Open Menu

2 Farishtoon Ki Rozana Pukar - Article No. 3353

2 Farishtoon Ki Rozana Pukar

دو فرشتوں کی روزانہ کی پکار - تحریر نمبر 3353

ہر دن صبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتاہے کہ اے اللہ!خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتاہے (کہ ضرورت کے موقع پر بھی) روک رکھنے والے کو( مال کی )ہلاکت عطا کر۔

منگل 31 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہر دن صبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتاہے کہ اے اللہ!خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتاہے (کہ ضرورت کے موقع پر بھی) روک رکھنے والے کو( مال کی )ہلاکت عطا کر۔
(رواہ الشیخان۔کتاب الزکوٰة)
گرامی قدر سا معین !زیر مطالعہ حدیث کے تناظر میں سب سے پہلے جو بات یہاں پر سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ‘کے قائم کردہ نظام کائنات میں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے واقعات ہوں گے جو انسان کی آنکھ اور اس کے حواس کی دسترس سے باہر ہوں گے ۔ہماری آگاہی صرف ہمارے محدود علم اور محدود تجربہ تک ہی ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

مشاہدات کی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ،سائنس اسے معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔نت نئی معلومات ہم تک پہنچ رہی ہیں اور ہم سائنسدانوں کے کہنے کی وجہ سے انہیں ماننے پر مجبور ہیں ۔انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔بعینہ اسی طرح روحانی یا باطنی نظام میں بھی بہت کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے ،جہاں عام انسان کی آنکھ کی رسائی ممکن نہیں ۔انبیاء علیہم السلام اس نظام کی باریکیوں سے خوب خوب واقفیت رکھتے ہیں اور ان کی طاقتور صلاحیتیں ان کا ادراک کر لیتی ہیں ۔
اور وہ گاہے بگاہے اُن سے پردہ اُٹھاتے رہتے ہیں۔ عقل اور ایمان دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام کی زبانی ہمیں معلوم ہو ہم اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں کہ یہاں بھی انکار کی کوئی وجہ نہیں کہ ان کا فرمایا ہوا سچ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس حدیث میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن کے اندر ہونے والے غیبی واقعات میں سے صرف ایک واقعہ کا تذکرہ فرمایا ہے کہ ہر دن کی صبح کو دو فرشتے آسمان سے اُترتے ہیں اور دو باتیں کہتے ہیں یا یوں کہئے کہ وہ دو دعائیں کرتے ہیں ۔
ایک فرشتہ کہتاہے کہ اے اللہ جو شخص تیرے حکم کے مطابق اپنے مال کو خرچ کر رہا ہے تو اُسے اس کا بدلہ عطا فرما جبکہ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ جو شخص ضرورت کے موقعے پر بھی مال خرچ کرنے سے گریزاں ہے اور بخل سے کام لے رہا ہے ،تو اُس کے مال کو تلف کر دے ۔حدیث شریف کے الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ ان دو فرشتوں کی دن کی صرف یہی ڈیوٹی ہے جسے وہ پوری پابندی سے ادا کرتے ہیں ۔
اور سمجھ میں آتا ہے کہ اعلانات کا یہ سلسلہ اسی طرح قیامت تک جاری رہے گا۔ اس واقعہ کو نہ ماننے یا اس سے انکار کی کوئی معقول وجہ ہمارے پاس نہیں ہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ ہمارے انکار کی بنیاد پر اس کائنات کے نظام میں نہ تو کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ اعلانات بند ہو سکتے ہیں ۔ان آوازوں کا سننا اگر ہمارے مفاد میں ہوتا یا ہم ان کے سننے کی استطاعت رکھتے تو اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں سنوا دیتاہے ۔
ارشاد گرامی ہے صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس لئے مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔امنا وصدقنا۔
حضرات گرامی!اب آیئے ان اعلانات کی معنویت پر غور کرتے ہیں ۔فرشتہ جس شخص کو بدلہ دیئے جانے کی دعا کرتا ہے وہ حدیث پاک کے الفاظ کے مطابق منفق ہے ۔منفق کا لفظ انفاق سے نکلا ہے۔ جس کا شرعی اصطلاح میں مفہوم یوں ہے :طیب اور حلال مال کو نیکی کی راہوں اور مباح امور میں صرف کرنا ۔
اس مفہوم کے اعتبار سے منفق وہ شخص ہے جو اپنے طیب اور حلال مال سے اللہ کے حکم کے مطابق طاعات اور نیکی کی راہوں میں خرچ کرے ۔بلا ضرورت اور ضرورت سے زیادہ خرچ سے احتراز کرے ۔قرآن حکیم میں اس عمل کو متقین اور موٴمنین کی اعلیٰ صفات میں شمار کیا گیا ہے ۔سورئہ آل عمران آیت 134میں ارشاد بانی ہے کہ جنت متقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو آسودگی اور تنگی میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔
غصہ کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو پسند کرتاہے۔ سورة الفرقان آیت۔67میں رحمان کے بندوں کی تعریف کے ضمن میں یوں ارشاد ہوا ہے ۔اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ ہی بخل سے کام لیتے ہیں بلکہ دو انتہاؤں کے درمیان اعتدال سے کام لیتے ہیں ۔یہ بات ایک دو آیات پر منحصر نہیں بلکہ بیسیوں آیات میں اللہ کے دیئے ہوئے مال سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس کی توصیف بھی کی گئی ہے ۔
اس لئے کہ اس سے ضرورت مندوں ،محتاجوں اور مفلسوں کی ضروریات کا سدباب ہوتاہے ۔امیر اور غریب کے درمیان کے فاصلے کم ہوتے ہیں اور وہ لوگ ایسے شخص کے لئے دعاء گو رہتے ہیں ۔اس پس منظر میں فرشتوں کی نمائندگی کے لئے ہر صبح کو ایک فرشتہ اترتاہے اور اس خوش قسمت انسان کے حق میں دعاء کرتاہے کہ اے اللہ جو شخص تیرے دیئے ہوئے مال سے مستحق لوگوں کی ضروریات پوری کر رہا ہے تو اپنی مہر بانی سے اس کے بدلے میں اُسے اور مال عطا کرتا کہ اسے کمی کا احساس نہ ہو اور وہ یونہی اس کار خیر میں آگے بڑھتا رہے۔
یہ دعاء دراصل اس کی فیاضی اور سخاوت کی قدر دانی کے طور پر ہے ۔قرآن حکیم میں ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو ،اللہ اس کے بدلے میں تمہیں اور دے گا۔
اس کے برعکس جو شخص اللہ کے دیئے ہوئے مال کو روک کر بیٹھ گیا ہے اور اس کا دل نہیں پسیجتا کہ وہ اشد ضرورت کے وقت اپنی مقفل تجوری کو کھول کر ضرور ت مندوں کا حق ادا کرے بلکہ اُسے سینت سینت کر رکھتا چلا جا رہا ہے اور اپنے تئیں سمجھ بیٹھا ہے کہ یہ مال یو نہی سدا رہے گا اور کبھی زوال پذیر نہ ہو گا ،وہ بھلا اس دعاء کا کس طرح مستحق قرار پا سکتاہے۔

اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرا فرشتہ اس کے لئے بد دعاء کرتاہے کہ اے اللہ جو شخص اس قدر خود غرض بن کر رہ گیا ہے کہ اپنے مال کو ہوا تک نہیں لگنے دیتا۔ اس کے لئے بھی تو اس کے مال کو بے مصرف کر دے یہ بد دعا بھی ہے اور تنبیہ بھی ۔اس بد دعاء کی وجہ سے اس کے مال میں بے برکتی درآتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے اس کا مال مباح امور میں خرچ ہونے کی بجائے فضول اور بے مصرف کاموں میں اڑنے لگتاہے اگر ہم گردو پیش میں نظر ڈالیں گے تو فرشتوں کی دعاء اور بددعا دونوں کے اثرات کھلی آنکھوں سے دیکھ سکیں گے ۔

حضرات گرامی ! اس حدیث پاک میں ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو اپنے ہر دن کا آغاز فرشتے کی دعاء کے تحت کرتے ہیں ۔اور لمحہ فکر یہ ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے غلط طرز عمل کی وجہ سے ہر صبح فرشتے کی بدعا کے زیر اثر اٹھتے ہیں ۔اللہ پاک سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu