Open Menu

SMS Ke Zariye Talaq - Article No. 2523

SMS  Ke Zariye Talaq

ایس ایم ایس کے زریعے طلاق - تحریر نمبر 2523

کیا شدید غصے کی حالت میں طلاق کا پیغام (SMS) بھیجنے سے طلاق واقع ہوجائے گی؟

پیر 22 اکتوبر 2018

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

غصہ کی بعض حالتوں میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ واقع نہیں ہوتا کیونکہ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ علامہ شمس الدین ابو عبد اﷲ محمد بن ابو بکر الزرعی الدمشقی بیان کرتے ہیں:

ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہو کہ عقل انسانی قائم نہ رہے اور پتہ ہی نہ ہو کہ اس نے کیا کہا۔

اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔

دوسرا غصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا بھی ہے۔ اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔

(جاری ہے)

تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت وارادہ کے بغیرمحض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے۔

وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا۔ پھر طلاق سر زد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے اور افسوس کرتاہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہو گی۔

علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:

اور جو مجھ پر ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ مدہوش (دیوانہ) اور غضبناک ہونا، دونوں حال میں اس قدر لازم نہیں کہ آدمی اس حال کو پہنچ جائے کہ اپنی بات کو سمجھتا ہی نہ ہو، بلکہ اس قدر کافی ہے کہ اس کے کلام میں بیہودگی غالب ہو اور سنجیدگی ومزاح ملا جُلا ہو، جیسا کہ نشئی کے بارے میں مفتیٰ بہ بات گزر چکی ہے۔

یہ بات مدہوشی کی اس تعریف کے خلاف نہیں کہ جنون کی کئی اقسام ہیں۔

لہٰذا جو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے:

ترجمہ:اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے۔

مفسرین کرام اس آیت مبارکہ کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:

ترجمہ: جو مریض لوگ ہیں، مرض کی حالت میں ان سے حرج یعنی تنگی وگرفت اٹھالی گئی ہے۔

اس آیت مبارکہ نے واضح کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

دوسری آیت کریمہ میں ہے:

ترجمہ:اور اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

امام ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصّاص الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حرج کا مطلب ہے تنگی۔

اور اسی طرح (ان کے شاگرد) حضرت مجاہد فرماتے ہیں: اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جاسکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی وآسانی پیداکرے وہی بہترہے۔ آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں:

تنگی، ایسی تکلیف کا حکم ہے جس پر قائم رہنا تم پر سخت (مشکل) ہو۔

حدیث مبارکہ میں بھی حرج کا معنی تنگی ہی بیان کیا گیا ہے:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت مبارکہ {وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ} کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الضیق (تنگی)۔

(اس حدیث مبارکہ کی اسناد صحیح ہیں لیکن اس کو بخاری ومسلم نے روایت نہیں کیا)

ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ بچہ سمجھدار ہونے تک، سونے والا بیدار ہونے تک اور مجنوں عقلمند ہونے تک شریعت کے مکلف نہیں ہوتے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا: سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقلمند نہ ہو جائے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا جاتا ہے۔ ایک سوئے ہوئے سے جب تک بیدار نہ ہوجائے۔ دوسرے دیوانے سے جب تک دیوانگی نہ جائے۔ تیسرے بچے سے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش کی (دی ہوئی) طلاق کے جس کی عقل پر غصہ غالب ہو۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر طلاق نافذ ہوتی ہے سوائے مدہوش (کی دی ہوئی) طلاق کے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا۔

حضرت علامہ بدر الدین العینی اپنی کتاب عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:

اس حدیث کو ابو داود، ابن ماجہ اور مستدرک میں حاکم نے ذکر کیا ہے اور کہا کہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے ان سب نے اسے حدیث عائشہ سے لیا ہے اور ابو داود نے فرمایا کہ میرے خیال میں الغلاق سے غصہ مراد ہے۔

فقہاء کرام کے نزدیک شدید غصہ میں دی جانے والی طلاق کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے:

جنون (پاگل پن) کا مطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی و خلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کا مطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگو میں غلط اور صحیح خلط ملط ہو لیکن معتوہ (مغلوب الغضب) نہ مارتا ہے نہ گالی گلوچ بکتا ہے، بخلاف مجنوں (پاگل) کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں۔

مدہوش وغیرہ کی قابل اعتمادبات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال و افعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آ جائے تو اس کے اقوال وافعال جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا۔ اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننا اور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں۔

حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہر کردے کہ اس کی باتوں اور اس کے کاموں پر بے مقصدیت غالب آ جائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہاہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آ جاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں ودیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔

شیخ الاسلام امام احمد رضا خاں حنفی قادری رحمۃ اﷲ علیہ بھی فرماتے ہیں:

’’غضب اگر واقعی اس درجہء شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہو گی۔‘‘

امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ وتلمیذ خاص علامہ امجد علی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:

’’یونہی اگر غصہ اس حد کا ہو کہ عقل جاتی رہے تو (طلاق) واقع نہ ہو گی۔‘‘

Browse More Islamic Articles In Urdu