Open Menu

Rizaq Halal - Article No. 1682

Rizaq Halal

رزق حلال - تحریر نمبر 1682

ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگی کہ جب تک رزقِ حلال نہ کمایا جائے گا اور کھانا پینا اور پہننا حلال مال سے نہ ہوگا تو کسی عبادت اور تسبیح کا روحانی فائدہ ہرگز حاصل نہ ہوگا۔

جمعہ 27 اپریل 2018

علامہ منیر احمد یوسفی

رُوحانی صحت کیلئے ظاہری وباطنی پاکیزگی بنیادی حیثیت رکھتی ہے‘ یاد رہے کہ غسل کرلینا، باوضو ہو جانا، پاک صاف ستھرے نئے یا دُھلے ہوئے کم قیمت یا بیش قیمت کپڑے پہن کر خوشبو لگا لینے کا نام ہی ستھرائی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میںاَصل ستھرائی تب حاصل ہوتی ہے، جب کپڑے ،کھانا پینا یہ تمام چیزیں حلال مال سے ہوں۔
حرام مال سے پلنے والا جسم، زیب وزینت اور خوش پوشی، غسل ووضو دیکھنے والوں کی نگاہوں کے لئے تو باعث کشش ہو سکتا ہے مگر رَبِّ ذوالجلال والاکرام کی نگاہِ پاک اور قانون پاک میں اَیسی زیبائش اور چمک دمک کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرنا ہوگی کہ جب تک رزقِ حلال نہ کمایا جائے گا اور کھانا پینا اور پہننا حلال مال سے نہ ہوگا تو کسی عبادت اور تسبیح کا روحانی فائدہ ہرگز حاصل نہ ہوگا۔

(جاری ہے)

نیز اِس حقیقت سے چشم پوشی کرنے والا جو حرام کمائی سے گزر بسر کرے پھرفخرکرے اور حرام مال ہی سے ربِّ کائنات کی راہ میں خرچ کرے‘ قطعاً منزلِ مراد کو نہیںپہنچ سکتا کیونکہ اللہ ناپاک مال ہرگز قبول نہیں فرماتا۔قرآنِ مجید میںربّ ِذوالجلال والاکرام نے بڑی وضاحت کے ساتھ رزقِ حلال کے بارے میں اَحکام فرمائے ہیں اور اَحادیثِ مبارکہ میں پیارے نبی کریمؐ کے اِرشاداتِ مبارکہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔
رزقِ حلال تمام عبادات اور معاملات کی روح ہے۔ اَنبیاء کرامؑ جو معصوم عن الخطاء ہیں یعنی ارادۂ خطاء سے بھی پاک‘ نفوسِ قدسیہ ہیں‘ اُنہیں طیّب اور حلال رزق کی اہمیت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں فرمایا ہے: ’’اے پیغمبرو ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور اَعمالِ صالح کرو‘‘۔ (المؤمنون:۱۵) تا کہ دُنیائے اِنسانیت میں رزقِ حلال کی اہمیت کا علم عام ہو جائے۔

اِسی طرح اللہ نے اہلِ اِیمان کو بھی فرمایا ہے:- ’’ اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھائو‘‘۔ (البقرہ:۲۷۱) بلکہ پوری اِنسانیت کو فرمایا: ’’اے لوگو! کھائو اُس میں سے جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے‘‘۔ (البقرۃ:۸۶۱)
سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر۸۸ اور سورۃ النمل کی آیت نمبر۴۱۱ میں اِرشادِ ربانی ہے: ’’اور کھائو (اُس میں سے)جو اللہ نے تمہیں(حلال روزی) عطا فرمائی ہے‘‘ ۔
حلال وہ ہے جو حرام نہ ہو اور طیّب وہ ہے جوچیز ناپاک نہ ہو۔
لغت میں رزق کے دو معنی ہیں(۱) عطا، یعنی دی ہوئی چیز اور (۲) حصّہ۔ اِصطلاح میں رزق وہ ہے جس سے کوئی جاندار چیز نفع حاصل کرے یا جو غذا ‘اللہ کریم کی طرف سے ذی حیات کو نشوونما کے سامان کے طور پرملے۔ لہٰذا ہوا‘ پانی‘ لباس‘ غذائیں‘ زمین اور اَولاد وغیرہ غرضیکہ دُنیا کی ہر نعمت رزق ہے۔

حَلٰلاً : یہ لفظ حَلٌّ سے بنا ہے جس کے اَصلی معنی گرہ کھولنے کے ہیں‘ جیسے ’’اور میری زبان کی گرہ کھول دے‘‘۔ (طہٰ:۷۲)
حلال‘ حرام کی ضد ہے یعنی جس پر رکاوٹ کی گرہ نہ ہو، کھلی ہوئی چیزیں۔ شریعت میں حلال وہ ہے جس کی ممانعت نہ ہو۔ شرعی اِصطلاح میں حلال اور حرام کا تعین اللہ اور اُس کے رسولِ کریمؐ اور آپ ؐکے ورثاء یعنی علماء اور مجتہدین‘ قرآنِ مجید و احادیثِ مبارکہ کی رو سے کرتے ہیں ۔
اگر شریعتِ مطہرہ میں اِس قدر سہولت نہ ہوتی تو معاملہ نازک ہو جاتا اور حلال چیز کا حصول دشوا رہو جاتا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم نے دین و دُنیا کے قانون کی اِس طرح تقسیم فرمائی ہے کہ آخرت کو اَجر کی جگہ فرمایا ہے اوردُنیا تگ ودواور جدوجہد کیلئے وقف کر دی۔ یہ سعی حصولِ رزق ہی کا ذریعہ نہیں بلکہ آخرت کیلئے زاد ِ راہ فراہم کرنے کا وسیلہ بھی ہے۔

بعض دفعہ ایک طاقتور اِنسان چھین کر اور کمزور چُرا کر بھی کھا لیتا ہے مگر یہ صِفت حیوانات اور درندوں کی ہے۔ ایک جانور نسبتاً کمزور جانور سے چیز چھین لیتا ہے ۔ ایک کتا دوسرے کتے سے ہڈی جھپٹ لیتا ہے ۔ شیر کمزور جانوروں کو چیر پھاڑ کر اُن کا خون پی جاتا ہے ،کم و بیش تمام درندے اپنا رزق طاقت اور چھینا جھپٹی سے حاصل کرتے ہیں۔ بندہ ٔمومن کے سر پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ہونے کا تاج رکھا ہے ۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک جو اِیمان لائے اور اَچھے کام کئے‘ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں‘‘۔ (البیّنۃ:۷) یعنی اشرف المخلوقات ہیں۔ ویسے اِنسان کے بارے میں مطلقاً فرمایا: ’’بے شک ہم نے آدمی کو اچھی صورت پر بنایا‘‘۔ (التین:۴) مگر کفر کی وجہ سے تمام مخلوق سے بدتر ہوگیا ۔ فرمان ربّ ِذوالجلال والا کرام ہے: ’’بے شک جتنے کافر ہیں کتابی اور مشرک ‘سب جہنم کی آگ میں ہیں ،ہمیشہ اُس میں رہیں گے ‘وہی تمام مخلوق میں بدتر ہیں‘‘۔
(البینۃ:۶) قرآنِ مجید میں دو مختلف مقامات پر اللہ نے کافروں کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے۔
’’بے شک جہنم کے لئے پیدا کئے بہت جن اور اِنسان، وہ دل رکھتے ہیں جس میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان رکھتے ہیں جن سے سنتے نہیں۔ ’’وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بڑھ کر گمراہ، وہی غفلت میں پڑے ہیں‘‘۔
(الاعراف:۹۷۱) اپنے پیارے محبوب کریم ؐ سے فرمایا:- ’’(اے محبوب ؐ یہ مشرکین اور کفار) جب آپؐ کو دیکھتے ہیں تو آپ ؐ سے ٹھٹھا کرتے ہیں‘ (اور کہتے ہیں) کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے رسول ؐ بنا کر بھیجا ہے؟ قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے خدائوں سے بہکا دیںاگر ہم اِن پر صبر نہ کرتے اور اَب جاننا چاہتے ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے کہ کون گمراہ تھا؟ کیا آپ ؐ نے اُسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا معبودبنا لیا تو کیا آپؐ اُس کی نگہبانی کا ذمہ لوگے یا یہ سمجھے ہو کہ اُن میں بہت کچھ سنتے یا سمجھتے ہیں‘‘؟ بلکہ ’’وہ تو نہیں مگر جیسے چوپائے بلکہ اُن سے بھی بدتر گمراہ‘‘۔
(الفرقان:۴۴) جانوروں اور کفار و مشرکین سے ہٹ کر بندۂ مومن حصولِ رزق میں فہم و اِدراک سے صحیح اور جائز طور پر کام لے، طاقت کا غلط استعمال نہ کرے اورسِفْلی جذبات کو اِنصاف کے تقاضوں پر غالب نہ آنے دے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم نے سامانِ معیشت حاصل کرنے کے لئے فرمایا ہے: ’’تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘۔
(الجمعہ : ۰۱)(اِس سے مراد رزقِ حلال ہے)
حلال روزی کیلئے کوشش کا درجہ بھی فرض کا درجہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے ،فرماتے ہیں،رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’ حلال کمائی کی تلاش ایک فرض کے بعد دوسرا فرض ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص ۲۴۲‘ مجمع الزوائد جلد۰۱ ص۱۹۲‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۶ ص ۸۲۱‘ کنز العمال حدیث نمبر ۱۳۲۹‘ کشف الخفاء للعجلونی جلد ۲ ص۶۴‘ المعجم الکبیر للطبرانی جلد ۱۱ ص ۴۷‘ الترغیب والترہیب جلد ۲ص ۶۴۵‘(طبرانی اور الترغیب والترہیب میں کسب کا لفظ نہیں ہے)۔

ایک حدیث شریف جس کے راوی حضر ت انس بن مالک ہیں‘ رسول کریم ؐ کا اِرشادِعظیم بیان کرتے ہیں کہ ’’رزقِ حلال کی طلب ہر مسلمان پر واجب ہے‘‘۔ جو حلال روزی کماتا ہے اُس کا دِل نور سے معمورہوتا ہے اور حکمت وعقلمندی رزقِ حلال سے بڑھتی ہے۔ (مجمع الزوائد جلد ۰۱ ص ۱۹۲‘ الترغیب والترہیب جلد۲ص ۶۴۵‘ کنز العمال حدیث نمبر ۴۲۰۹)
جو چیز بیک وقت فرض بھی ہو اور واجب بھی اُسے حاصل کرنے پر سرکارِ کائنات ؐ نے جہاد کا درجہ عطا فرمایا ہے۔
’’حلال روزی کی تلاش کرنا جہاد ہے‘‘۔ (کنز العمال حدیث نمبر۵۰۲۹)
اِسلام اَحکام اِلٰہی کے مطابق اِس کارخانۂ حیات میں بھر پور حصّہ لینے کا نظام عطا فرماتا ہے۔ حضرت انس ؓ سے ایک روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی نے حضور نبی کریمؐسے (مالی)اِمداد چاہی(خیرات مانگی) تو رسولِ کریم ؐ نے اُس کو فرمایا: تیرے گھر میں کوئی چیز ہے۔
اُس نے عرض کیا‘ میرے پاس ایک ٹاٹ ہے ۔ ہم (گھر والے) کچھ بچھا لیتے ہیں اور کچھ اَوڑھ لیتے ہیں اور ایک برتن ہے جس میں پانی پی لیتے ہیں۔ فرمایا:’’ دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آئو‘‘۔ آپ ؐ نے اُن دونوں چیزوں کو لانے کے لئے حکم فرمایا۔ آپؐ نے دو درہم میں دونوں چیزیں بیچ دیں اور اُس صحابی سے فرمایا: ’’ایک دِرہم کا گھر والوں کیلئے غلہ خرید لے اور ایک درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لا۔
وہ کلہاڑی لایا‘ آپ ؐ نے اپنے دست ِمبارک سے اُس میں لکڑی کا دستہ ڈال دیا(ٹھونک دیا) اور فرمایا: ’’جائو ‘لکڑیاں کا ٹو اور بیچو‘‘۔ پھر وہ صاحب لکڑیاں کاٹتے اور بیچتے رہے اور دس درہم کما لئے ۔ اُس نے کچھ درہموں سے کپڑا اور کچھ سے غلہ خریدا۔ حضور ِانور ؐ نے فرمایا: کہ تمہارے لئے یہ اُس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوالات تمہارے منہ پر داغ بن کر آئیں‘‘۔
(مشکوٰۃ ص ۳۶۱‘ ابودائود جلد۱ ص ۹۳۲‘ ابن ماجہ ص ۸۵۱‘ دُرِمنثور جلد ۱ص ۶۹)
حضور نبی کریمؐ کا اَبر ِکرم اگرچہ ہر سائل پر ہر وقت برستا ہے مگر آپؐ کو گداگری ناپسند ہے۔ اِسلام کسبِ معاش کو اِنتہائی نیک عمل قرار دیتا ہے مگر اِس شرط کے ساتھ کہ کسبِ معاش کے طریقے جائز ہوں۔
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے ، فرماتی ہیں ،رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’سب سے بہتر غذا جو تم کھائو وہ تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اَولاد تمہاری اپنی کمائی سے ہے‘‘۔
(مسند احمد جلد ۲ص ۸۷۱‘ ابن ماجہ ص ۶۶۱‘ مشکوٰۃ ص ۲۴۲‘ کنز العمال حدیث نمبر ۵۲۲۹‘ ترمذی حدیث نمبر ۸۵۳۱) یعنی تمہاری اَولاد کی کمائی بھی تمہاری اپنی ہے۔
اِس پُر فتن دَور میں جبکہ حلال وحرام کا اِمتیاز لوگ مٹاتے چلے جارہے ہیں۔ اِس دَورمیں رزقِ حلال کمانا بہت بڑی عبادت ہے ۔ جو شخص حلال اور حرام کا اِمتیاز کرے اور مشتبہ چیزوں سے بچے وہ اپنادین اور اپنی آبرو بچا لے گا۔
جو شبہات میں پڑے گا وہ حرام میں واقع ہو جائے گا۔ (مشکوٰۃ ص ۱۴۲‘ بخاری جلد۱ ص ۵۷۲‘ ابن ماجہ ص ۶۹۲‘ السنن الکبری للبیہقی جلد ۱ص ۴۶۲‘ الترغیب و الترہیب جلد۲ص ۴۵۵ ‘مسلم جلد ۲ص ۸۲‘ شرح السنۃ جلد۴ص۷۰۲‘ دارمی جلد ۲ص ۵۴۲)
حضرت عوف بن مالک ؓکے فرزند ِارجمند حضرت سالم بن عوفؓ کو مشرکین قید کرکے لے گئے۔ حضرت عوف بن مالک ؓنے بارگاہِ نبویؐ میں اپنے فقرو فاقہ اور بیٹے کی گرفتاری کا ذکر کیا ۔
تورسولِ کریمؐ نے فرمایا: ’’تقویٰ اختیار کرو، حرام سے بچو اور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ کثرت سے پڑھو۔ اُنہوں نے اَیسا ہی کیا۔ چند روز بعد بیٹا آگیا۔ حضرت عوف بن مالک ؓنے دیکھا کہ بیٹا دشمن کے ایک سو اُونٹ گھیرلایا ہے۔ (ابن کثیر جلد ۴ص ۲۳۳۔ خزائن العرفان)
ایک روایت میں ہے کہ چار ہزار بکریاں لایا ہے ۔
حضرت عوف بن مالک نے حضورنبی کریمؐ سے دریافت کیا کہ کیا یہ مال ہمارے لئے حلال ہے؟ فرمایا: ہاں!حربی کافر کا سامان جائز ہے ۔ اِس موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اُس کیلئے نجات کی راہ نکال دے گا اور اُسے وہاں سے روزی عطافرمائے گا جہاں سے اُس کا گمان بھی نہ ہو‘‘۔ (الطلاق:۳) معلوم ہوا تقویٰ اور پرہیز گاری اِختیار کرنے اور حرام سے بچنے والے کو غموں سے نجات اور غیب سے برکت والی روزی حاصل ہوتی ہے۔

غذا یعنی کھانا زندگی کی بقا ء کے لئے لازمی امر ہے ۔ اللہ نے اِنسان کی پیدائش سے قبل ہی اِس کی خوراک کا اِنتظام فرمایا ہے، جونہی بچہ پیدا ہوتا ہے شیرِ مادر کا نور اُس کی غذا بنایا جاتا ہے۔ جبکہ رزق کی تلاش اور اُس کا حصول ربِّ ذوالجلال والاکرام نے عبادت بنا دیا ہے بلکہ نماز کی طرح رزقِ حلال کے حصول کو عبادت فرمایا گیا ہے۔
یہ حقیت تسلیم کرنا روح کی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ اِنسان رزق کھانے کیلئے پیدا نہیں ہوا بلکہ رزق اِس کی غذا کیلئے پیدا فرمایا گیاہے۔
اِس مختصر سی زندگی میں وہ خوراک جو اِس اِنسان نے کھانی ہے ‘ربّ ِذوالجلال والاکرام کے پیارے محبوب نبی کریم ؐنے اُس کے آداب سکھائے اور پڑھائے ہیں تاکہ حیوانِ مطلق اورحیوانِ ناطق میں اِمتیاز ہو سکے۔ اگر حضر ت اِنسان اُن آداب کو اپنا لے گا تو وہ لمحات اور گھڑیاں اللہ تبارک وتعالیٰ جل شانہ کی بندگی، رسولِ کریم ؐ کی پیروی اور بندے کی روحانی ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔
اِس لئے وہ آداب جاننے چاہئیںجن سے حضرت اِنسان کا کھانا زندگی کی بقا ء اور روح کی غذا اور روحانیت کے عروج کا سبب بنے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں ‘رسولؐ اللہ نے فرمایا: جو گوشت حرام سے پلا وہ جنت میں نہیں جائے گا اور جو گوشت حرام سے پلے اُس سے آگ بہت قریب ہے ۔ ۸؎ (مشکوٰۃ ص ۲۴۲‘ مسند احمد جلد۲ص ۱۲۳‘ المعجم الکبیرللطبرانی جلد۱۱ص ۴۷۱مختصراً (عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) مجمع الزوئد جلد۰۱ ص ۳۹۲‘مختصراً (عن ابن عباس وحذیفہ ث)۔
) (اِس سے مراد حرام کمانے والا ہے)
امیر المؤمنین حضرت سیّدناابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں،رسولؐ اللہ نے فرمایا:لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِیَ بِحَرَامٍ ’’وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی غذا حرام سے ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ حدیث نمبر۷۸۷۲‘ الترغیب والترہیب جلد۲ص۳۵۵‘ مجمع الزوائد جلد۰۱ ص۳۹۲)
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’حلال اور حرام دونوں ظاہرہیں اِن دونوں کے درمیان کچھ شبہ کی چیزیں ہیں۔
جنہیں بہت لوگ نہیں جانتے تو جو شبہات سے بچے گا وہ اپنا دین اور اپنی آبرو بچا لے گااور جو شبہات میں پڑے گا وہ حرام میں واقع ہو جائے گا‘‘ ۔(یعنی محرمات میں بھی پھنس جائے گا) (مجمع الزوائد جلد۰۱ص ۴۹۲‘ الترغیب والترہیب جلد۲ ص۳۵۵‘ مسند بزار جلد۲ص ۴۱۵‘ابو یعلی جلد۱ ص۵۸۔۴۸)
’’جیسے کوئی چرواہا شاہی چراگاہ کے آس پاس چرائے تو قریب ہے کہ اُس میں جانور چرلیں (اِس لئے بیگانی چراگاہ سے دُور رہنا چاہئے) آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی مقرر کردہ چراگاہ اُس کے محرمات ہیں۔
آگاہ رہو کہ جسم میں گوشت کاایک ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑجاتا ہے ۔خبر دار وہ (گوشت کا ٹکڑا) دِل ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ص ۱۹۲‘ بخاری جلد۱ ص ۵۲۲‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص ۳۷‘ دارمی جلد۲ص ۵۴‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۵ ص۴۶۲‘ شرح السنۃ جلد ۴ص۷۰۲‘ نصب الرایہ جلد۲ ص۲۹۴‘ابن ماجہ حدیث نمبر ۴۸۹۳)
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا حسن بن علی ؓ سے روایت ہے ‘ میں نے رسولؐ اللہ سے ایک بات یادکی‘ آپؐ نے فرمایا: ’’دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ فَاِنَّ الصِّدْقَ طَمَانِیَّۃٌ وَّاِنَّ الْکِذْبَ رَیْبَۃٌ ۲۱؎ ’’جو چیزتجھے شک میں ڈالے اُسے چھوڑ دے‘ اُس چیز کی طرف رجوع کر جو تجھے شک میںنہ ڈالے۔
کیونکہ سچ اِطمینان ہے اور جھوٹ تردُّد‘‘ ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد۲۲ ص ۷۴۱‘ مسند احمد جلد۱ص ۰۰۲‘ جلد ۲ص ۲۱۱‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۵ ص۵۳۳‘ مجمع الزوائد جلد ۱ص ۸۴۲‘ (مختصراً) الترغیب والترہیب جلد ۲ ص ۸۵۵ ‘ مشکوٰۃ ص ۲۴۲)
رسولِ کریم ؐکے اِرشاد سے پتا چلا حرام تو حرام‘ شک والی چیز کو بھی ہاتھ نہیںلگانا چاہیے۔
اگر دِل کو کھٹکا لگے کہ نہ معلوم یہ چیز حرام ہے یا حلال تو اُسے چھوڑ دینا چاہئے۔
یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اپنے آپ کو بڑے تہذیب یافتہ پڑھے لکھے سمجھنے والے بعض حضرات پھل والے کی دکان پر کھڑے پھل بھی خریدتے ہیں اور مالک کی مرضی کے بغیر اُس کی مختلف چیزیں انگور، کھجور وغیرہ بھی کھالیتے ہیں۔
قارئین ِکرام یادرکھیں! اللہ والوں نے کس قدر تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کی اور مقام پایا ۔
پیرِ طریقت، رہبرِ شریعت، واقفِ اُمورِ حقیقت، قدوۃ الصالحین، امین ِعلم لدُنی، پیکر ِ صدق وصفا، نیر ِاُوجِ شرافت، یوسف مصرِ محبت، قطبِ جلی، نائبِ غوث الثقلین حضرت قبلہ بابا جی سرکارحاجی محمد یوسف علی نگینہ صاحب قدس سرہُ العزیز فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی دوست کھانے کی دعوت دے اور مہمان کھانا کھائے۔ کھانے کے بعد اگر اُس کے دانتوں میں روٹی یابَوٹی کا کوئی ذرہ پھنس جائے اور میزبان کی الماری میں ٹوتھ پکس نظر آئیں تو وہ بھی اُس کی اِجازت کے بغیر اِستعمال نہیں کرناچاہئے۔

حضرت عطیہ سعدیؓ سے روایت ہے ‘ فرماتی ہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’اِنسان اُس وقت تک تقویٰ کے مقام کو نہیں پہنچتا جب تک اُس کام کوجس میں بُرائی ہو‘ ترک نہ کردے‘ حرام سے بچنے کیلئے۔ جیسا کہ اُس مباح میں اندیشہ ہو کہ اُس کی وجہ سے حرام میں پڑ جائے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ ص ۲۴۲‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۲ص۵۳۳‘ الترغیب والترہیب جلد۲ ص ۹۵۵‘ طبرانی جلد۷۱ص ۹۶۱‘ ترمذی حدیث نمبر۱۵۴۲)
اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم کی ذات بے پرواہ اور بے نیا زہے اُسے کسی کی حاجت نہیں۔
جسے کسی کی حاجت ہو اور جو کسی کا نیاز مند ہو وہ اِلہ اورمعبود برحق نہیں ہوسکتا۔ خدائے وحدہٗ لاشریک کو کسی کے مال کی قطعاً نہ پرواہ ہے نہ ضرورت۔ اگر اللہ لوگوں کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے لئے فرماتا ہے تو اُسے پہلے اپنی طرف سے عطافرماتا ہے پھر اُس میں سے خرچ کرنے کی دعوت دیتا ہے پھر دس گناسے سات سو گنابلکہ اُس سے بھی زیادہ عطا فرماتا ہے اور خوش خبری بھی دیتاہے، لیکن اُس نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے تم جو کچھ کمائو وہ حلال روزی ہونی چاہیے اور جو کچھ میری راہ میں خرچ کرو ‘وہ بھی رزقِ حلال ہونا چاہئے۔

قارئینِ کرام! اگر کوئی شخص سود، رشوت، ڈاکہ، چوری، جوا اور لوٹ کھسوٹ جیسے ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرتاہے اوراُس مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہُ الکریم کی راہ میں قبول نہیں ہوتا۔ رسولؐ اللہ کا اِرشادِ پاک ہے: ’’اللہ پاک ہے اور وہ نہیں قبول فرماتا مگر طیّب‘‘۔ (مسلم جلد۱ص ۶۲۳‘ مسند احمد جلد۲ص ۸۲۳‘ مشکوٰۃ ص ۱۴۲‘ الترغیب والترہیب جلد۲ ص ۵۴۵‘ قرطبی جلد۶جز۱۱ص ۹۶‘ تلخیص الحبیر جلد۲ ص۶۹‘ مصنّف عبد الرزاق جلد۵ ص ۹۱)
یعنی طیّب مال ہی قبول فرماتا ہے۔
ایسی صورت میں یہ جاننا چاہئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حرام مال قبول نہیں فرماتا اور جب اللہ کریم رؤف ورحیم حرام مال قبول نہیں فرماتا تو حرام مال سے کی ہوئی نیکی کیسے قبول ہوگی؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں‘ رسولؐ اللہ نے فرمایا: ’’جو شخص حرام مال کماتا ہے پھر اُس حرام مال سے صدقہ کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اگر وہ خرچ کرتا ہے تو اُس میں برکت نہیں ہوتی۔
اور اگر و ہ مرنے کے بعد حرام مال چھوڑتا ہے تو یہ آخرت کیلئے جہنم کی آگ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ برُائی سے برُائی کو دُورنہیں فرماتا۔ بلکہ نیکی سے بدی کو دُور فرماتا ہے۔ یقیناً پلید‘ پلید کوپاک نہیں کرسکتا‘‘۔ (مشکوٰۃص ۲۴۲‘ الترغیب والترہیب جلد۲ص ۰۵۵)
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں ‘رسولؐ اللہ نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ جل مجدہ ُالکریم کا اِرشادِ عظیم ہے: ’’اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھائو‘‘۔
(البقرۃ: ۲۷۱)
پھر فرمایا: ’’ایک بڑا گندا گرد‘ آلود لمبے لمبے بالوں والا شخص سفر کرتا ہے اورآسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کہتا ہے یا رب‘ یا رب مگر اُس کی دُعا کیسے قبول ہو؟ جبکہ اُس کا کھانا، پینا، لباس اور غذا سبھی چیزیں حرام مال سے ہیں‘‘۔ (مشکوٰۃ ص۱۴۲‘ مصنف عبد الرزاق جلد۴ ص ۹۱۱‘ مسلم جلد ۱ص ۰۲۳‘ مسند احمد جلد۲ ص ۸۲۳‘الترغیب والترہیب جلد۲ص ۵۴۵‘ قرطبی جلد۶ جز۱۱ ص ۹۶‘ تلخیص الحبیر جلد۲ص۶۹)
رُوحانیت اور قربِ الٰہی کیلئے رزقِ حلال اَیسے ہے جیسے زندگی کیلئے روح۔
صوفیاء کرام فرماتے ہیں: دُعا کے دو پَر ہیں یعنی دوبازو ہیں۔ (۱)اکلِ حلال‘ (۲) صدقِ مقال
جان لینا چاہئے! تقویٰ کی پہلی سیڑھی حلال روزی ہے ‘حرام سے بچنا عوا م کا تقویٰ ہے‘ شبہات سے بچنا خواص کا تقویٰ ہے اور ایسی چیزوں سے بچنا جو گناہ کا سبب بنیں یہ صدیقین کا تقویٰ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ راہِ سلوک کے مجاہدوں اور طریقت کے غازیوں کو یہ منازل اور مقامات عطا فرمائے۔ آمین!

Browse More Islamic Articles In Urdu