Open Menu

Rasool Allah Sale Allah Alaihi Wasallam Ka Saya - Article No. 2646

Rasool Allah Sale Allah Alaihi Wasallam Ka Saya

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ - تحریر نمبر 2646

تفصیل سے واضح کریں کہ سیّد الانبیاء مُحمدّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھا یا نہیں ؟

جمعرات 15 نومبر 2018


سیّد الانبیاء مُحمدّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے ہی پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر فرمایا ہے کہ:
”اور جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتی ہیں اور اُن کے سائے بھی صُبح وشام سجدہ کرتے ہیں ۔


ایک اور مقام پر فرمایا:
”کیا انہوں نے اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اُس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔یعنی اللہ کے آگے عاجز ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں ۔“
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان وزمین میں اللہ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اُن کا سایہ بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اللہ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سایہ تھا ۔

(جاری ہے)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّد نا اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اُچک لوں مگر فوراً حکم ملاکہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

امام ذہبی رحمتہ اللہ علیہ نے تلخیص مستدرک میں فرمایا:یہ حدیث صحیح ہے ۔اِسی طرح مسند احمد
132/6 ‘6 / 338طبقات الکبریٰ127/8جمع الزوائد 323/4پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں ُصفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اُونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اُنہوں نے کہا میں اُس یہودیہ کو کیوں دوں ؟اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
”اچانک دیکھتی ہوں کہ دو پہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔

عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اُس جسم کا ہوتا ہے جو ٹھوس اور نگر ہونیز سورج کی شعاعوں کو آگے گزرنے نہ دے ۔لیکن اگر وہ جسم اتنا صاف اور شفاف ہوکہ وہ سورج کی شعاعوں کو روک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اُس کا سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔
بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اُس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے ۔
لا محالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا ۔اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس پہنتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملبوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اُن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہنے سے ستروغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ پر قدم آجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی اِس لیے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا۔
جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘سراسر غلط ہے ۔نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّدناجابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ غزوئہ احد میں شہید ہوگئے تو اُن کے اہل وعیال اُن کے گرد جمع ہو کررونے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اُٹھا نہیں لیتے اُس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے پَروں کا سایہ کیے رکھیں گے۔

اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اُس کے پاؤں کے اُوپر ہو جائے گا نہ کہ نیچے ۔لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کے خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سندباتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔
( مُبشّر احمد رَبّاَنی)
(کتاب آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد نمبر1)

Browse More Islamic Articles In Urdu