Open Menu

Monchon Aur Darhi Ka Hukam - Article No. 3017

Monchon Aur Darhi Ka Hukam

مونچھوں اور داڑھی کا حکم - تحریر نمبر 3017

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے “۔

جمعہ 15 فروری 2019

مُبشّر احمد رَبّاَنی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے “۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مشرکوں کی مخالفت کر و ۔داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو پست کرو اور ایک روایت میں ہے :داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو“۔


ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
”ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے اور مونچھوں کو چھوڑتے ہیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو“۔
مندرجہ بالاتین احادیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کا ٹنا یا پست کرنا اور داڑھی بڑھانا فطرت اسلامی میں داخل ہے اور داڑھی کٹانا‘مونچھیں بڑھانا فطرت اسلامی کو بدلنا اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی علامت ہے ۔

(جاری ہے)

لہٰذا جو شخص مونچھیں بڑھاتا ہے‘کاٹتا نہیں وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت عذاب الیم کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”پس جو لوگ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ‘ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے یا ان پر کوئی درد ناک عذاب اُترے “۔

باقی رہا داڑھی کی مقدار کا مسئلہ ‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ الفاظ مروی ہیں ۔امام نووی رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں :
”پانچ روایات مروی ہیں ان سب کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو ۔اس حدیث کے ظاہری الفاظ اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں ۔

لہٰذا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اسے کاٹنا اہل کتاب کی علامت بتائی گئی ہے تو داڑھی کو اسی کے حال پر چھوڑ دینا ہی منشائے ایزدی ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے ہوتے ہوئے کسی دوسری بات کی طرف توجہ کرنا درست نہیں ۔
داڑھی تراشنے کے حق میں ایک روایت کا جائزہ
بعض لوگ داڑھی تراشنے اور اسے کانٹ چھانٹ کرنے کے متعلق ترمذی شریف کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں :
”عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کو عرض وطول سے کاٹتے تھے “۔

اگر یہ روایت درست ہوتی تو فی الجملہ داڑھی تر شوانے اور کانٹ چھانٹ کرنے پر استدلال صحیح ہوتا ہے لیکن یہ روایت انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہے ۔اس کی سند میں عمر بن ھارون نامی راوی ہے جس کے بارے میں حافظ الحدیث امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اما م عبدالرحمن بن مہدی ‘امام احمد بن جنبل اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے ۔
امام یحییٰ بن معین رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یہ کذاب خبیث ہے ۔اور امام صالح جزرہ رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرح کہتے ہیں ۔
امام علی بن مدینی اور امام دار قطنی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف جداً یعنی بے حد ضعیف ہے ۔امام ابو علی الحافظ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے ۔امام ساجی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں ضعیف ہے ۔
امام ابونعیم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ سن کر حد یثیں بیان کرتا ہے اور محض ہیچ ہے ۔امام علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ و ہ ضعیف ہے ۔(تہذیب التہذیب 316/4‘ 317)امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اس روایت کے بعد امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن ہارون کہ یہ روایت بالکل بے اصل ہے ۔(ترمذی(6762)و تہذیب التہذیب 304/4)علامہ البانی اس کو موضوع یعنی من گھڑت کہتے ہیں ۔
(سلسلہ احادیث ضعیفہ304/1)حیرت کی بات ہے اس بے اصل ‘من گھڑت اور بے بنیادروایت سے نہ صرف استدلال کیا جاتا ہے بلکہ اسے صحیح احادیث کے معارضہ میں پیش کیا جاتا ہے اور ایک ایسے نظریہ کو ثابت کیا جا تا ہے جس کا خیر القرون میں سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔بعض لوگ اس بے بنیاد روایت کو دلیل بنا کر داڑھی کا حلیہ اس طرح بگاڑ دیتے ہیں کہ کچھ داڑھی اوپر والے حصے سے مونڈدی اور کچھ نیچے والے حصے سے اور چہرے پر ایک چھوٹی سی پٹی کی صورت میں چند بال رکھ لیے جو کھلم کھلا شریعت سے مذاق اور شیطان کی پیروی ہے ۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور اظہارِ بیزاری ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور اپنے آپ کو سکالر اور Educatedسمجھنے والے لوگ اس سُنّتِ متواترہ کا نہ صرف مذاق اُڑاتے ہیں بلکہ اسے سُنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خارج گردانتے ہیں ۔
ایک مسلم کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (جو کہ مبنی بروحی ہوتا ہے )سے بڑھ کر کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کا نٹ چھانٹ نہ کی جائے ۔جیسا کہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی تشریح اوپر گزر چکی ہے ۔واللہ اعلم بالصواب

Browse More Islamic Articles In Urdu