Open Menu

Zameen Par Najaiz Qabza - Article No. 3071

Zameen Par Najaiz Qabza

زمین پر نا جائز قبضہ - تحریر نمبر 3071

کسی مسلمان آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کا مال‘جائیداد ‘زمین وغیرہ غصب کرے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا خون‘مال اور آبر و دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا ہے ۔

بدھ 27 مارچ 2019

مُبشّر احمد رَبّاَنی
کسی مسلمان آدمی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان بھائی کا مال‘جائیداد ‘زمین وغیرہ غصب کرے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا خون‘مال اور آبر و دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا تھا:
”بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے یہ تمہارا آج کا دن حرمت والا ہے جوتمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں واقع ہوا ہے ۔


امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اس ساری گفتگو سے مراد مالوں ‘جانوں اور عزتوں کی حرمت کی شدت کے ساتھ تاکید ہے اور ان کی پامالی سے ڈرانا ہے ۔مسلمان کے مال کی حرمت کو مزید واضح کرتے ہوئے ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
”تم میں سے کوئی شخص بھی ہر گزاپنے بھائی کا سامان نہ لے نہ ہنسی ومذاق کرتے ہوئے اور نہ ہی سنجیدگی کے ساتھ اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی پکڑ لی اسے چاہئے کہ وہ واپس کردے۔

(جاری ہے)


ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مسلمان کیلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی رضا مندی کے بغیر لے اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام کرنے میں جو شدت اختیار کی ہے اس وجہ سے آپ نے یہ فرمایا۔“
اس مفہوم کی کئی ایک روایات صحیحہ اور بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدت اور سختی کے ساتھ مسلمان کے مال کو مسلمان پر حرام قرار دیا ہے حتیٰ کہ ایک لکڑی بھی مسلمان کی اجازت کے بغیر لینے سے منع کر دیا ہے ۔

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا آپ کے پاس دو آدمی زمین کے جھگڑے میں آئے۔ایک نے کہا اے اللہ کے رسول ! اس نے میری زمین پر زبردستی قبضہ(زمانہ جاہلیت میں )کر لیا تھا۔“
(یہ امراء القیس بن عابس الکندی تھے اور ان کا مد مقابل ربیعہ بن عبدان تھا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تیرے گواہ کہا ہیں ؟اس نے کہا میرے پاس گواہ نہیں ۔
آپ نے فرمایا پھر اس کی قسم ہو گی ۔امراء القیس نے کہا پھر توقسم کھا کر یہ زمین لے جائیگا آپ نے فرمایا تیرے لئے اس کے سوا کچھ نہیں ۔جب وہ قسم کھانے کے لئے کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ظلم سے زمین چھین لی‘وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔“
سعید بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
”جس نے زمین میں سے کچھ بھی ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا“
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے درمیان جھگڑا تھا انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا تو عائشہ رضی اللہ عنہ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے کہا:اے ابوسلمہ! زمین کے جھگڑوں سے اجتناب کرو۔

اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے ایک بالشت برابر زمین میں سے ظلم کیا تو زمین کا وہ حصہ سات زمینوں سے اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔“
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے زمین میں سے کچھ بھی ناحق لیا تو اسے قیامت والے دن اس کے بدلے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔

یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:”جس بھی شخص نے زمین میں سے ایک بالشت برابر ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں تک دھنسا دے گا پھر قیامت والے دن وہ اسے لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک طوق پہنائے رکھے گا۔“
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
”اللہ کے ہاں قیامت والے دن سب سے بڑی خیانت ایک ہاتھ زمین ہو گی جسے آدمی چوری کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ اسے ساتھ زمینوں سے طوق پہنا ئے گا۔“
ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ بخاری کتاب المظالم کی مذکورہ احادیث کی شرح میں رقمطراز ہیں :
”اور حدیث میں ظلم اور غصب کی حرمت اور اس کی سزا کی سختی بیان ہوئی ہے اور زمین کے غصب کا ممکن ہونا اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔یہ بات امام قرطبی نے کہی ہے ۔“
قاضی شوکانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”غصب کرنے والا گناہ گارہے اور وہ چیز جو اس نے غصب کی ہے اسے واپس کرنا اس پرواجب ہے کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ۔

نواب صدیق الحسن خان رحمة اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :
”غاصب اس لئے گناہ گارہے کہ اس نے اپنے غیر کا مال باطل طریقے سے کھایا ہے یا اس پر زیادتی کرتے ہوئے غالب ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ”اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔“
اس کے بعد نواب صدیق حسن صاحب نے کئی احادیث اس بارے ذکر کیں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے ۔
اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے اس میں کاشتکاری کر لے یا مکان تعمیر کرلے تو اسے
صرف اس کے اخراجات ملیں گے اور کھیتی سے جو کچھ حاصل ہو ا وہ زمین کے مالک کا ہو گا‘اس کی دلیل یہ ہے کہ رافع بن خدیج سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس کسی نے دوسرے لوگوں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر زراعت کی تو اسے اس زراعت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اسے صرف وہ اخراجات ملیں گے جو اس نے خرچ کئے ۔

بعض محدثین نے اس روایت میں کلام کیا ہے لیکن اس روایت کا ایک قوی شاھد موجود ہے ۔جو ابوداؤد کتاب البیوع(3399)نسائی کتاب الایمان(3898)وغیرہ میں بسند صحیح موجودہے۔
امام ابن ابی حاتم رازی نے علل الحدیث 476'475/1میں اسے ذکر کرکے کہا ہے کہ میرے باپ ابو حاتم رازی نے فرمایا:
”یہ حدیث شریک ازابی اسحاق کی حدیث کو تقویت دیتی ہے ۔“
علامہ البانی نے بھی اسے ارواء الغلیل اور صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے ۔

مولانا صفی الرحمان مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”کھیتی باڑی سے جو کچھ حاصل ہو وہ زمین کے مالک کا ہو گا بیج بونے والے کے بجزاس بیج کے کچھ نہیں جو اس نے زمین میں بویایا جو زمین میں صرف ہوئے اسے وہی ملیں گے ۔
اما م احمد رحمة اللہ علیہ ‘امام اسحاق رحمة اللہ علیہ ‘امام مالک رحمة اللہ علیہ ‘اور مدینہ کے اکثر علماء کا یہی مسلک ہے اور یہی راجح مذہب ہے مگر اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ کھیتی تو غاصب کی ہے اور اس پر زمین کا کرایہ مگر اس قول پر کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس حدیث کے مقابلہ میں پیش ہو سکے ۔

مذکورہ بالا دلائل صحیحہ سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی زمین ‘اس کے مال ومتاع پر ناجائز تصرف وقبضہ کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے ۔اگر کوئی شخص کسی کی زین پر قبضہ کرکے کا شتکاری کرے یا مکان تعمیر کرلے تو اس سے زمین واپس لی جائے گی۔اسے صرف اس کے اخراجات مل سکتے ہیں یہ موقف دلائل کے لحاظ سے قوی اور واضح معلوم ہوتا ہے ۔فقہ حنفی کاموقف یہ ہے کہ:
”جو شخص زمین غصب کرے اور پھر اس نے اس میں پودے لگا دیے یا وہ تعمیر کے لے تو اس سے کہیں گے کہ یہ پودے اور تعمیر اکھاڑ لے اور زمین کے مالک کو خالی زمین لوٹا دے پس اگر زمین میں اکھاڑنے کی وجہ سے نقص پیدا ہوتا جو تو مالک کے لئے درست ہے کہ وہ اکھڑے ہوئے پودوں اور تعمیر کی قیمت غصب کرنے والے کو دے دے ۔

(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر3)
(مُبشّر احمد رَبّاَنی)

Browse More Islamic Articles In Urdu