Open Menu

Sabr O Tahammul Ki Sharai Hesiyat - Article No. 2190

Sabr O Tahammul Ki Sharai Hesiyat

صبر و تحمل کی شرعی حیثیت - تحریر نمبر 2190

صبر و تحمل اور برداشت ایسی گراں قدر نعمت ہے کہ جو نہ صرف بے پناہ مسائل سے نجات دلانے کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت ہم ایک اچھی اور مستحسن زندگی بسر کرسکتے ہیں

جمعرات 2 اگست 2018

امیر افضل اعوان
صبر و تحمل اور برداشت ایسی گراں قدر نعمت ہے کہ جو نہ صرف بے پناہ مسائل سے نجات دلانے کا باعث ہے بلکہ اس کی بدولت ہم ایک اچھی اور مستحسن زندگی بسر کرسکتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ کہ صابر و شاکر بندوں کو جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اپنی زندگیوں میں شاید صبر کا استعمال ترک کر دیا ہے ، اسی لئے ایک طرف تو ہم بہت زیادہ مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوچکے ہیں تو دوسری جانب ہم فرسٹریشن ، ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ،حالانکہ صبر کا اور اس کائناتی نظام کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے، کائنات کے ہر عمل میں صبر کی آمیزش ہے مثال کے طور پر چاند ستارے اپنے اپنے مدار میں رہتے ہوئے اپنا سفر طے کرتے ہیں اور رات کو دن اور دن کو رات میں بدلتے ہیں، ایک پودا مکمل درخت راتوں رات نہیں بن جا تا، آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے ۔

(جاری ہے)

پہلے پھول اور پھر پھل آتے ہیں ۔ یہ کائناتی ربط ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں بھی اسے شامل کر کے زندگی میں ربط پیدا کریں ۔
کسی بھی معاشرے میں کامیابی کے ذرائع ویسے توبے شمار ہیں لیکن موجودہ دور اور حالا ت کو دیکھتے ہوئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ’’ صبر ‘‘ ہے، جس کے لغوی معنیٰ ہیں روکنا ، برداشت کرنا ، ثابت قدم رہنا یا باندھ دینا، صبرکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیاکہ ’’ اور (رنج و تکلیف میں) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو، اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں) نہیں جو عجز کرنے والے ہیں‘‘ سورۃ البقرہ، آیت45،بلاشبہ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔
نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے، مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ا للہ تعالیٰ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں۔

بنی نوح انسان کو مشکل حالات میں صبر اور نماز سے مدد لینے کے حوالہ سے قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ’’ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ سورۃ البقرہ، آیت153، اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا گیا کہ ’’ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔
‘‘ سورۃ البقرہ، آیت155،اس آیت مبارکہ کے حوالہ سے امام شافعی فرماتے ہیں کہ خوف سے اللہ کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے، مال کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا ،جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے اس لئے کہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے حدیث شریف میں ہے سید عالم ؐ نے فرمایا جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی وہ عرض کرتے ہیں کہ ہاں یارب، پھر فرماتا ہے تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا عرض کرتے ہیں ہاں یارب، فرماتا ہے اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں اس نے تیری حمد کی اور پڑھا کہ ’’ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘سورۃالبقرۃ:156)اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لئے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔

خدا وند کریم نے صبر کرنے والو ں کو اہل تقویٰ کا امام بنایا ہے اور دین میں ان پر کامل انعام فرمایا ہے’’ اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ‘‘ سورۃ السجدہ، آیت 24، صبر کے حوالہ سے ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے کہ ’’ مگر جو لوگ صابر ہیں اور نیکیاں کرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘ سورۃ ھود، آیت11، اس مقام پر صبر کا لفظ مزاج کے استقلال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی وہ لوگ جو نہ تو مصیبت کے وقت دل برداشتہ اور مایوس ہوں بلکہ اسے صبر و استقلال سے برداشت کریں اور نہ ہی کسی خوشی کے موقعہ پر آپے سے باہر ہوں بلکہ اپنے آپ کو قابو میں رکھیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لائیں اور مصیبت یا خوشی کے مواقع پر ان کی طبیعت میں غیر سنجیدہ قسم کا اتار چڑھاؤ نمایاں نہ ہو بلکہ وہ ہر حال میں اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھتے ہیں نہ مال و دولت اور آسودگی ان کا مزاج خراب کرتی ہے اور نہ ہی تنگی ترشی کے دوران اپنی ہمت ہار بیٹھتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے اللہ قصور بھی معاف کرتا ہے اور ان کے نیک کاموں کے عوض انھیں بہت زیادہ اجر بھی عطا فرماتا ہے۔

قرآن کریم میں صبر کے حوالہ سے متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا گیا اور ’’ اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘یہ ارشاد ربانی سورۃ البقرہ، آیت249، سورۃ الانفال ، آیت 66میں بھی موجود ہے جب کہ قرآن پاک میں ایک مقام پر اللہ پاک ارشاد فرما تا ہے کہ ’’ اور اللہ کی اور اس کے رسول ؐ کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہار رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘ سورۃ الانفال، آیت46، اسی طرح ایک جگہ حکم آتا ہے کہ ’’ (اے اہل ایمان) تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی۔
اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بہت بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘ سورۃ آل عمران ، آیت186، اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ ’’ اے ایمان والو !صبر کرو اور مقابلہ کے وقت مضبوط رہو اور لگے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ‘‘ سورۃ آل عمران، آیت200، ذرا غور فرمائیے کہ اس آیت مبارکہ میں صبر کی تعلیم و تلقین بھی فرمائی گئی ہے، اور صبر مطلوب و محمود کی طرف اشارہ بھی فرما دیا گیا’’ اور صبر کر بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا‘‘ سورۃ ھود، آیت115، یہاں فرمایا گیا کہ تم صبر کرو بیشک اللہ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں فرماتا، اس آیت مبارکہ میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں وہی صبر مطلوب اور محمود ہے جو صفت احسان کے ساتھ ہو، یعنی ان لوگوں کا صبر جو اس طرح صبر کریں جس طرح صبر کرنے کا حق ہوتا ہے۔

دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو واضح کرتے ہوئے قرآن پاک میں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے جو خدا کے پاس ہے وہ باقی ہے (کہ کبھی ختم نہیں ہو گا) اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دیں گے۔‘‘ سورۃ النحل، آیت96، یعنی جو لوگ خدا کے عہد پر ثابت قدم رہیں گے اور تمام مشکلات اور صعوبتوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں گے، ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔
ایسے بہترین عمل کا بدلہ ضرور ہمارے یہاں سے مل کر رہے گا، بلاشبہ خالق کائنات اپنے صابر و شاکر بندوںکو پسند فرماتاہے قرآن مجید میں صبر کے حوالہ سے فرمایا گیا ہے کہ ’’ ان لوگوں کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اور بھلائی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ سورۃ القصص، آیت54،ایک اور مقام پر صبر کے حوالہ سے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ کہہ دو کہ اے میرے بندو !جو ایمان لائے ہو اپنے پروردگار سے ڈرو جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے اور خدا کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بیشمار ثواب ملے گا‘‘ سورۃ الزمر، آیت10، یہاں بھلائی سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اگرچہ مال و دولت بھی اس بھلائی میں شامل ہے، یعنی یہ ممکن ہے کہ اس دنیا میں پرہیز گاروں کو مال و دولت عطا ہوا اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں مال و دولت عطا نہ کیا جائے البتہ بھلائی کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں جو انہیں یقیناً حاصل ہوتی ہیں۔
مثلاً ایسے لوگوں کی سب ہی عزت کرتے ہیں خواہ عزت کرنے والے دیندار ہوں یا دنیا دار، ایسے لوگوں کی بات قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے، ایسے لوگوں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور آخرت کی بھلائی جو بہرحال ایسے لوگوں کے لئے یقینی ہے۔
صبر وتقویٰ مومن کیلئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مندی و سرفرازی کیلئے دو عظیم الشان ذریعے ہیں صبر کا حاصل اور راہ حق پر ثابت قدم رہنا ہی تقویٰ کا خلاصہ و مفہوم ہے ہمیشہ اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کیلئے اس کے آگے سر تسلیم خم رہنا اور ہمیشہ اس بنیادی حقیقت کو اپنے پیش نظر رکھنا کہ میرا خالق و مالک مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہ اس کا حق سب سے بڑا سب سے مقدم اور سب پر فائق ہے،صبر کے حوالہ سے ’’ حضرت ابوہریرہ ؓحدیث قدسی نقل کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اگر کسی بندے کی بینائی زائل کر دی اور اس نے اس آزمائش پر صبر کیا اور مجھ سے ثواب کی امید رکھی تو میں اس کے لئے جنت سے کم بدلہ دینے پر کبھی راضی نہیں ہوں گا اس بارے میں عرباض بن ساریہؓ سے بھی حدیث منقول ہے ‘‘ جامع ترمذی، جلد دوم، حدیث294، ایک اور حدیث قدسی میں بیان ہے کہ ’’ حضرت ابوامامہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں آدم کے بیٹے اگر صدمہ کے شروع میں صبر اور ثواب کی امید رکھے تو میں (تیرے لئے) جنت کے علاوہ اور کسی بدلہ کو پسند نہ کروں گا‘‘ سنن ابن ماجہ، جلد اول، حدیث1597، اسی طرح ایک حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ انس بن مالک ؓکہتے ہیں کہ میں نے آپ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں یعنی دو آنکھوں کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ صبر کرتا ہے تو میں اس کے عوض اس کو جنت عطا کرتا ہوں‘‘ صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث631،اسی طرح صابر بندے کے لئے ایک اور حدیث قدسی میںجنت کی بشارت دی گئی ’’ حضرت ابوہریرہؓکہتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اس دنیا سے اٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے‘‘ صحیح بخاری، جلد سوم، حدیث1372، ذرا غور فرمائیے کہ اسلام میں صبر اور صابر کی کیا اہمیت اور مقام ہے۔

قرآن کریم میں صبرکی اہمیت بیان کرتے ہوئے خالق کائنات نے متعدد مقامات پر صبر کے اجر و ثواب کا بیان بھی فرمایااور رسول کریم ؐکی سیرت طیبہ بھی اسی امر کی عکاس ہے کہ آپ ؐ نے صبر کا دامن ہاتھ میں تھامے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ شکر کا کلمہ ادا کیا اور اپنے صحابہؓ کو بھی صبر کا درس دیا، ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے بعض انصاری صحابہ ؓ نے رسولؐ اللہ سے کچھ طلب فرمایا آپ ؐ نے ان کو عطا فرمایا انہوں نے پھر مانگا تو آپ ؐنے ان کو پھر عطا فرمایا یہاں تک کہ آپؐ کے پاس موجود مال ختم ہوگیا، تو فرمایا میرے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہرگز تم سے بچا کر نہ رکھوں گا، جو شخص سوال سے بچتا ہے اللہ اس کو بچاتا ہے اور جو استغناء اختیار کرتا ہے اللہ اسے غنی کر دیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے جو کچھ تم میں سے کسی کو دیا جائے وہ بہتر ہے اور صبر سے بڑھ کر کوئی وسعت نہیں‘‘ صحیح مسلم، جلد اول، حدیث2417،قرآن کریم میں متعددجگہ مصیبت اور پریشانی کی حالت میں صبر اور نماز کو اپنا شعار بنانے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کی یاد میں جس قدر طبیعت مصروف ہو اسی قدر دوسری پریشانیاں خود بخود کم ہو جاتی ہیں، ہمارے پیارے نبیؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب آپؐ کو کوئی بھی پریشانی لاحق ہوتی تونہ صرف یہ کہ صبر کرتے اورخود بھی نماز میں مشغول ہوتے بلکہ اپنے اہل بیت کو بھی اس کی دعوت دیتے تھے ، صبر کسے کہتے ہیں یہ بھی رسولؐ اللہ کی زبانی سنئے ’’ انس بن مالک ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی ؐ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو قبر پر رو رہی تھی، تو آپ ؐنے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو، عورت نے کہا کہ دور ہوجا، تجھے وہ مصیبت نہیں پہنچی جو مجھے پہنچی ہے اور نہ تو اس مصیبت کو جانتا ہے، اس نے آپ ؐکو پہچانا نہیں، اس سے کہا گیا تو وہ آپ ؐ کے دروازے کے پاس آئی اور وہاں دربان نہ پائے اور عرض کیا کہ میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ نے فرمایا کہ صبر ابتداء صدمہ کے وقت ہوتا ہے‘‘ صحیح بخاری، جلد اول، حدیث1228، یہاں وضاحت کردی گئی کہ کسی بھی صدمہ پر فوری صبر کی کیا اہمیت و فضیلت ہے ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غم کے اثرات تو خود بخود کم ہوجاتے ہیں تو پھر وہ صبر تو نہیں ہوتا ۔

صبر و تحمل کے بارے میں ایک اور حدیث مبارکہ میں بیان ہے ’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ تشریف فرما تھے ، ایک شخص نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا، آپ ؐ اس شخص کو مسلسل بُرا بھلا کہنے اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے صبر کرنے اور خاموش رہنے کو دیکھتے رہے پھر جب اس شخص نے بہت ہی زیادہ بُرا بھلا کہا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس شخص کی کچھ باتوں کا جواب دے دیا، اس پر نبی کریمؐ ناراض ہو کر وہاں سے روانہ ہو گئے، حضرت ابو بکر صدیقؓ، آپ ؐکے پیچھے پہنچے اور عرض کی ’’ یا رسولؐ اللہ جب تک وہ شخص مجھے بُرا بھلا کہتا رہا آپ ؐ تشریف فرما رہے اور جب میں نے جواب دیا تو آپ ؐ ناراض ہو کر روانہ ہو گئے جس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ جب تم خاموش اور حالت صبر میں تھے تو تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا ، پھر جب تم نے اس کی کچھ باتوں کا جواب دیا تو وہ فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا اور جس جگہ شیطان ہو وہاں میں نہیں رہتا‘‘( احمد بن حنبل ، المسند ۲:۴۳۶، رقم ۹۶۲۲ اس حدیث مبارکہ سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو برا بھلا کہے تو اس پراسے صبر کرتے ہوئے خاموشی اختیارکرنی چاہیے تاکہ برا بھلا کہنے والے کوجہاں اپنی غلطی کا احساس ہو گا وہاں شیطان کودرمیان میں آنے کا موقع نہیں ملے گا اور اسطر ح بات آگے نہیں بڑھے گی اور دوسری طرف صبر کرنے والے کو اللہ کی طرف سے بے حساب اجر بھی ملے گا ۔

صبر کی اہمیت کا اس با ت سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک میں اس کا ذکر 70 مرتبہ آیا ہے، ہم اگردنیاوی انداز میں بھی دیکھیں تو کسی منزل کو پانے کیلئے انسان کو ہر صورت صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے ، روایت ہے کہ نبی کریم ؐ سے صحا بہ ؓ نے پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ صبر ‘‘ (کیمیائے سعادت ۶۳ )اسی طرح یہ بھی رویت ہے کہ ’’ حضرت علی ؓنے صبر کو ارکان ایمان میں سے ایک قرار دیاہے اور اسے جہاد ، عدل اور یقین کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا، اسلام چار ستونوں پر مبنی ہے،1 ۔
یقین ، 2۔ صبر ، 3۔ جہاد ، 4۔ عدل ، حضرت علیؓ نے فرمایا ‘‘ ایمان میں صبر کی مثال ایسی ہے جیسے بدن میں سر ہو، جس کا سر نہ ہو اس کا بدن نہیں ہوتا اور جسے صبر حاصل نہ ہو اس کا ایمان نہیں ہوتا ‘‘ (کیمیائے سعادت ۲۳۱)بلاشبہ صبرایک ایسی عبادت ہے جس سے انسان روحانی طور پر اعلی اور با وقار مقام حاصل کر سکتا ہے اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ صبر کا دامن مضبوطی سے تھامیں رکھیں کیونکہ نہ صرف دین میں اس کا واضح حکم موجود ہے بلکہ یہی ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنی اصل منزل تلاش کر سکتے ہیں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu