Open Menu

Bait Nabawi - Article No. 3369

Bait Nabawi

بیعت نبوی - تحریر نمبر 3369

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی نماز کے قائم کرنے پر، زکوٰة کے ادا کرنے پر اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر۔

جمعہ 10 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی نماز کے قائم کرنے پر، زکوٰة کے ادا کرنے پر اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر۔( رواہ البخاری)
سامعین محترم! صحابی رسول حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
بیعت کا لفظ ”بیع“سے لیا گیا ہے جس کے معنی خرید وفروخت کے ہوتے ہیں ۔شریعت کی اصطلاح میں”بیعت“اُس معاہدہ کو کہتے ہیں جو کسی دینی رہنما کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر دینی تعلیمات اور اسلامی احکام پر استقامت اور ثابت قدمی کے لئے کیا جاتاہے ۔عہد رسالت میں اس طرح کی بیعت ہوتی رہی ہے ۔

(جاری ہے)

کبھی جہاد کے موقع پر ،کبھی لوگوں کے اسلام قبول کرتے وقت اور کبھی محض تجدید عہد کے لئے ۔

قرآن حکیم میں اس بیعت کا بطور خاص تذکرہ ملتاہے جو صحابہ کرام نے صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک پر ایک درخت کے نیچے کی تھی ۔ارشاد گرامی ہے:اللہ تعالیٰ ان ایمان والوں سے راضی ہوا جنہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی۔
یہ اپنی نوعیت کی اہم ترین بیعت تھی جسے اللہ رب العزت نے خود اپنے ہاتھ پر بیعت قرار دیا۔
یہی وجہ ہے اس بیعت میں شریک تمام صحابہ کرام کا درجہ بہت بلند ہے ۔قرآن حکیم کی سورة الممتحنہ میں خواتین سے بھی بیعت لینے کا ذکر موجود ہے مگر احادیث میں یہ تصریح موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں نہیں لیتے تھے بلکہ یہ بیعت پس پردہ ہوتی تھی ۔رہی یہ بات کی بیعت میں کس کس بات کو شامل کیا جائے ؟تو اس کا تعین بذریعہ وحی بھی ہوا جیسا کہ خواتین کی بیعت میں اُن تمام امور کی تصریح موجود ہے ۔
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی صوابدید پر بھی چھوڑ دیا گیا کہ جن امور پر آپ چاہیں ،بیعت لے لیں ۔آج کے زیر مطالعہ قول صحابی میں صرف تین چیزوں کا ذکر ہے جن کی تفصیل ابھی آپ کے سامنے آئے گی ۔مگر کتب حدیث میں ایسی روایات ملتی ہیں جن میں کچھ اور امور کا اضافہ بھی شامل ہے ۔چنانچہ صحیح مسلم ،سنن ابو داؤد اور سنن نسائی میں شرک سے برأت ،صرف ایک اللہ کی عبادت ،نماز پنجگانہ کی اقامت اور سمع وطاعت یعنی بات سنو گے اور مانو گے کے الفاظ بھی ملتے ہیں ۔
آج بھی اسی سے مشابہ بیعت کا اسلامی سوسائٹی میں وجود ملتاہے ۔تزکیہ نفس اور طہارت قلب کے متخصص علماء اور صلحاء اس کا اہتمام کرتے ہیں مگر صرف استحباب کی حد تک ۔وہ بھی اس بیعت کو فرض یا واجب قرار نہیں دیتے ۔تاہم اس کا ثبوت قرآن وحدیث سے ہی لیتے ہیں اور اس کے فوائد بھی بتلاتے ہیں۔
سامعین باتمکین! حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان کہ میں نے نماز کی اقامت ،زکوٰة کی ادائیگی اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ۔
معلوم ہوتاہے کہ یہ بیعت تبر کا تھی یا انفرادی تھی ۔نیز اس لئے بھی بیعت تبرک تھی کہ یہ تینوں امور اہم ہونے کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان کی زندگی کا نصب العین ہے اور ہونا چاہئے ۔اقامت صلوٰة اِیتاء زکوٰة اور خیر خواہی صرف حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے نہیں بلکہ امت کے ہر فرد کے لئے ہے ۔تاہم بیعت کی وجہ سے ان معاملات کو مزید توجہ اور شوق سے ادا کرنے کا جذبہ ضرور پیدا ہو جاتاہے۔
اور اسی نکتہ کو یہاں بیان کرنا مقصود ہے۔
پہلی بات نماز کی پابندی اور اس کی اقامت کی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نماز دین کا اہم ستون ہے اگر نماز قائم ہے تو سمجھئے کہ دین قائم ہے۔ اگر یہ قائم نہیں اور اس میں خلل واقع ہو گیا ہے تو دین کی عمارت میں دراڑ پڑ گئی ہے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کو دین میں وہی حیثیت دی ہے جو انسانی جسم میں سرکو ہے ۔
سرموجود ہے اور جسم کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو زندگی ہے ۔خدا نخواستہ سرکٹ کر الگ ہو گیا ہے تو زندگی کی کوئی رمق باتی نہیں ۔نماز با جماعت سے بغیر عذر سستی کرنے والوں کے گھروں کو رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آگ لگانے کی وعید سنائی ہے ۔روز حشر بھی جس چیز کے متعلق سب سے پہلے پوچھ گچھ ہو گی ،وہ نماز ہی ہے ۔دین کے سارے احکام زمین پر فرض ہوئے مگر نماز بڑے اہتمام کے ساتھ سفر معراج کے موقع پر آسمانوں پر فرض ہوئی ۔
یہی اہم ترین عبادت ہے جو روز مرہ بنیادوں پر ادا کرتی ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں ہے ۔جب تک مسلمان ہوش وحواس میں ہے ،نماز اس کے ذمہ ہے ۔البتہ اس کی ادائیگی کا انداز بدل سکتاہے ۔اپنی حیات اقدس کے بالکل آخری ایام میں رسول دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت علالت اور نقاہت کے باوجود دو صحابہ کے کندھوں کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لائے اور نماز ادا فرمائی ۔
پھر امت کو جو آخری وصیت فرمائی اس میں بھی اقامت صلوٰة کو مقدم رکھا۔ قرآن حکیم کی سینکڑوں آیات اس کی اقامت اور اس کے خشوع وخضوع پر نصوصِ ناطقہ ہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گورنروں کو جو خطوط ارسال فرمائے ،اُن میں اقامت صلوٰة کی ازحد تلقین فرمائی اور فرمایا جو شخص نماز کو ضائع کر سکتاہے ،وہ اسلام کے دیگر احکام کو ضائع کرنے میں زیادہ جری ہو گا۔
وقت شہادت جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کی یاد دہانی کرائی گئی تو فرمایا ۔بے شک جس کی زندگی میں نماز نہیں ،اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں ۔ان ارشادات کی موجودگی میں صحابی رسول کا اس کی اقامت پر بیعت کرنا یقینا سمجھ میں آتاہے ۔
دوسری چیز زکوٰة کی ادائیگی ہے ۔جس طرح نماز حقوق اللہ کا پہلا زینہ ہے ۔اسی طرح زکوٰة حقوق العباد کے سلسلہ کا پہلا مرحلہ ہے اور اسلامی حکومت کے معاشی استحکام کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن وحدیث میں دونوں کا ذکر پہلو بہ پہلو ملتاہے ۔قرآن حکیم میں سخت وعید اور قبیح انجام کی خبر ہے ان لوگوں کے لئے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ۔فرمایا گیا کہ اسی سونا چاندی کو جہنم کی آگ میں تپا کر ان کی پیشانیوں ،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ اور کہا جائے گا: یہی ہے وہ جسے تم پورے انہماک سے جمع کرتے رہے تھے ۔
اب چکھو اس کا مزہ جس کو تم اکٹھا کرتے رہے تھے ۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زکوٰة کو اسلام کی پل قرار دیا ہے ۔جب تک مسلم امت میں زکوٰة کا نظام قائم رہا، معاشی نا ہمواری کا دور دور تک نشان نہیں ملتا تھا۔ ایک وقت وہ بھی آیا کہ زکوٰة دینے والا زکوٰ ة کی رقم لئے لئے پھرتا تھا مگر زکوٰة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ جب سے اس کی ادائیگی کا احساس معدوم ہوا ہے ،معاشی افرا تفری نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں ۔
امیر ،امیر تر اور غریب ،غریب تر ہورہا ہے ۔غربت وافلاس کی لکیر نیچے جانے کی بجائے اوپر اٹھ رہی ہے ۔یہ بات بلکہ یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ زکوٰة کا مال روک کر کوئی امیر نہیں رہ سکتا اور زکوٰة دے کر کوئی غریب نہیں ہوتا۔ وقت کی اسلامی حکومت کی ذمہ داری جہاں اقامت صلوٰة ہے ،وہیں زکوٰة کی وصولی اور ادائیگی کا اہتمام بھی اس کے فرائض میں شامل ہے ۔
قرآن حکیم میں زکوٰة کے مصارف کا واضح تذکرہ ملتاہے ۔اس لئے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ادائیگی پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی۔
محترم سامعین! تیسری اور آخری بات جس پر حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت کی وہ ہر مسلمان کے لئے جذبہ خیر سگالی رکھنے کی ہے ۔ہر مسلمان نہایت قابل احترام ہے اور اسلامی معاشرہ کا اہم ترین ممبر ہے ۔
اپنے افراد معا شرہ میں دین اسلام کسی اونچ نیچ کار وادار نہیں ۔وہ بتاتا ہے کہ سارے انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں ۔یہ طبقاتی کشمکش انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے ۔آسمانی نظام اس کا قطعاً حامی نہیں ۔اپنے آخری حج کے موقع پر رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان معاشرے سے اس کی بیخ وبن اکھاڑ کر رکھ دی۔ معیار فضیلت صرف تقویٰ ہے اور بس۔
اس لئے ہر مسلمان کا حق ہے کہ اُس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ۔کسی بھی شکل میں اسے تنہا نہ چھوڑا جائے ۔اسے دشمنوں کے رحم وکرم پر نہ چھوڑا جائے ۔اسے جسمانی اور ذہنی ایذاء سے بچایا جائے ۔اس کی خوشی کو اپنی خوشی اور اس کے غم کو اپنا غم سمجھا جائے ۔اُسے مذاق اور تمسخر کا نشانہ نہ بنایا جائے ۔حتیٰ کہ اس کے نام تک کو نہ بگاڑا جائے ۔
قرآن وحدیث کے صفحات کے صفحات ہمیں یہ درس دیتے دکھائی دیتے ہیں ۔تبھی تو اس جلیل القدر صحابی نے اسے بھی اپنی بیعت کا عنوان بنایا اور بین السطور ہم سب کو رہتی دنیا تک سبق دے گئے کہ یہ تینوں امور دین اسلام کے اہم ترین احکام ہیں جو بھر پور توجہ کا تقاضا کرتے ہیں ۔واقعی کتنا بڑا سبق ہے جو وہ ہمیں پڑھا گئے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سبق کے سب مندر جات کو یاد رکھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu