Open Menu

Yom Khatam E Nabuwat - Article No. 2335

Yom Khatam E Nabuwat

یوم ختم نبوت - تحریر نمبر 2335

اِسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں 7 ستمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو بڑی اَہمیت حاصل ہے۔ اِس تاریخ کو تمام ممبرانِ قومی اسمبلی کی اِجتماعی جدو جہد سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا۔

ہفتہ 8 ستمبر 2018

علامہ منیر احمد یوسفی
اِسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں 7 ستمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو بڑی اَہمیت حاصل ہے۔ اِس تاریخ کو تمام ممبرانِ قومی اسمبلی کی اِجتماعی جدو جہد سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا۔ اگرچہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد 1974ء سے ہی قادیانیوں کے خلاف تحریکِ تحفظ ختم نبوت جاری ہو چکی تھی۔ اِس تحریک میں دس ہزار مسلمانوں نے جام شہادت نوش کر کے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت خلیفۃ الرسول خلیفہ بلا فصل حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق ؓکے دورِ حکومت کے 12سو شہداء کرام جن میں جلیل القدر صحابہ کرام‘ محدثین‘ مفسرین‘ حفاظ کرام اور اہل بدر ؓ شامل تھے‘ اُن کی یاد تازہ کر دی۔

رسولِ کریم رؤف ورحیم ؐ کے دو لاکھ سے زائد عشاق جیلوں میں بند کر دئیے گے۔

(جاری ہے)

مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائی گئی علامہ ابو الحسنات کو قید خانے میں بند کر دیا گیا اُن کے صاحبزادے امین الحسنات مولانا خلیل احمد قادری کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ مولانا ابو الحسنات نے یہ خبر سنتے ہی فرمایا: یہ تو میرا ایک خلیل ہے اگر میرے ہزاروں خلیل بھی ہوتے تو نبی کریم رؤف ورحیمؐ کی نعلین پاک پر قربان کر دیتا۔

پھر سابق وزیر اعظم مسٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ حکومت کا واقعہ ہے کہ 22 مئی 1974 کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء چناب نگر کے راستے پشاور کے تفریحی سفر پر جا رہے تھے کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں نے اُن کو لٹریچر دیا جس پر اُنہوں نے اِحتجاج کیا۔ لٹریچر لینے سے اِنکار کیا اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگائے۔ واپسی پر29 مئی 1974 کو طلباء کی گاڑی خلاف ضابطہ ربوہ اسٹیشن پر روک کر مرزا طاہر قادیانی کی قیادت میں ایک ہزار مسلح قادیانی غنڈے لاٹھیوں‘ سریوں اور برچھیوں کے ساتھ نہتے طلباء پر ٹوٹ پڑے اور نہتے طلباء پر بے پناہ ظلم و تشدد کیا جس سے 30 طلباء شدید زخمی ہو گئے۔
اِس واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِ عمل ہوا۔ دینی جماعتوں کی اپیل پر پاکستان کے مختلف شہروں میں پرجوش ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ مطالبہ زور پکڑ گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دیا جائے۔
قومی اسمبلی میں مولانا شاہ احمد نورانی‘ مولانا عبدالمصطفیٰ اظہری‘ پروفیسرغفور احمد‘ مفتی محمود‘ مولانا عبدالحق‘ نوابزادہ نصر اللہ خان اور دیگر علماء کرام موجود تھے۔
فوری طور پر اُن کا اجلاس ہوا اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل مجلس عمل تشکیل پائی۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے ۴۴ ممبران کے دستخطوں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کا بل پیش کیا اور ۳۰ جون ۱۹۷۴ئ؁ کو قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اَقلیت قرار دینے کے لئے مولانا شاہ احمد نورانی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد پیش کی۔
قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دے کر بل پر بحث شروع کی گئی۔ مرزا ناصر اور مرزا صدر الدین وغیرہ کو بلایا گیا۔ یحییٰ بختیار کے ذریعے اُن پر جرح کی گئی۔ آخر کار ۷ ستمبر ۱۹۷۴ئ؁ کو قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی آئینی ترمیم عبدالحفیظ پیر زادہ وزیر قانون کے ذریعے پیش کی گئی۔
۷ ستمبر ۱۹۷۴ئ؁ کے قومی اسمبلی کے اجلاس کو پولیس اور فوج نے گھیر رکھا تھا۔
ہزاروں مجاہدینِ ختمِ نبوت قومی اسمبلی کے باہر شعلہ جوالہ بنے کھڑے تھے۔ ۴ بجے فیصلہ کن اَجلاس ہوا اور ۴ بجکر ۳۵ منٹ پر قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا اور ۹۰ سال کی طویل جدوجہد کے بعد ایک اَرب مسلمانوں کو کافر کہنے والی تخریبی قادیانی جماعت غیر مسلم قرار دی گئی۔ پاکستان میں قادیانی جماعت کا مرکز ضلع چنیوٹ سے پانچ میل کے فاصلے پر دریائے چناب کے پار ربوہ (اَب چناب نگر) کے نام سے آباد ہے۔
پاکستان بننے کے بعد گورنر پنجاب سر فرانسس موڈی نے پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خاں جو مرزائیوں کا بڑا نمائندہ تھا‘ کی سفارش پر ربوہ (چناب نگر) کی ۱۰۳۳‘ایکڑ زمین (ایک آنہ فی مرلہ کے حساب سے) قادیانیوں کو ۱۰۰ سال کے لئے لیز پر سے دی اِسے شہر کا درجہ دے کر اِس کا افتتاح مرزا محمود قادیانی نے کیا۔ ربوہ میں ۱۹۷۴ئ؁ سے پہلے کوئی مسلمان داخل نہیں ہو سکتا تھا۔
اَب بھی اگر کوئی مسلمان چناب نگر میں داخل ہو تو اُس کے پیچھے قادیانی سی آئی ڈی لگ جاتی ہے اُس سے نہ صرف پوچھ گچھ ہوتی ہے بلکہ اُس کی تمام حرکات و سکنات کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
قادیانی جماعت نے دور حاضرہ میں ایک فتنہ کھڑا کیا ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے معانی نبیوں کے آخری اور سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والے نہیں بلکہ مراد نبیوں کی مہر ہے کہ ’’نبی کریم ؐ کے بعد جو نبی آئے گا (نعوذ باللہ) وہ حضور ؐ کی مہر لگنے سے نبی بنے گا۔
اور ایسے نبی کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے‘‘۔ … اور ظلی نبوت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پانا وہ قیامت تک باقی رہے گی۔ (حقیقتہ الوحی ص۲۸ مرزا قادیانی)
اِسی جماعت نے ایک دوسری تاویل کی ہے کہ خاتم النبیین کا معنی سب نبیوں سے اَفضل۔ یعنی ختم نبوت کا یہ معنی ہے کہ محمد رسول اللہ ؐ کا مقام سب نبیوں سے اَفضل ہے۔(تفسیر صغیر از مرزا بشیر الدین محمود احمد زیر آیت و خاتم النبیین حاشیہ نمبر۱ ص۵۵۱) یعنی نبوت کا دروازہ تو کھلا ہے‘ اَلبتہ کمالاتِ نبوت‘ حضور ؐ پر ختم ہو گئے ہیں۔
