Open Menu

Musalmah Awwa - Article No. 3143

Musalmah Awwa

مُسلمہ اول ۔۔تحریر:علی اصغر - تحریر نمبر 3143

وہ عرب معاشرہ جہاں بیٹی کا وجود بدنامی کا باعث سمجھا جاتا تھا اور جہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ دفن کرنے کا رواج تھا اور جہاں عورت کی عزت و ناموس کی کوئی قیمت نا تھی جہاں عورتیں بازاروں میں فروخت ہوا کرتیں تھیں اسی گھٹن زدہ معاشرے میں ایک ایسی پاکیزہ خاتون بھی تھیں جن کا نام خدیجہ تھا

جمعرات 16 مئی 2019

مکہ المکرمہ کے قدیم ترین قبرستان جنت المعٰلی میں داخل ہوں تو انسان کی آنکھیں عقیدت و احترام سے برسنا شروع ہوجاتی ہیں کیونکہ اس قبرستان میں اسلام کے دو محسن آرام فرما رہے ہیں، یہ وہ دو محسن ہیں جنہوں نے اسلام کو اس وقت سہارا دیا جب رسول اللہ ﷺ نے عرب کے بدمعاش ماحول میں تنہا لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کیا تو قریش رسول اللہﷺ کے خلاف اٹھ کھڑے اس وقت اسلام کا کوئی نام لیوا نا تھا ان محسنِ اسلام کی نصرت سے یہ نعرہ مکہ کی وادیوں سے ہوتا ہوا قیصر و کسرٰی کے تخت و تاج کو روندتا ہوا پوری دنیا میں پھیل گیا۔
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے پیچھے ہمت و حوصلہ کے ساتھ ساتھ طاقت اور مال اہم ترین چیزیں شامل ہیں۔ رسول اللہ نے جب اعلان نبوت کیا تو وہ عرب بدو جورسول اللہﷺ کے اخلاق کی تعریفیں کرتے تھکتے نا تھے وہ آپ ﷺ کے جانی دشمن بن گئے اور مختلف طریقوں سے اذیتیں دینا شروع کر دیں لیکن اس وقت پورے عرب میں واحد ایک جناب ابو طالب ہی تھے جنہوں نے اپنے بھتیجے کی پشت پناہی کی اور ہر مقام پہ ڈھارس بندھائی اور جب طاقت کی بات آئی تو علی ابن ابی طالب کی تلوار نے رسول اللہ ﷺ اور اسلام کے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دیں۔

(جاری ہے)

وہ عرب معاشرہ جہاں بیٹی کا وجود بدنامی کا باعث سمجھا جاتا تھا اور جہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہیں زندہ دفن کرنے کا رواج تھا اور جہاں عورت کی عزت و ناموس کی کوئی قیمت نا تھی جہاں عورتیں بازاروں میں فروخت ہوا کرتیں تھیں اسی گھٹن زدہ معاشرے میں ایک ایسی پاکیزہ خاتون بھی تھیں جن کا نام خدیجہ تھا۔ پاکیزگی اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے عرب کے جاہل بدو انہیں طاہرہ کے لقب سے پکارتے تھے اور عرب کے بڑے سے بڑے قبائل اس عورت کے مقروض ہوا کرتے تھے اس عظیم خاتون کا تعلق ایک بڑے تاجر خاندان سے تھا، اور آپ کو ملیکة العرب کے نام سے بھی جاناجاتا تھا۔
آپ کے تجارتی قافلے شام و یمن وغیرہ میں تجارت کے لیے جاتے تھے، آپ کے تجارتی قافلوں کی تعداد کافی زیادہ تھی، اسی لیے آپ نے مختلف لوگوں کو معین کیا جو ان تجارتی قافلوں کو لے کر جاتے اور سامان تجارت کی خرید و فروخت کرتے۔ انہی قافلوں میں سے ایک قافلہ نبی کریم ﷺ کے سپرد ہوا، اس قافلے کی واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے آپ ﷺ کی جو اخلاقی صفات بیان کیں، ان سے متاثر ہو کر آپ ﷺ کو خود پیغام نکاح بھجوایا۔
یہاں حضرت خدیجہ کی نگاہ انتخاب کو داد دینی چاہیے، آپ نے عرب کے بڑے بڑے سرداروں کے پیغام نکاح ٹھکرا دیئے مگر عبداللہ کے یتیم جو ظاہری مال و اسباب سے محروم، انھیں پسند فرمایا۔ ایک تاجر خاتون کی حیثیت سے آپ کو ایک ایسے مرد کا انتخاب کرنا چاہیے تھا جو بڑے مال و اسباب کا مالک اور صاحب طاقت ہو، مگر حضرت خدیجہ کے ہاں ان جاہلی معیارات کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
آپ کے ہاں انتخاب کا معیار امانت، دیانت اور صداقت جیسی صفات حسنہ ہیں، اور سیدہ خدیجہ س کا یہ طرز عمل ہمارے لئے بھی نمونہ ہے۔ سیدہ خدیجہ کا نکاح آپ ﷺ کے ساتھ سلطانِ سادات سیدنا ابو طالب نے پڑھایا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد ایک فصیح و بلیغ خطبہ بھی دیا جو تاریخ کی کتب میں رقم ہے۔ ورقہ بن نوفل نے مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان کھڑے ہو کر حضرت خدیجہ کے حکم سے یہ اعلان کیا: اے عرب خدیجہ مہر کی رقم سمیت تمام اموال، غلام اور کنیزوں کو پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں آپ کو گواہ بنا رہی ہیں۔
اپنے شوہر کے لیے اتنا جذبہ خیر سگالی، اس محبت، اطاعت کا اظہار، یہ فقط حضرت خدیجہ ﷺکے حصہ میں آیا۔ سیدہ خدیجہ جیسے ایک کامیاب تاجر تھیں ویسی ہی کامیاب بیوی بھی ثابت ہوئیں اور اسلام کی پہلی مسلم خاتون کے ساتھ ساتھ نبوت کی پہلی گواہ بھی قرار پائیں۔ وہ عرب قبائل جو ملیکة العرب کے مقروض ہوا کرتے تھے انکے قرض اس شرط پہ جناب خدیجہ نے معاف کیے کہ وہ اسلام قبول کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں،تبلیغ اسلام کا آغاز ہوا تو جس طرح آپ ﷺسے لوگ دور ہوئے نہ بات کرتے، نہ مدد کرتے، الٹا تنگ کیا جاتا، ستایا جاتا، یہی صورت حال حضرت خدیجہ کو قریش کی خواتین کی طرف سے پیش آئی۔
آپ کی سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین نے آپ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا مگر آپ ثابت قدمی میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی، وہ جن کے پاس خواتین کے جھرمٹ ہوتے تھے، جن کی کنیزیں تھیں، ان سے بات کرنے والا کوئی نہیں، جب نبی کریمﷺ کفار کی طرف سے پہنچائی گئی اذیتوں سے پریشان ہوکر گھر تشریف لاتے تو جناب خدیجہ آپ کو تسلی دیتیں اور آپ ﷺ گھر میں سکون پاتے۔
یہ وہ مسلمہ اول ہیں جنہوں نے کعبہ میں سب سے پہلے نبی کریمﷺ کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کی، جناب خدیجہ کی زندگی میں نبی مکرمﷺ نے دوسرا عقد نہیں کیا اور آپ کے ہی بطن سے اللہ نے نبی کریمﷺ کو صاحب اولاد کیا اور دشمنان رسولﷺ کے ابتر جیسے طعنے بند ہوئے۔ جب قریش نے مسلمانوں سے معاشرتی لاتعلقی اختیار کی تو بنی ہاشم شعب ابی طالب میں پناہ لینے پہ مجبور ہوگئے تو یہی ملیکة العرب بی بی جن کے قافلے عرب و عجم میں تجارت کے لئے جاتے تھے جن کی سینکڑوں کنیزیں قطاروں میں کھڑی ہوا کرتی تھیں اسی بی بی کو درختوں کے پتے کھانے پڑے مگر مجال ہے جو انکی رسول اللہﷺ اور اسلام کے لئے محبت میں کمی آئی ہو زندگی کی ہر مشکل میں یہ آپﷺ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔
جس سال شعب ابی طالب کا مقاطعہ ختم ہوا اسی سال جناب ابو طالب اور سیدہ خدیجہ کا انتقال ہوا اس طرح نبی مکرمﷺ کے دو عظیم پشت پناہ جدا ہوئے اور آپﷺ نے اس سال کو غم کا سال قرار دیا۔ کروڑوں درود و سلام ہوں سلطانِ سادات نگہبان رسالت سید العرب سیدنا ومولانا ابو طالب اور ملکیة العرب مسلمہ اول ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیھا کے ذات اقدس پہ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu