

Mashal Islam

مشعل اسلام - تحریر نمبر 2933

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کو کفر ،شرک اور جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کی بے پناہ کوشش فرمایا کرتے تھے

منگل 22 جنوری 2019

علامہ محمد ولید الاعظمی العراقی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کو کفر ،شرک اور جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کی بے پناہ کوشش فرمایا کرتے تھے ۔آپ ان کے خیر خواہ اور ان کی نجات کے متمنی تھے ۔قریش اس نصیحت کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن بن گئے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردینا چاہتے تھے ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ جل مجدہ کی مدد شامل تھی ۔


قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ حق کا راستہ روکنے کے لیے بے شمار منصوبے اور پروپگنڈے کئے ۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب بھی کوئی مہمان یا مسافر حج کے لیے یاکاروبارکی غرض سے مکہ مکرمہ آتا تو یہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بچ کر رہنے کی تلقین کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتے۔

(جاری ہے)


قبیلہ ”دوس“کے ایک معزز سردار اور معروف شاعر حضرت طفیل بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”جب میں مکہ میں داخل ہوا تو قریش کے سرداروں نے میرا استقبال کیا اور کہا:
”اے طفیل! تم ہمارے شہر میں آئے ہو ،ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کے لیے مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )سے بہت محتاط رہنا ۔
اس کاکام خاصہ خطر ناک ہے ۔اس نے ہماری قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمیں منتشر کردیا ہے ۔اس کا کام جادو کی مانند ہے ،جس کی وجہ سے باب ،بیٹے ،بھائی ،بھائی اور میاں بیوی سے جدا ہو جاتے ہیں ۔ہمیں ڈر ہے کہ جو مصیبت ہم پر نازل ہوئی ہے کہیں تم اور تمہاری قوم بھی اس کی زد میں نہ آجائے ۔پس اے طفیل ! آپ نہ تو اس نوجوان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )سے کوئی کلام کریں اور نہ ہی اس کی بات سنیں ۔

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”خدا کی قسم ! قریش کے سرداروں نے مجھے اتنی تاکید کی کہ میں نے ان کی بات کوسچ سمجھ لیا اور فیصلہ کیا کہ ”صاحبِ قریش “(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کی نہ تو بات سنوں گا اور نہ ہی اس سے کلام کروں گا۔
میں اپنے کانوں میں روئی ڈال کر خانہ کعبہ میں جاتا اور پھر بھی مجھے ڈر ہوتا کہ کہیں اس نوجوان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )کا جادو مجھ پر نہ چل جائے۔

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
”ایک صبح میں خانہ کعبہ میں آیاتو خانہ کعبہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کھڑا ہو گیا۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے کچھ کلام سن لیا۔وہ بہت اچھا کلام تھا ۔میں نے اپنے دل میں کہا کہ ”میری ماں مجھے روئے میں نے کیا طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے ۔
خدا کی قسم! میں عقل مند بھی ہوں اور شاعر بھی ۔اچھے برے کی تمیز کر سکتا ہوں ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سننے میں کیا حرج ہے ؟مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سننا چاہیے۔اگر اچھی بات ہو گی تو قبول کرلوں گا اور بری بات ہو گی تو انکار کردوں گا۔“
حضرت طفیل رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :
”میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو گھر کی جانب چلے ۔میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔میں نے عرض کیا:”اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم )آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں مجھے بہت کچھ کہا۔انھوں نے اتنا پروپگنڈا کیا کہ میں اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کی آواز اپنے کانوں میں پڑجانے کے خوف سے میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی مگر اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ میں آپ کا کلام سنوں ۔

چنانچہ میں نے آپ کا کلام سنا اور اسے اچھا پایا،پس آپ اپنی دعوت کا تعارف کرائیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش فرمائی اور قرآنِ حکیم کی تلاوت سنائی ۔خدا کی قسم! میں نے زندگی بھر اس سے بہتر کلام نہیں سنا تھا اور نہ ہی اس سے زیادہ انصاف وعدل سے بھر پور کلام مجھ تک پہنچا۔
میں نے اسلام قبول کرلیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر آئندہ شہادتِ حق کا فریضہ سر انجام دینے کا عہد کر لیا۔

میں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنی قوم میں محترم ومعزز ہوں اور میری ساری قوم میری بات مانتی ہے ۔اب میں اپنی قوم کے پاس واپس جا کر انہیں اسلام کی دعوت دوں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے دعا فرما کر مجھے ایسی نشانی عطا فرما دیں جو دعوتِ حق کے کام میں میری معاون ہو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرماتے ہوئے اللہ کی بارگزہ میں عرض کیا:
”اے اللہ جل جلالہ اسے کوئی نشانی عطا فرما۔

حضرت طفیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں اپنی قوم کی جانب واپس لوٹتے ہوئے ایک پہاڑی پر پہنچا جہاں سے میرے قبیلے کے گھر اور آبادی نظر آرہی تھی ۔اچانک میری پیشانی پردونوں آنکھوں کے درمیان مشعل کی طرح روشنی چمکنے لگی ۔میں نے دُعا کی :
”اے اللہ ! یہ روشنی میرے چہرے کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا فرما دے ۔کیونکہ میری جاہل ونا کارہ قوم کے لوگ اسے مرض قرا ر دے کر کہیں گے کہ ”یہ مرض طفیل کو باپ ،دادا کے دین کے چھوڑنے کی وجہ سے لاحق ہو گیا ہے ۔

پس اللہ نے میری دُعا قبول فرمائی اور وہ روشی میری چھڑی کے سرے پر آگئی ۔قوم نے دور سے دیکھا کہ یہ چھڑی ایسے معلوم ہوتی تھی جیسے قندیل روشن ہو ۔
میں پہاڑ سے اُتر ا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے ۔یہاں تک کہ میں رات کے اندھیرے میں سفر کرتے ہوئے قبیلے کے درمیان اپنے گھر پہنچا۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu