Open Menu

Shadi Se Qabal Zina Ke Murtakib Afraad Ka Nikah - Article No. 2699

Shadi Se Qabal Zina Ke Murtakib Afraad Ka Nikah

شادی سے قبل زنا کے مرتکب افراد کا نکاح - تحریر نمبر 2699

اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی سے زنا وغیرہ سرزد ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر۔۔

ہفتہ 24 نومبر 2018

مُبشّر احمد رَبّاَنی
اس میں کوئی شک نہیں کہ زنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے کسی انسان سے اگر یہ گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اس پرشرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلیتا ہے تو قرآن میں اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے بارے میں فرماتے ہیں :
”اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرتا ہے وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے گا۔

قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دو گنا کیا جائے گا اور وہ اس میں ذلیل ہو کررہے گا مگر جن لوگوں نے ایسے گناہوں سے توبہ کرلی اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کئے اللہ تعالیٰ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا اور اللہ بخشنے والا بڑا مہربان ہے “
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آدمی اگر زنا سے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتے ہیں اور جب اُس نے توبہ کرلی اور اس کا معاملہ حاکم تک نہ پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیا تو پھر اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے دنیا میں اس پر حد لازم نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث ہے عبادہ بن صامت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہ سے بعض محرمات سے اجتناب کے لیے بیعت لی۔ان میں ایک زنا بھی تھا۔آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جوان میں سے کسی چیز میں مبتلا ہو گیا اور اسے اس کی سزادی گئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گی اور اگر وہ کسی گناہ کو پہنچاتو اللہ نے اس پرپردہ ڈال دیا پس وہ اللہ کی طرف ہے ۔
اگر چاہے اسے عذاب دے دے اور اگر چاہے تو اسے بخش دے “(بخاری مع الفتح 260/7و75یہ حدیث ترمذی ‘نسائی اور دارمی میں بھی موجود ہے )
اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی سے زنا وغیرہ سرزد ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پرپردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے اقرار اور اصرار کے بغیر دنیا میں اس پر حدجاری نہیں کی جائے گی۔
اس سے بڑھ کر اگرکسی کو کسی دوسرے مسلمان کے بارہ میں کوئی ایسی چیز معلوم ہوتی ہے جس سے اس پر حد لازم آتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آپس میں معاف کرنے کا حکم دیا ہے ۔فرمایا:
”آپس میں حدود معاف کرو جو مجھ تک پہنچ گئی وہ واجب ہو گئی“
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر چہ امام ‘حاکم یا قاضی تک نہیں تو واجب نہیں ہوئی اس لیے صورت مسئولہ میں شرعی حد سائل پر واجب نہیں ہے جب تک وہ حاکم تک نہیں پہنچتی اس کا معاملہ اس کے ساتھ ہے اور زانی کا حد لگنے کے بغیر زانیہ سے نکاح ہو سکتا ہے جب دونوں توبہ صادقہ کرلیں ۔
تفسیر ابنِ کثیر میں عبداللہ بن عباس سے صحیح سند سے مروی ہے ۔کسی نے پوچھا:
”ابن عباس سے کسی نے پوچھا میں ایک عورت سے حرام کا ارتکاب کرتا رہا ہوں مجھے اللہ نے اس فعل سے توبہ کی توفیق دی ۔میں نے توبہ کرلی میں نے اس عورت سے شادی کاارادہ کرلیا تولوگوں نے کہا زانی مَرد صرف زانیہ عورت اور مشرکہ عورت سے نکاح کر سکتا ہے ۔ابنِ عباس نے کہا یہ اس بارے میں نہیں ہے تو اس سے نکاح کرلے اگر اس کا گناہ ہوا تو وہ مجھ پر ہے ۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مَرد اور عورت جنہوں نے بدکاری کا فعل کیا ہے اگر توبہ کرلیتے ہیں تو بغیر شرعی حد کے ان کا نکاح ہو سکتا ہے کیونکہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہا نے نہیں کہا کہ پہلے حد لگواؤ پھر نکاح کرو۔یہ بات بھی یاد رہے کہ حمل کے وقت جو ان دونوں کا نکاح ہوا تو وہ نکاح صحیح نہیں ہو گا کیونکہ اُس نے عدت میں نکاح صحیح نہیں ہے ۔
اللہ فرماتے ہیں :
”حمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے “
دوسری جگہ فرمایا:
”اس وقت تک نکاح نہ کرو جب عدت ختم نہیں ہو جاتی ۔“
حافظ ابنِ کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ
”کہ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ عدت کے اندر نکاح صحیح نہیں ہے “
اس لیے سائل نکاح جدید کروائے ۔کوئی حرج نہیں یہ نکاح ہوجائے گا۔جیسا کہ دلائل سے واضح ہوچکا ہے۔
(مُبشّر احمد رَبّاَنی)
( آ پ کے مسائل اور اُن کا حل جلد نمبر 1)

Browse More Islamic Articles In Urdu