Open Menu

Azmat Sahaba E Karam Razi Allah Tala Anhu - Article No. 3194

Azmat Sahaba E Karam Razi Allah Tala Anhu

عظمت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ - تحریر نمبر 3194

صحابہ صحابی کی جمع ہے جس کے معنی ساتھی کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔

جمعہ 12 جولائی 2019

پیر سید منور حسین شاہ جماعتی
صحابہ صحابی کی جمع ہے جس کے معنی ساتھی کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت کا شرف حاصل کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔پوری اُمت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ دُنیا کا بڑے سے بڑا ولی،قطب،ابدال،غوث بھی ایک ادنیٰ صحابی کے مقام ومرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔

صحابی رسول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو قربت کا جو شرف حاصل ہے اس کا مقابلہ کوئی اور مسلمان ہر گز نہیں کر سکتا۔حضرت مجددالف ثانی مکتوبات شریف میں فرماتے ہیں کہ صحبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت تمام دوسرے فضائل وکمالات سے بالاتر ہے ،اسی وجہ سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ جو بلاشبہ تابعین میں افضل ترین ہیں ،وہ بھی کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبہ ومقام کو نہیں پہنچ سکتے۔

(جاری ہے)

آپ مزید فرماتے ہیں کہ صحابہ کا ایمان،شرف صحبت ودیدار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،وحی ملائک اور معجزات خوارق کے مشاہدہ کی وجہ سے شہودی ہو چکا ہے ،بعد والوں نے جسے صرف سنا،اس کو صحابہ کرام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی عظمت وشان کو قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔
”توبہ کرنے والے ،عبادت کرنے والے ،حمد کرنے والے،دُنیا سے بے تعلق رہنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیکی کا حکم دینے والے،برائی سے لوگوں کو منع کرنے والے،حدوداللہ کی حفاظت کرنے والے اور مومنوں کو خوشخبری دیدو“۔(پ11،رکوع3)۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت مقدسہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی گیارہ عظمتوں کو بیان فرمانے کے بعد فرمایا کہ”اے محبوب،اپنے صحابہ کو جنت کی خوشخبری دیدو“۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن پر راضی ہونے اور اُن کے جنتی ہونے کا اعلان فرمایا۔قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ صحابہ رضی اللہ عنہ کی تعریف وتوصیف ،اُن کے ایمان اور اُن کے جنتی ہونے کی شہادت دیتی ہیں ۔ سورئہ توبہ میں ارشاد بانی ہے:”اور مہاجرین وانصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان قبول کرنے میں سبقت کی اور وہ جنہوں نے اخلاص کیساتھ مہاجرین اور انصار کا اتباع کیا،اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کیلئے ایسے باغ تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،یہ لوگ ان باغوں میں رہیں گے ہمیشہ ہمیشہ یہ بڑی کامیابی ہے“۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:”وہ تمام صحابہ کرام جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد خرچ اور جہاد کیا،ان تمام کیلئے جنت کی بشارت ہے“۔ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا”یقینا اللہ راضی ہو گیا مومنوں سے جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے“۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے مختلف مفسرین کرام نے نقل کیا ہے،آپ فرماتے ہیں کہ ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”ان لوگوں میں سے ایک بھی دوزخ میں نہیں جائے گا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے“۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یاد رکھنے کے قابل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،ان کو میرے بعد طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنانا،جس نے ان سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی جس نے ان کیساتھ دشمنی کی اس نے میرے ساتھ دشمنی کی ،جس نے ان کو تکلیف پہنچائی بیشک اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی،جس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی بیشک اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ اسے پکڑے“۔

امام مالک فرماتے ہیں جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے حسد کرتا ہے ،ان سے جلتا ہے اور ان کے متعلق بدگمانی کرتا ہے وہ کافروں میں شامل ہوجاتا ہے ،اس وجہ سے کوئی بھی مسلمان صحابہ کے متعلق بدگمانی کر سکتا ہے نہ ہی انہیں طعن وتشنیع کا نشانہ بنا سکتا ہے کیونکہ غلامی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی سدا بہار دولت ہے جس میں کبھی خزاں نہیں آتی اور جنہیں یہ نصیب ہو جاتی ہے انہیں دُنیا کا جاہ وجلال تو درکنار،دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوجانے کے بعد نہ تو انہیں دوزخ کا ڈر ہے اور نہ ہی وہ جنت کے طلبگار رہتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سارے نبیوں اور رسولوں سے افضل واعلیٰ ہے اور جن کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی وہ بھی پچھلی تمام اُمتوں سے اعلیٰ ہیں اس لئے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:”تم بہترین اُمت ہو سب اُمتوں سے جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں“۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سابقہ تمام اُمتوں سے افضل ہو گئی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والا ہر اُمتی صاحب عظمت ہے۔

قربان جائیں ان مقدس صحابہ پر جنہوں نے کلمہ بھی پڑھا اور کلمے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا۔صحابہ کی عظمت کا کیا کہنا کہ اللہ نے اپنے محبوب کے ان جانثاروں اور وفاداروں کو تمغہ رضا عطا فرما کر قرآن میں اعلان فرمادیا”اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے“۔رب کائنات نے ان پر راضی ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں دُنیا وآخرت میں انعام واکرام سے بھی نوازا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :”اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور جن لوگوں نے جگہ دی اورمددکی وہی لوگ سچے مومن ہیں ،ان کیلئے بخشش اور عزت کی روزی ہے“۔اس آیت مقدسہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ جو ایمان لائے اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا اور خوشنودی کی خاطر ہجرت کی ،اپنا وطن اور گھر بار چھوڑا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور وہ لوگ جنہوں نے محض اللہ تعالیٰ کیلئے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور خوش آمدیدکہا اور ان کی ہر طرح سے مدد کی،ہر مہاجرو انصار دونوں کے ہر طرح کے مومن کامل ہونے کی خوشخبری اللہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمائی ہے اور انہیں بخشش ومغفرت اور پاکیزہ روزی کا مژدہ سنا دیا گیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی عظمت وشان کوقرآن کریم میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔
اللہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا پیار ہے ،اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں قریش کے بعض سرداروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان فقیروں کو اپنے پاس سے اُٹھا دیجئے تاکہ دولت مند سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ سکیں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ خیال گزرا کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر کیلئے علیحدہ کردینے میں کیا ہرج ہے،وہ تو پکے مسلمان ہیں اس وجہ سے مصلحت پر نظر کرکے وہ رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لینگے تو اس پر فوراً اللہ کی طرف سے وحی اُتری:”آپ رو کے رکھیں اپنے آپ کو ان کیساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح وشام اور طالب ہیں اپنے رب کے“۔
(سورئہ کہف28)
حضرت مجددالف ثانی فرماتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی تعظیم وتو قیر کا منکر ہے ،اس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان نہیں لہٰذا صحابہ کرام کے بارے میں لب کشائی کرنے سے پہلے ہرمسلمان کو ہزار بار سوچنا چاہئے کیونکہ صحابہ کرام وحی رسالت اور دین نبوی کے براہ راست گواہ ہیں جیسا کہ قرآن کریم کو موجودہ شکل میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جمع فرمایا ،تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی وجہ سے تزکیہ کے اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے تھے۔
انہوں نے اپنے آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اپنا تن ،من ،دھن ،اپنا گھر بار غرضیکہ سب کچھ قربان کردیا۔ان کی زندگا نی کا بس یہی حاصل تھا جس کی ترجمانی کسی شاعر نے یوں کی ہے:
نکل جائے دَم تیرے قدموں کے نیچے
یہی دل کی حسرت اور یہی آرزو ہے

Browse More Islamic Articles In Urdu