Open Menu

Zakat Ke Masarif - Article No. 1966

Zakat Ke Masarif

زکوة کے مصارف - تحریر نمبر 1966

زکوٰة صرف مسلمانوں سے لی جائے گی اور مسلمانوں کو ہی دی جائے گی زکوٰة کے آٹھ مصارف ہیں ان کے علاوہ کسی جگہ زکوٰة کا پیسیہ صرف نہیں ہو سکتا۔ زکوٰة جب تک اپنے مصرف تک نہیں پہنچے گی دینے والے پر اسی طرح فرض رہے گی۔

منگل 12 جون 2018

مولانا محمد اکرم اعوان
صدقات دو قسم کے ہیں نفلی صدقات اور فرض صدقات ،فرض صدقات میں سر فہرست ز کو ة ہے۔ اسلام کا معاشی نظام دنیا کے تمام نظاموں سے منفرد اور بہترین نظام ہے کہ اللہ کا عطا کردہ ہے اللہ اپنی مخلوق کا بھی خالق ہے اور ان کی ضروریات کا بھی خالق ہے ان کی خواہشات وآرزووٴں کو بھی جانتا ہے اور ان کی تکمیل کے بھی وہ ذرائع صحیح ہیں جو اللہ کریم نے مقرر فرمائے ہیں نفلی صدقہ مومن و کافر ہرایک کو دیا جاسکتا ہے لیکن فرض صدقات صرف مسلمانوں کے لیے ہیں زکوةصرف مسلمانوں سے لی جائے گی کہ غیرمسلم پرز کو ةبھی فرض نہیں یہ مسلمانوں سے ہی لی جائے گی اور مسلمانوں کو ہی دی جائے گی۔

جس کے پاس کوئی رقم جو چالیس روپے سے زائد ہو اور ایک سال تک اس کے پاس محفوظ رہے اس کی ضرورت میں استعمال نہ آئے تو اس میں سے اسے ایک روپیہ زکوة کے لیے دینا فرض ہے۔

(جاری ہے)

گویا سومیں سے اڑھائی فیصد ٹیکس وہ ہے جوزائد ہے از ضرورت رقم پر لگے گا اور غریب مسلمانوں پر ہی خرچ ہوگا۔ اس کے آٹھ مصارف ہیں جو خود اللہ کریم نے مقررفرمادیے۔ وہ کسی کی تقسیم ہے اللہ کی اپنی تقسیم ہے حتیٰ کہ اللہ کریم نے اسے انبیا علیہم الصلوة پر بھی نہیں چھوڑا اپنی طرف سے ان کی تقسیم مقرر فرما دی اور یہ بہتر معاشی نظام ہے۔

چونکہ اسلام ارتکاز ِدولت کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی دولت ایک جگہ جمع ہوتی جائے ، امیر امیر تر ہوتے جائیں اور غریب غریب تر ہوتے جا ئیں۔ دنیا کا سب سے بڑا معاشی مسئلہ بھی یہی ہے۔ دنیا میں ایسے نظام موجود ہیں کہ جس کے پاس پہلے دولت ہے وہ اور جمع کرتا جاتا ہے اور جو پہلے ہی دست ہے وہ اور غریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ صرف اسلام ہے جس نے زکوة کی کا نظام دیا ہے جس کے سبب جوز ائداز ضرورت وولت ہے وہ چالیس تیس برس میں واپس گردش میں آجاتی ہے۔
اگر ڈھائی فیصد ایک سال آئے گی تو چالیس سالوں میں گویا وہ ساری واپس گھروں میں آ جاتی ہے۔ اسی معاشرے میں گردش کرے گی پھر اس کے نفلی صدقات کی بہت ترغیب دی بہت سے گناہوں کا کفارنفلی صدقات کی صورت میں فرمایا اور بہت سی خطاوٴں سے تلافی کے لیے غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔ اسلام غلامی کے بھی خلاف ہے اور غلاموں کو آزاد کرنے پر اللہ کریم نے بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے حتیٰ کہ غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے ایک مدمصارف زکوة میں مقرر کی لیکن اس کا اطلاق صرف مسلمان غلاموں پر ہی ہوگا۔

زکوة کے مصارف:
انما الصدقت للفقرائز کوة کا سب سے پہلا مصرف فقیر کی امداد ہے۔فقیر اسے کہتے ہیں جو بالکل تہی دست ہو۔ جس کے پاس نہ گھر ہو نہ ٹھکانہ، نہ روزگار ہونہ کوئی زریعہ معاش تو سب سے پہلا حق محتاجوں یعنی فقراء کا ہے۔
و المسکین اس کے بعد غربیوں کا حق ہے۔ اصطلاح قرآن میں غریب ومسکین وہ ہوگا جس کے پاس مکان، جھونپڑا یا ٹھکانہ بھی ہے، گھر بھی ہے، کچھ مزدوری بھی کرتا ہے لیکن اس کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اس کی اتنی آمدن نہیں ہے کہ اپنی ضروریات آسانی سے پورا کر سکے تو وہ غرباء کے ضمن میں آئے گا وہ بھی مستحق ہے کہ زکوة سے اس کی مدد کی جائے۔

والعلمین علیھا تیسرے وہ لوگ ہیں جو زکوة کو جمع کرنے پر مقرر کیے جائیں گے اور جو زکوة کو جمع کرنے پر مقرر کیے جائیں یہ ضروری تو نہیں کہ وہ فقیر ہوں یا محتاج ہوں کوئی بھی اس کام پر لگ سکتا۔ ہے اس پرمفسرین کرام، علم فقہاء حضرات نے بڑی لمبی بحثیں فرمائی ہیں۔ مفتی محمدشفیع نے ان مباحث کو معارف القرآن میں یکجا کر دیا ہے سب کا محاصل یہ ہے کہ عاملین کوز کوة جمع کرنے پرتنخواہ نہیں دی جاتی۔
زکوةجمع کرنا تو ایک عبادت ہے، عبادت پر اجرت نہیں ہوتی لیکن ان کا وقت لیا جاتا ہے وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتے، کاروبارنہیں کر سکتے ،مزدوری نہیں کر سکتے۔ شب و روز اسی میں مصروف رہتے ہیں تو جواجر ت انھیں دی جاتی ہے تو یہ ان کے اس وقت کی اجرت ہے جو ان سے لیا جاتا ہے۔ اسی سے علماء نے آئمہ مساجد جوقرآن و حدیث پڑھاتے ہیں ان کی تنخواہوں کا جواز پیدا فرمایا ہے کہ قرآن پڑھانے کی تو اجرت جائز نہیں ہے نماز پڑھانے کی اجرت بھی جائز نہیں ہے خود امام پر بھی تو نماز فرض ہے اس نے بھی پڑھنی ہے دوسروں کو پڑھادی تو اور ثواب ہوگا اس پر خواہ کسی بات کی۔
علما یہیں سے اخذ کرتے ہیں کہ اگر کسی کو پابند کر دیا جاتا ہے کہ اس نے پانچوں نماز یں یہیں پڑھنی ہیں جمہ کا خطاب یہاں مسجد میں دینا ہے تو اس کا جو وقت لیا جاتا اس وقت کی اجرت دی جاتی ہے عبادت کی اجرت نہیں ہے نماز تو خود اس پر فرض ہے۔
والمولفتہ قلوبھم اور وہ لوگ جن کی تالیف قلب مقصود ہو ۔کسی نے اسلام قبول کیا یا کوئی پہلے سے مسلمان ہے لیکن اتنا کمزور ہے اتنا غریب ہے کہ اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر غیر مسلم اسے پریشان کر تے ہیں تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اور اس کومحتاجی سے بچانے کے لیے فرض صدقات میں اللہ نے اس کاحق مقرر کر دیا ہے کہ اسے بھی زکوة میں سے حصہ دیا جائے گا۔

وفی الرقابغلا موں کو آزاد کرانے کے لیے اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے نہ صرف فرض صدقات میں ان کا حصہ رکھا بلکہ غلاموں کی آزادی کی ترغیب دلانے کے لیے، گناہوں کے کفارے کے طور پر اور نیکی وثواب حاصل کرنے کے لیے غلاموں کی آزادی کو ذریعہ قرار دیا حتی کہ اگر کسی سے سہواََ قتل ہو جائے تو اس کی سزا بھی غلام آزاد کرنا قراردیا۔
والغرمنیمقروض لوگوں کی مدد کی جائے مقروض یہ نہیں کہ بالکل فقیر ومحتاج ہی ہو کوئی صاحب حیثیت بھی ہے لیکن اس کی حیثیت اتنی نہیں ہے کہ اپنے اخراجات پورے کر کے قرضہ بھی اتار سکے آمدن اتنی ہی ہے کہ اس کا گزارہ ہورہا ہے لیکن پیسے اس نے نہیں بچتے کہ وہ قرض اتار سکے تو وہ بھی اس کا مستحق ہے اس کا قرض اتارنے میں زکوة میں سے اس کی مدد کی جائے۔
وفی سبیل اللہ اور اللہ کی راہ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے فی سبیل اللہ سے مراد ہے کہ معاشرے کا کوئی ایسا اصلی کام جس سے معاشرے کی دینی اعتبار سے اصلاح ہوتی ہو یا جہاں ملکی دفاع کی بات آجائے یا کافروں سے مقابلہ آجائے۔ وابن السبیل مسافرز کوة کامستحق ہے خواہ وہ اپنے گھر میں کتناہی امیر آدمی ہولیکن اگر دوران سفر وہ بھی ضرورت مند ہوجائے تو وہ بھی مسکین ہے محتاج ہے جیسے کسی نے اس کی جیب کاٹ لی، اس کاز ادراہ ختم ہوگیا تو مسافر کی مددبھی زکوة سے کی جاسکتی ہے۔
زکوة کے یہ آٹھ مصارف ہیں ان کے علاوہ کسی جگہ زکوة کاپیسہ صرف نہیں ہوسکتا۔ جن لوگوں کواللہ نے صاحب نصاب بنایا ہے اور توفیق دی ہے جب وہ ز کو ة دیتے ہیں تو ان کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ زکوة کہاں د ے رہے ہیں اور کیا یہ ز کوة کا مصرف ہے بھی یا نہیں۔ ہم اگردیتے بھی ہیں تو جان چھڑاتے ہیں کہ اتنے پیسے کسی کو پکڑادیے اس طرح نہیں کرنا چاہیے۔ احتیاط چاہیے کہ جب تک وہ اپنے مصرف تک نہیں پہنچے گی دینے والے پراسی طرح فرض رہے گی۔ فرض تب ادا ہوگا جب کو اپنے مصرف تک پہنچ جائے گی یا کسی کوشخص کو آپ دیتے ہیں تو اس پر آپ کو اتنا اعتماد ہونا چاہیے کہ یہ شخص مصارف زکوة پرمیری زکوة خرچ کرے گا۔( اکرم التفاسیر سے ماخوذ)

Browse More Islamic Articles In Urdu