Open Menu

Ashra Muharram Al-Haram Main Shadi Ka Kya Hukum Hai - Article No. 2421

Ashra Muharram Al-Haram  Main Shadi Ka Kya Hukum Hai

عشرہ محرم الحرام میں‌ شادی کا کیا حکم ہے؟ - تحریر نمبر 2421

حالات و واقعات اور سماجی و معاشرتی عوامل بھی کچھ تقریبات میں مانع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری مشرقی ثقافت میں عزیز و اقارب اور ہمسائیوں وغیرہ کی غمی و خوشی میں شمولیت کو سماجی قدر سمجھا جاتا ہے۔

جمعرات 27 ستمبر 2018

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

شریعتِ اسلامی میں عشرہ محرم الحرام سمیت سال کے کسی بھی دن شادی کرنے کی ممانعت نہیں ہے، مگر بسا اوقات حالات و واقعات اور سماجی و معاشرتی عوامل بھی کچھ تقریبات میں مانع ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہماری مشرقی ثقافت میں عزیز و اقارب اور ہمسائیوں وغیرہ کی غمی و خوشی میں شمولیت کو سماجی قدر سمجھا جاتا ہے۔

اگر محلے میں کسی ہمسائے کے ہاں یا دوسرے شہر میں موجود کسی عزیز کے ہاں کوئی المناک حادثہ پیش آ جائے تو ہم اپنے گھر میں ہونے والی خوشی کی تقریب منسوخ کر دیتے ہیں یا نہایت سادگی کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں اپنے گھر کے اندر خوشی منانے سے ہمیں شریعت نے روکا ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ ہمسائے یا عزیز کو قلبی تعلق کے اظہار اور اس کے غم میں شامل ہونے کے لیے کیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

اگر کسی سماجی بندھن کی بنیاد پر ہمسائے یا عزیز کے ایامِ غم میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں تو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے، سیدہ خاتونِ جنت علیہا السلام کے لختِ جگر اور حیدرِ کرار علیہ السلام کے جگرگوشہ سید الشہداء امام الشہداء امام حسین علیہ السلام اور آپ کے خانوادے کی دردناک شہادت کے ایام میں خوشیوں اور شادیانوں کا اہتمام کیونکر کیا جاسکتا ہے؟

امام حسین علیہ السلام اور آپ کے رفقاء کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔

اسلام کا دامن شہادت کے پھولوں سے لبریز ہے مگر کلمہ گو مسلمانوں کے ہاتھوں جس ظالمانہ انداز میں گلشنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھول مَسلے گئے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ اس قدر دردناک شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس کے وقوع پذیر ہونے کی خبر دی بلکہ چشمانِ مقدس سے آنسو بہا کر غمِ حسین علیہ السلام میں رونا اپنی سنت بنا دیا۔
ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام کے چشمان مقدس سے آنسو رواں تھے تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج کیا بات ہے چشمان مقدس سے آنسو رواں ہیں؟ فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل خبر دے گیا ہے کہ:

ان امتک ستقتل هذا بأرض يقال لها کربلاء.

آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بیٹے حسین کو اس سر زمین پر قتل کر دے گی جس کو کربلا کہا جاتا ہے۔

(المعجم الکبير، 3: 109، ح : 2819)

61 ہجری کو یومِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام اپنے خاندان اور رفقاء کی قربانی دے چکے تو آقا علیہ السلام کی اضطراب کا کیا عالم تھا اس کا اندازہ حضرت سلمی رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے کیا جاسکتا ہے:

دخلت علی ام سلمة و هی تبکی فقلت : ما يبکيک؟ قالت : رايت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في المنام و علي رأسه ولحيته التراب فقلت : مالک يا رسول اﷲ قال : شهدت قتل الحسين انفا.

میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔

وہ رو رہی تھیں میں نے پوچھا ’’آپ کیوں رو رہی ہیں؟،، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہانے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرانور اور داڑھی مبارک پر گرد و غبار ہے۔ میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟ (یہ گرد وغبار کیسا ہے) آپ نے فرمایا ’’میں نے ابھی ابھی حسین رضی اللہ عنہ کو شہید ہوتے دیکھا ہے۔
،،

(سنن، ترمذي، ابواب المناقب)

امت کی اکثریت نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء کی شہادت کو ایک عظیم سانحہ کے طور پر دیکھا اور یوم عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام کو یوم الحزن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس لیے امتِ مسلمہ عشرہ محرم الحرام میں شادیوں یا خوشیوں کی دیگر تقریبات کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی مجبوری ہے تو سادگی کے ساتھ نکاح کرنے میں حرج نہیں۔

لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر خانوادہ رسالت کے شہدائے کی قربانیوں کا استہزاء کرنے کے لیے عشرہ محرم میں خوشیوں کی تقریبات کا انعقاد کرتا ہے تو اسے بروزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امت میں ایسا بدبخت گروہ بھی گزر چکا ہے جو معاذاللہ شہادتِ امامِ عالی مقام کی مناسبت سے عاشورہ کے روز باقاعدہ عید مناتا تھا۔
امام ابن کثیر اس بابت یوں رقمطراز ہیں:

’شام کے ناصبین نے (سانحہ کربلا کے بعد) یوم عاشورہ کو اس اس طرح منانا شروع کیا کہ یہ لوگ یوم عاشورہ کو کھانے پکاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور قیمتی لباس پہنتے اور اس دن کو عید کے طور پر مناتے۔ اس میں وہ طرح طرح کے کھانے پکاتے اور خوشی و مسرت کا اظہار کرتے۔ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل کی تاویل یہ کی کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے نکلے تھے اور جس شخص کی بیعت پر لوگوں نے اتفاق کیا تھا، اسے معزول کرنے آئے تھے (معاذاللہ)۔

Browse More Islamic Articles In Urdu