یہ بات بھی محض باطل اور جھوٹی تشریح ہے۔ درحقیقت خاتم النبیین کا مطلب سب نبیوں سے آخری نبی اور نبیوں کے سلسلہ نبوت کے ختم کرنے والے ہیں۔ نبی کریم ؐ کے بعد کوئی شخص نیا نبی بن کر آنے والا نہیں۔ کسی قسم کا سلسلۂ نبوت یعنی ظلی نبوت‘ بروزی نبوت‘ تشریعی نبوت یا غیر تشریعی نبوت محال ہے۔ اس لئے خود رب العالمین نے اپنے محبوب رحمتہ للعالمینؐ کو خاتم النبیین یعنی سب نبیوں سے آخری فرمایا ہے۔
(الاحزاب:۴۰)
قرآنِ مجید کے بعد اَحادیث نبویہؐ سب سے اَہم اور بڑا ذریعہ ہیں۔ جن کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خود حضور سرور کون و مکاں خاتم النبیین ؐ نے خاتم النبیین کے کلما ت کا کیا مفہوم اور معنی بیان کیا ہے۔ چند اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا اور میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی‘‘۔
(ترمذی جلد۲ ص۴۳‘ مسند احمد جلد۳ ص۲۶۷‘ مستدرک حاکم جلد۴ ص۴۳۳‘ درمنثور جلد۳ ص۳۲۱‘ تفسیر ابن کثیر جلد۳ ص۴۲۱‘ کنزالعمال حدیث نمبر۴۱۴۰۷)
حضرت عبدالرحمن بن جبیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو کہتے سنا ایک دن رسولِ کریم ؐ اپنے آستانہ مقدس سے نکل کر ہمارے درمیان تشریف لائے۔ آپ ؐ کا تشریف لانا اَیسے تھا جیسے آپ ؐ ہم سے اِلوداع ہو رہے ہیں۔
آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا: ’’میں محمد نبی امیؐ ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘۔ (مسند احمد جلد۲ ص۱۷۲۔۲۱۱‘ ابن کثیر جلد۴ ص۴۲۱)
حضرت محمد بن جبیر بن مطعم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریمؐ سے سنا آپؐ فرماتے تھے ’’میں محمد ہوں‘ احمد ہوں‘ میں ماحی ہوں وہ جس کے ذریعے کفر کو مٹایا جائے گا اور میں حاشر ہوں وہ کہ جس کے بعد لوگ حشر میں جمع کئے جائیں گے (یعنی‘ میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نیا نبی کوئی نئی شریعت اور کوئی نئی امت حائل نہیں) (میرے بعد اَب بس قیامت آئے گی) اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو‘‘۔
(شرح السنۃ جلد۷ ص۱۵‘ بخاری جلد۲ ص۷۲۷‘ مسلم جلد۲ ص۲۶۱)
حضرت ابو امام باہلیؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اللہ تبارک وتعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا جس نے اپنی اُمّت کو دجال سے نہ ڈرایا ہو۔ (مگر ان کے دورِ نبوت میں وہ نہ آیا) اور اب میں آخری نبیؐ ہوں اور تم آخری امت ہو اب لامحالہ اس کو تمہارے اَندر سے ہی نکلنا ہے‘‘۔
(ابن ماجہ ص۳۰۷‘ مستدرک حاکم جلد۴ ص۵۸۰)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’مجھے چھ باتوں میں ابنیاء کرامؑ پر فضیلت دی گئی ہے (۱) مجھے جامع کلامی کا اعزاز عطا فرمایا گیا ہے (یعنی بات مختصر اور معانی وسیع) (۲) مجھے رعب کے ذریعے مدد بخشی گئی ہے (۳) میرے لئے اَموال غنیمت حلال قرار دیئے گئے ہیں۔
(۴) میرے لئے (ساری) زمین کو مسجد بنا دیا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ (۵) مجھے ساری مخلوق کے لئے رسولؐ بنا کر بھیجا گیا ہے (۶) اور مجھ پر انبیاء کرامؑ کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے‘‘۔ (مسلم جلد۱ ص۱۹۹‘ مسند احمد جلد۲ ص۴۱۲‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۲ ص۴۳۲‘ جلد۹ ص۵‘ مجمع الزوائد جلد۸ ص۲۶۹‘ درمنثور جلد۳ ص۲۰۴‘ شرح السنۃ جلد۱۳ ص۱۹۸‘ طبع قدیم جلد۷ ص۶ طبع جدید دلائل النبوۃ جلد۵ ص۴۷۲‘ مشکل الآثار جلد۱ ص۴۵۱‘ ابن کثیر جلد۳ ص۴۲۱)
حضرت اِمام ابو حازم سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ میں ۵ برس تک حضرت ابوہریرہؓ کے پاس بیٹھا رہا۔
میں نے ان سے نبی کریم ؐکی حدیث شریف سنی کہ ’’بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء ؑ کرتے تھے جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو دوسرا نبی ؑ اُن کا جانشین ہوتا میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا بلکہ خلفاء ہوں گے‘‘۔ (بخاری جلد۱ ص۴۹۱ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ‘ مسند احمد جلد۲ ص۳۱۵‘ قرطبی جلد۷ جز۱۴ ص۲۵۱‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر۳۶۸۵)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء ؑ کی مثال اُس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اُسے نہایت خوبصورت اور حسین و جمیل (مضبوط اور مزین بنایا) مگر اُس کے ایک گوشہ میں دیوار کی ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی۔
لوگ اُس عمارت کے اِردگرد پھرتے اور اس کی خوبصورتی پر حیران ہوتے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے کہ اِس جگہ اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ (قصرِ نبوت کی) وہ آخری اینٹ میں ہوں‘‘ اور میں نبیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں اور بعض اَلفاظ حدیث میں ہے اُس جگہ کو پر کر کے قصر نبوت کو مکمل کر دیا گیا ہے۔(شرح السنۃ جلد۷ ص۱۷‘ ابن کثیر جلد۳ ص۴۳۱‘ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبیین جلد۱ ص۵۰۱‘ مسلم جلد۲ ص۴۴۸‘ کتاب الفضائل باب ذکر کون خاتم النبیین)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی ؓ کو فرمایا: (اے علی تو میرے لئے بمنزل (حضرت) ہارون ؑ کے ہے جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے (نزدیک تھے) مگر اتنی بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
(یعنی جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت ہارونؑ نبی تھے تم نبی نہیں ہو۔ کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہیں)۔(مسلم جلد۲ ص۲۷۸‘ ترمذی جلد۲ ص۲۱۴‘ ابن ماجہ ص۱۲‘ مسند احمد جلد۱ ص۱۷۹‘ جلد۳ ص۳۲‘ جلد۶ ص۴۳۸۔۳۶۹‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۱۱۱۔۱۰۹‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر۶۰۷۸‘ قرطبی جلد۱ جز۱ ص۲۶۶‘ المعجم الصغیر للطبرانی جلد۲ ص۵۴۔۲۲‘ المعجم الکبیر للطبرانی جلد۱ ص۱۱۰۔
۱۰۸‘ جلد۲ ص۲۷۵‘ جلد۴ ص۲۲۰‘ جلد۱۱ ص۱۷۴‘ البدایہ والنہایہ جلد۷ ص۳۴۲-۳۴۰‘ جلد۸ ص۷۷)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو (حضرت) عمر ؓ نبی ہوتے‘‘۔ (ترمذی جلد۲ ص۲۰۹‘ مستدرک حاکم جلد۱۷ ص۲۸۹‘ مجمع الزوائد جلد۹ ص۶۸‘ کنزالعمال حدیث نمبر۳۲۷۴۵)
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’اور یہ کہ عنقریب میری اُمّت میں تیس جھوٹے شخص ہوں گے ان میں سے ہر ایک شخص گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے اور جب کہ میں نبیوں کا ختم کرنے والا ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔
(مسلم ابودائود جلد۲ص۲۳۵۔۲۳۴‘ ترمذی حدیث نمبر۲۱۷۴۶‘ مسند احمد جلد۴ ص۱۲۳‘ جلد۵ ص۲۸۴۔ ۲۷۸‘ السنن الکبریٰ للبیہقی جلد۹ ص۱۱۸‘ مجمع الزوائد جلد۷ ص۲۲۱‘ درمنثور جلد۳ ص۱۹‘ مشکوٰۃ حدیث نمبر۱۲۵۷۵)
حضرت ابوامامہ باھلیؓ سے روایت ہے‘فرماتے ہیں‘ میں نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اے لوگو! یقین جان لو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں‘ اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نماز پنجگانہ کو ادا کرو‘ اور ماہ رمضان المبارک کے روزے رکھو اپنے حکمرانوں کے حکم کی اِطاعت کرو تمہارا رب تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔
(المعجم الکبیر للطبرانی جلد۸ ص۱۱۵۔۱۳۶‘ جلد۸ ص۱۳۸‘ مسند احمد جلد۵ ص۲۶۲۔۲۵۱‘ مستدرک حاکم جلد۱ ص۵۴۷۔۵۲‘ ترمذی حدیث نمبر۶۱۱‘ مجمع الزوائد جلد۸ ص۲۶۳‘ کنزالعمال حدیث نمبر۱۲۹۲۲)
مسلیمہ کذاب اولین دجّالوں میں سے ہے جو نبوتِ مصطفی کریمؐ کا منکر تو نہ تھا مگر وہ شریکِ نبوت کا دعویدار تھا۔ اُس نے حضور ؐ کے وصال سے قبل آپ ؐ کو ایک خط لکھا جس میں اس کذّاب دجّال نے اپنے آپ کو رسول لکھا۔
اُس خط کے اَلفاظ یہ تھے۔
’’مسلیمہ رسول اللہ کی طرف سے (حضرت) محمد رسول اللہ ؐکی طرف آپؐ پر سلام ہو آپ ؐ کو معلوم ہو کہ میں آپ ؐ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں‘‘۔(طبری جلد۲ ص۱۹۹)
علاوہ ازیں مؤرخ طبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مسیلمہ کے ہاں جو اَذان دی جاتی تھی اُس میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے اَلفاظ بھی کہے جاتے تھے۔
ایک طرف وہ صریح اِقرار رسالت محمد مصطفی ؐ کرتا تھا‘ دوسری طرف شریکِ رسول کا جھوٹا دعویٰ رکھتا تھا۔ اِس لئے اسے کافر اور خارج از ملت اِسلامیہ قرار دیا گیا اور اُس کے ساتھ خلیفۃ الرسول خلیفہ بلا فضل خلیفہ اوّل یار غار مصطفی فنافی الرسول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور صحابہ کرام ؓنے وہ جنگ کی جو کفار سے کی جاتی ہے جیساکہ غزوئہ بدراوراحد وغیرہ۔

بنو حنیفہ قبیلے کے لوگوں کو مسیلمہ کذّاب نے گمراہ کر دیا تھا وہ مسیلمہ کو شریک رسول سمجھتے تھے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں تحفط ناموس ختم رسالت کے لئے مسیلمہ کذّاب کے خلاف جہاد کے لئے ایک لشکر روانہ کیا۔ جس نے مسیلمہ اور اس کے پیروکاروں کو واصل جہنم کیا۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق ؓنے اِعلان کیا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور جب وہ لوگ اَسیر ہوئے تو واقعی اُنہیں غلام اور لونڈیاں بنا یاگیا۔
انہی میں سے ایک لونڈی امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی بن ابی طالبؓ کو ملی جن کے بطن سے تاریخِ اِسلام کی مشہور و معروف شخصیت محمد بن حنفیہ نے جنم لیا۔ (حنفیہ سے مراد بنو حنفیہ قبیلہ کی عورت ہے) مسیلمہ کذّاب کے خلاف کارروائی صحابہ کرام ؓ کی پوری جماعت کے اِتفاق سے ہوئی۔ ختم نبوت کے عقیدے کے خلاف جھوٹے مدعیان نبوت کے مقابلے میں صحابہ کرام ؓ کا اِجماع تھا کہ رسول اللہ ؐ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا کافر دجّال مرتد اور کذاب ہے۔

علمائے اِسلام اور فقہائے شریعتِ اِسلامیہ سبھی اِس عقیدے پر متفق ہیں کہ نبی کریم ؐکے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم ؐ کے بعد نبوت کے منصب کا دعویٰ کرنے والا اور دعویٰ کرنے والے کو سچا ماننے والا سبھی ملّت اِسلامیہ سے خارج مرتد‘ کافر‘ دجال اورکذاب ہیں۔
حضرت اِمام ابوحنیفہ ؓ کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اِعلان کیا ’’مجھے موقع دو تاکہ میں اپنی نبوت کی علامت پیش کر دوں اِس پر حضرت امام ابوحنیفہؓ نے فرمایا جو شخص اس سے نبوت کی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا کیونکہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے:- ’’یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ لابن احمد المکی جلد۱ ص۱۶۱)۔

Browse More Islamic Articles In Urdu