Open Menu

Amar Bil Maroof Wa Nahi Anil Munkar - Article No. 3359

Amar Bil Maroof Wa Nahi Anil Munkar

امربا لمعروف ونہی عن المنکر - تحریر نمبر 3359

قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔تمہیں بھلائی کا حکم کرنا ہو گا اور بُرائی سے روکنا ہوگا۔

جمعرات 2 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔تمہیں بھلائی کا حکم کرنا ہو گا اور بُرائی سے روکنا ہوگا۔ورنہ بہت ہی قریب ہے یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی طرف سے عذاب بھیج دے پھر یہ ہو گا کہ تم اس سے دعاء کرو گے اور تمہاری دعا قبول نہ ہوگی ۔
(رواہ الترمذی)
سامعین گرامی قدر!رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کے الفاظ اور اس کے مندر جات پر گہری نظر ڈالیں گے تو معلوم ہو گا کہ یہ اسقدر تاکیدی حکم ہے کہ اس سے صرف نظر کرنا یا سرسری طور پر پڑھ ،سن کر خاموش ہو جانا انفرادی اور اجتماعی طور پر بہت ہی نقصان دہ ہو گا ۔

(جاری ہے)

سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ اس کا آغاز ایک قسم سے ہے ۔

مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔یہ قسم آنے والے مضمون کی اہمیت کو واضح کرتی ہے ۔اور سامع سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسے پوری توجہ سے سنا جائے ۔اچھی طرح سمجھا جائے اور بلا کم وکاست اس پر عمل کیا جائے ۔تاکید کے لئے لام اور آخر میں نون مشدد یا نون ثقیلہ ہے ۔جس کا سادہ الفاظ میں یوں ترجمہ بنتاہے کہ مسلمانو!تمہیں ہر حال میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بجا لانا ہو گا۔
ورنہ رب ذوالجلال کی طرف سے عذاب کا قریب ہونا اور دعاؤں کا قبول نہ ہونا اس کا لازمی نتیجہ ہو گا ۔تمہاری کوئی بھی تدبیر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹال نہیں سکے گی ۔اور اس عمل کے بغیر تمہارا رونا دھونا اور گڑ گڑاکر دعائیں مانگنا کچھ کام نہیں آئے گا۔
ہم جہاں کہیں بھی ہوں ،زندگی کے کسی بھی شعبہ سے منسلک ہوں ،امربا لمعروف اور نہی عن المنکر کی دینی اصطلاح سے بخوبی واقف ہیں۔
جس کا مطلب ہے ”بھلائی اور نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ۔ان دونوں کے مجموعہ کو”دعوت الی اللہ“کا نام دیا جاتاہے ۔علماء لغت لکھتے ہیں کہ ”معروف“نفس انسانی کی جانی پہچانی چیز ہے ۔یعنی خیر اور بھلائی کا کوئی بھی کام جب اُس کے سامنے آتاہے تو وہ اُسے اپنا ہی کام سمجھتاہے ۔اُسے دیکھ کر الجھن نہیں ہوتی ۔جبکہ منکر کہتے ہی اُس چیز کو ہیں جو اوپری اوپری ہو اور جس سے کوئی جان پہچان نہ ہو۔
قرآن وحدیث کی رُو سے ایمان والوں پر اس ضمن میں جو فریضہ عائد کیا گیا ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ معروف کا حکم کریں اور منکر سے روکیں ۔قرآن حکیم کی سورة آل عمران آیت نمبر 110میں بھلائی کے حکم کرنے اور برائی سے روکنے کو امت مسلمہ کے ٹائیٹل اور خطاب کا درجہ دیا گیا ہے اور اسی بنا پر اسے ”خیرامت“کے لقب سے نوازا گیا ہے ۔اسی سورئہ آل عمران کی آیت نمبر 101میں فرمایا گیا ہے کہ تم میں سے ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے یعنی بھلائی کا حکم کرے اور بُرائی سے روکے ۔
نیز تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کے لئے یہی فریضہ ادا کرتے رہے ۔خود رسول رحمت ،ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف جلیلہ کو بیان فرماتے ہوئے سورة الاعراف کی آیت نمبر 157میں ارشاد ہوا ہے ۔پھر دیکھئے کہ سورة التوبہ کی آیت نمبر 71میں موٴمن مرد اور موٴمن عورتوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:اس مضمون کو سورة التوبہ ہی کی آیت نمبر 112میں الامر بالمعروف والناھون عن المنکر کے پُر شکوہ الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے ۔
یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو ہر حال اور ہر حیثیت میں اپنی تکمیل اور تنفیذ کا مطالبہ کرتاہے ۔سورة الحج کی آیت نمبر 41تو ہمیں یہاں تک آگاہی بخشتی ہے کہ صاحبان اقتدار بھی اس فریضہ سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ انہیں بھی یاد دلایا گیا ہے کہ۔یعنی جن لوگوں کو ہم زمین میں اقتدار بخشتے ہیں(اُن کی اہم ڈیوٹی ہے کہ) وہ نماز کو قائم کریں ۔کرائیں ۔زکوٰة دینے اور دلانے کا اہتمام کریں۔
معروف کا حکم کریں اور بُرائی سے روکیں۔
انہی ارشادات کے پیش نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اس فریضہ کی ادائیگی کی بھر پور تلقین فرمائی ہے ۔ان دنیوی اور اُخروی فوائد ومنافع کا ذکر فرمایا ہے جو اہل ایمان کو اس کی ادائیگی کی صورت میں یقینی طور پر حاصل ہوں گے اور ان نقصانات ومصائب کی بھی وضاحت فرمائی ہے جو اس سے جی چرانے کی صورت میں ان کا مقدر بنیں گی ۔
امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ ،امام ابو داؤد رحمة اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے آنحضرت علیہ الصلوٰة والسلام کا ایک ارشاد اس طرح نقل کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں دین میں نقص کا آغاز اس طرح ہوا کہ جب اُن میں سے کوئی شخص کسی کو کوئی غلط اور نا مناسب کام کرتا ہوا پاتا تو اُسے کہتا: اللہ سے ڈرو اور یہ کام جو تم کر رہے ہو، اسے چھوڑ دوکیونکہ یہ جائز نہیں ہے ۔
مگر دوسرے دن جب اُسے اسی کام میں منہمک پاتا تو اُسے منع کرنے کی بجائے ،اس کے ساتھ کھانے پینے اور اس کی مجلس میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہ سمجھتا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو ایک جیسا کر دیا۔اور اسی وجہ سے حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانوں سے ان پر لعنت ہوئی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا:ہر گز نہیں ،اللہ کی قسم ہے ،تمہیں بھلائی کا حکم کرنا اور بُرائی سے روکنا ہو گا،تمہیں ظالم کا ہاتھ روک کر اسے حق کی طرف لانا ہو گا اور اُسے حق کا پابند کرنا ہو گا۔

گرامی قدر سامعین !کون مسلمان ہو گا جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نہ سنا ہو جسے امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے نقل کیا ہے کہ تم میں سے جب کوئی شخص بُرائی کو ہوتے ہوئے دیکھے تو چاہئے کہ اُسے ہاتھ سے روکے ،یہ نہیں کر سکتا تو زبان سے منع کرے اور اگر یہ بھی اس سے نہیں ہو سکتا تو دل سے بُرا سمجھے۔
اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔اور آج کی زیر مطالعہ حدیث میں تو آپ نے سنا کہ رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ اگر تم نے اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی اور غفلت سے کام لیا تو سمجھو کہ اللہ کے عذاب اور اس کی گرفت میں آچکے ہو ۔اب تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی ۔واضح بات ہے کہ گردوپیش اور ماحول سازگار نہ ہو ۔
جہاں نیکی اور معروف کا پرچار نہ ہو ،بُرائی کھلے عام ہو اور ہر آدمی آنکھیں بند اور کان لپیٹے نکل جائے تو سوچئیے کہ ایسے میں کیسی دعاء اور کسی قبولیت ۔ذرا ہمیں آج اپنے آپ سے پوچھنا اور اپنے ہی گریبان میں جھانک کر سوچنا چاہئے اور انصاف کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ اس مبارک ارشاد اور عظیم تنبیہ کی روشنی میں ہم کہاں کھڑے ہیں ؟لگتاہے کسی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں ۔
بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے فریضہ اور ڈیوٹی سے غافل ہیں ۔انفرادی اور اجتماعی توبہ اور اپنے فریضہ پر واپسی ہی اس کا علاج ہے۔ امت مرحومہ کا ایک مقتدر طبقہ آج سے صدیوں پہلے اس اہم فریضہ کے ضائع ہوجانے پر افسوس کرتا ہوا نظر آتاہے ۔امام شرف الدین النووی رحمة اللہ علیہ اور امام ابو حامد الغزالی رحمة اللہ علیہ جیسے عالی مقام لوگ فرما رہے ہیں کہ امن بالمعروف اور نہی عن المنکر دین کا اہم ترین رکن ہے ۔
تمام انبیاء علیہم السلام اسی لئے مبعوث ہوئے ۔اگر اس کی بساط لپیٹ دی گئی تو نبوت کا کام معطل ہو کر رہ جائے گا،دیانت داری اور امانتداری مضمحل ہو جائے گی ۔گمراہی کا دور دورہ ہو گا،جہالت عام ہو جائے گی ۔دنگا فساد اور خونریزی ڈیرے جمالے گی شہروں کے شہر اجڑ جائیں گے ۔اور بندگان خدا ہلاکت کی کھائیوں میں گر جائیں گے ۔اور آخر میں فرماتے ہیں کہ افسوس کہ جس کا ہمیں خوف تھا،وہ واقع ہو چکا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرات!آئیے آج کی حدیث پاک کی روشنی میں اپنی زندگی کا نقشہ بدلیں معروف کو پھیلائیں اور منکر سے اپنے آپ کو ،اہل وعیال کو اور دوست احباب کو دور رکھیں۔
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ

Browse More Islamic Articles In Urdu