Open Menu

Ramzan Kaise Guzarain - Article No. 3389

Ramzan Kaise Guzarain

رمضان کیسے گزاریں؟ - تحریر نمبر 3389

حضرتِ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں

 Syed Atiq ur Rehman Bukhari سید عتیق الرحمن بخاری اتوار 26 اپریل 2020

حضرتِ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت ﷺ نے فرمایا کہ ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے“(صحیح بخاری) رمضان المبارک ایک ایسا مقدس مہینہ جو کہ رحمتوں، برکتوں اور انعامات سے بھرا ہے۔اللہ تعالیٰ نے12 مہینے بنائے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی، ہر مہینے کو عظیم سے عظیم انعامات دیکر بھیجا۔
مگر رمضان المبارک کا ماہ مقدس ایسا ہے جس میں ربِّ ذولجلال نے کسی خاص انعام کا ذکر نہیں کیا بلکہ آسمان کے تمام دروازے کھول کر ثابت کردیا کہ یہ مہینہ برکتیں ہی برکتیں سمیٹے ہوئے ہے۔اب غور طلب بات یہ کہ کیا محض دروازہ کھل جانا ہی اس امر کی دلیل ہے کہ آپ داخل ہوگے۔

(جاری ہے)

بھلے ہی آپ حرکت نہ کریں دروازے کی جانب نہ لپکیں، آپ سمجھیں گے کہ داخل ہوگئے۔

ایسا نہیں ہے۔دروازے کا کُھل جانا ایک موقع مل جانے کے مترادف ہے اب ہم پر ہے کہ ہم اس موقعے سے کس قدر فائدہ اٹھا کر اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ تو ہمیں کرنا کیا ہے؟ اللہ کی ذات نے فرمایا کہ”اے ایمان والو! روزے تم پر فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض ہوئے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو“ سوال یہ ہے کہ کیا نماز پرہیز گار نہیں بناتی، حج پرہیز گار نہیں کرتا، زکوٰۃ پرہیز گار نہیں بناتی، دیگر عبادات پرہیز گاری کی ضامن نہیں ہیں؟؟ تو بات دراصل یہ ہے کہ روزہ درحقیقت ان تمام عبادات کا مجموعہ ہے اسلیے فرمایا گیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ، کیسے؟ ایسے کہ جب انسان حالتِ روزہ میں ہوتا ہے وہ کھانے، پینے سے رک جاتا ہے کیوں؟ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے۔
اور اللہ کے حکم کی تعمیل ہی دراصل تقویٰ ہے۔نماز ہم پڑھتے ہیں کہ فرض ہے۔زکوٰۃ دیتے ہیں کہ فرض ہے نہ ادا کی تو مال حرام ہو گا۔حج ادا کرتے ہیں کبھی بخشش طلب کرنے کے لیے کبھی زیارت کی غرض سے۔روزہ وہ واحدعبادت ہے جو محض اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اور اس دوران جن امور سے اجتناب کرتے ہیں وہ فقط اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے کیا جاتا ہے۔تقویٰ سے مراد یہ کہ انسان ”منہیات“ سے تو پرہیز کرتا ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ مشتبہات سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
روزے کی حالت میں بھی بالکل اسی طرح روزہ دار ہر اس عمل سے اس چیز سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جو اسکے روزہ کو خراب کرے۔تو ثابت ہوا کہ روزے اسلیے فرض کیے گئے تاکہ ہم پرہیز گار بن جائیں۔اب ہمارا نقطہ یہ تھا کہ جنت کے دروازے کھول دیے گ?ے تو ہمیں داخل کیسے ہونا ہے؟ہم نے قیام و سجود کو، سحر و افطار کو، صدقات و خیرات کو، حرکت کا وسیلہ بنا کر جھوٹ، غیبت، چغلی، چوری اور اس جیسی دیگر آلائشوں کے کانٹوں کو اپنی راہ سے چن کر رستے کو صاف کر کے اس دروازے کی جانب بڑھنا ہے۔
اور پھر اللہ کے احکام بجا لاتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچنا ہے یوں ہم نے اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر خوش نصیبی کو اپنا مقدر بنانا ہے۔اس ماہِ مقدس کا استقبال کیجیے۔خود کو عبادات کے لیے تیار کر کے، روزہ کے لیے عزمِ مصمم کر کے، ضرورتمندوں طعام کا حسبِ استطاعت انتظام کر کے، اپنے گھروں کو اس ماہِ مقدس کی آمد کی خوشی میں امن و سلامتی کا گہوارہ بنا کر۔
اب سوال یہ کہ ہم روزہ کس حالت میں قضا کر سکتے ہیں اس فرض کی چھوٹ کن صورتوں میں ہے؟تو فرمایا(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
(ترجمہ آیات) تو اس میں حکم دیا گیا کہ کن حالات میں تم اس فرض کی قضا کرسکتے ہو۔یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ دین اسلام آسان دین ہے اور اللہ اپنے بندوں پر بے جا ظلم نہیں کرتا۔ویسے تو روزے کے فضائل اور اسکی اہمیت بے شمار کے اسے احاطہ تحریر میں لانا ناممکن ہے کیونکہ اللہ کی ذات فرماتی ہے کہ ”روزہ میرے لیے ہے اسکا اجر بھی میں دونگا تو پھر سوچیے جس چیزکا اجر واضح الفاظ میں اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا اسے بیان نہیں کیا اسے احاطہ تحریر میں لانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ اسکی اہمیت وفضیلت کی ایک جھلک دیکھیے۔
حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ سے کلام کرتے ہوئے پوچھا کہ”اے اللہ کوئی ایسا بھی ہے کوئی مجھ سے زیادہ تیرے قریب ہو؟“ تو اللہ کی ذات نے فرمایا کہ ”اے موسیٰ!ایک ایسی امت آئے گی ایک مہینہ ایسا ہوگا جسمیں انکے حلق خشک ہونگے، لب سوکھے ہونگے آنکھیں تھکی ہونگی جب وہ افطار کے لیے بیٹھیں گے اسوقت جب ہاتھ اٹھائیں گے تو میں انکے اتنا قریب ہونگا کہ کوئی پردہ حلال نہیں ہوگا۔آئیے ہم سب کوشش کرتے ہیں کہ رمضان المبارک کی برکتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

Browse More Islamic Articles In Urdu