Open Menu

Bhalai Or Naiki Main Sabqaat - Article No. 3373

Bhalai Or Naiki Main Sabqaat

بھلائی اور نیکی میں سبقت - تحریر نمبر 3373

اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن تمام چیزوں میں آزمائے جو اُس نے تمہیں دے رکھی ہیں۔

بدھ 15 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک ہی اُمت بنا دیتا۔ لیکن وہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں اُن تمام چیزوں میں آزمائے جو اُس نے تمہیں دے رکھی ہیں۔ اس لئے تم نیکی کے کام کرنے میں جلدی کرو۔ اللہ ہی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں ان تمام باتوں کے متعلق آگاہ کرے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے تھے۔

محترم سامعین !تلاوت کردہ آیت سورة المائدہ کی آیت نمبر 48ہے جس میں اہم ترین پانچ حقیقتوں کو واضح کیا گیا ہے ۔ایک یہ کہ اگر اللہ کی منشا اور مرضی ہوتی تو وہ سب لوگوں کو ایک ہی راستہ پر اکٹھا کر دیتا اور وہ سب نیکی کے راستے پر ہوتے ،لیکن ایسی صورت میں انسانی ارادے اور اختیار نام کی کوئی چیز نہ ہوتی ۔اس لئے دوسری حقیقت یہ بیان فرمائی کہ اللہ کو منظور یہ ہے کہ وہ انسان کو ودیعت کی گئی تمام صلاحیتوں کا امتحان لے ۔

(جاری ہے)

تیسری یہ کہ نیکی اور بھلائی جب میسر آئے، اُسے فی الفور کر لیا جائے ۔چوتھی حقیقت یہ ہے کہ تمام لوگوں کو بالآخر اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ دنیا میں اس کا قیام محض(Transit Period) کی حیثیت رکھتاہے۔ پانچویں اور آخری بات یہ کہ اللہ جو سب کا خالق اور اُن کے اعمال سے خوب واقف ہے ،روز قیامت اُن کی پوری کارکردگی سے انہیں آگاہ کرے گا اور اس طرح اُن کے باہمی اختلافی تصورات کا دو ٹوک فیصلہ ہو جائے گا ۔
ان حقائق کی موجودگی میں انسان کی سعادت اور خوش بختی یہ ہے کہ وہ دستیاب محدود زندگی کو گڑے پتھر کی طرح نہ گزارے اور نہ ہی اُس میں اپنے لئے کانٹوں کی فصل بوئے بلکہ حیات مستعار اور اُس میں عطا کردہ صحت وعافیت کو غنیمت سمجھتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے کاموں کے لئے وقف کردے۔
یہاں یہ جاننا بھی ازحد ضروری ہے کہ خیر یا بھلائی ایک سلیم الفطرت انسان کے ہاں جانی پہچانی چیز ہے، غیر مانوس نہیں ۔
اس لئے اسے” معروف“ کا نام بھی دیا جاتاہے جبکہ ”منکر“ برائی کو کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اوپری اور انجانی چیز۔ معروف اور منکر کی جانچ اور پرکھ کے لئے حق تعالیٰ جل شانہ‘ نے انسان کے قلب وذہن میں ایک کسوٹی رکھ دی ہے جو اُسے بالکل صحیح معلومات فراہم کرتی ہے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کسک اور کھٹک پیدا کرے اور تمہیں ناگوار گزرے کہ لوگوں کو اس کے متعلق اطلاع ہو۔
اس کے بالمقابل نیکی وہ ہے کہ جس سے تمہارے دل میں اطمینان کی کیفیت محسوس ہو۔ معلوم ہوا کہ اگر انسان اپنے اعمال کو اپنے ضمیر کے کو رٹ میں پیش کرتا رہے تو وہاں سے جوفتویٰ بھی اُسے ملے گا، وہ بالکل درست ہو گا۔
حضرات گرامی! نیکی میں سبقت کرنا دراصل انبیاء اور صُلحاء کا وطیرہ ہے ۔سورة الانبیاء کی آیت نمبر 90میں چند انبیاء علیہم السلام کے تذکرے اور اُن کی دعاؤں کے بعد اُن کی تعریف اور توصیف میں فرمایا گیا ہے کہ ”وہ نیکی کے کاموں میں سبقت کرتے تھے، محبت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے ہمیں پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجز بن کر رہتے تھے ۔
“اسی طرح سورة الموٴمنون کی آیات 57سے61تک میں نیک لوگوں کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:” یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ جو اپنے رب کی آیات پر پورا یقین رکھتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ بھلائی کے کام کرتے ہوئے بھی ان کے دل اس تصور ہی سے کانپ اُٹھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔
“اور آخر میں فرمایا گیا:یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں دوڑ لگاتے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں کوشاں رہتے ہیں۔
اب ہم سورة المطففین کی آیات22تا26کی روشنی میں قرآن حکیم کی اہل جنت کی لازوال نعمتوں کی منظر کشی سے اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں ۔ارشاد گرامی ہے:”نیکو کار لازوال نعمتوں میں ہوں گے۔ تختوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے۔
نعمتوں کی تروتازگی اُن کے چہروں میں تمہیں جھلکتی ہوئی محسوس ہوگی۔ اور آخر میں نہایت ہی دلکش انداز میں فرمایا:یعنی اگر کسی کو جان مارنا ہوتو ایسے ہی کاموں کے لئے جان مارے ۔یعنی ایسے ہی قابل رشک کاموں کے لئے مسابقت (Competition) ہونا چاہیے۔ ایسے ہی لوگ مقربین بارگاہ الٰہی ہوتے ہیں ۔
اخوة الاسلام! آپ سب جانتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے آغاز سے فتح مکہ تک کا زمانہ اہل ایمان کی آزمائش اور اُن کی صلاحیتوں کے امتحان کا زمانہ ہے۔
جبکہ مکہ مکرمہ کے اسلام کے زیر نگیں آنے کے بعد کافی حد تک مشکلات ومصائب کا دور ختم ہو گیا تھا۔ ان دونوں ادوار میں جان ومال کی قربانی کی حیثیت یکساں نہیں ہے ۔قرآن حکیم نے ہر دونوں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ رکھی ہے فرمایا ہے۔جس نے فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور قتال کیا ،اور جس نے یہ دونوں کام فتح کے بعد کئے ،یہ دونوں گروہ برابر نہیں ہو سکتے۔
پہلے لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے بہت آگے نکل گئے ہیں۔
پھر یہ بھی دیکھئے کہ اس جذبہ مسابقت کو بر قرار رکھنے کے لئے باری تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم بھی دے رکھا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور خیرو برکت کے ان مواقع کو ضائع نہ کریں ۔گفتگو کے آغاز میں تلاوت کردہ آیت اور سورة البقرہ کی آیت 148میں فاستبقوا الخیرا ت کے زور دار الفاظ ہیں جو عربی گرائمر کے اعتبار سے امر یعنی(Imperative) ہے یعنی آگے بڑھو۔
اور تقریباً ایسے ہی الفاظ سورة الحدید کی آیت 21اور سورة آل عمران کی آیت 133میں موجود ہیں جو اس کی اہمیت کو دو چند کر دیتے ہیں۔ نماز پنجگانہ میں جو اہمیت نماز جمعہ کو حاصل ہے ،اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں ۔قرآن کریم میں الجمعة کے نام سے ایک مکمل سورت موجود ہے ۔اس میں حکم یہ ہے کہ یعنی جب جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے لئے(بذریعہ اذان) پکارا جائے تو تم سب اللہ کے ذکر کے لئے لپکو اور پوری مستعدی دکھاؤ اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔

علاوہ بریں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی نہایت ہی بلیغ اور موٴثر انداز میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے اپنی سنن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” سات قسم کے احوال سے پہلے نیکی کے کام کرلو۔( آخر تمہیں کا ہے کا انتظار ہے)1۔
کیا ایسے فقرو فاقہ کا جو تمہیں اپنے آپ سے بے خبر کردے۔ 2۔ کیا ایسی تونگری اور دولت مندی کا جو تمہیں سر کشی میں مبتلا کر دے ۔3۔ کیا ایسی بیماری کا جو سب کچھ بگاڑ کر رکھ دے۔ 4۔ کیا ایسے بڑھاپے کا جو تمہاری عقل کو ناکارہ کردے۔ 5۔ کیا ایسی موت کا جو اچانک سر پر پہنچ جائے۔6۔ کیا دجال کا ،تو یاد رکھو کہ یہ آنکھوں سے اوجھل رہنے والے کا شر ہے جس کا انتظار کیا جا رہا ہے ۔
ساتویں اور آخری یہ کہ کیا تمہیں قیامت کا انتظار ہے تو یاد رکھو کہ وہ بہت ہی ہولناک اور تلخ ہے ۔“ امام احمد رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے حوالے سے اس طرح نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:نیک اعمال کے کرنے میں جلدی کرو اس سے پہلے کہ ایسے فتنے سر اُٹھائیں جو (اپنی حشر سامانیوں میں)اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے(حالت یہ ہوگی کہ)آدمی صبح کو موٴمن ہو گا تو شام کو کافر ،شام کو موٴمن ہو گا تو صبح کا کافر اور وہ دنیا کے معمولی نفع کی خاطر اپنے دین کو بیج ڈالے گا۔
امام عبدالعظیم المنذری نے الترغیب والترہیب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو۔1۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔2۔صحت کو بیماری سے پہلے۔3۔ آسودگی کو فقروفاقہ سے پہلے۔4۔ فراغت کو مشغولیت سے پہلے پانچویں اور آخری یہ کہ زندگی کو موت سے پہلے۔

حضرات گرامی!قرآن وحدیث کی روشنی میں مسلمان کے لئے ضروری ہے ،کہ وہ ہر نیکی کے لئے لپکے خواہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی معمولی ہو اور ہر گناہ سے اپنے دامن کو آلودہ ہونے سے بچائے خواہ وہ شکل وصورت سے چھوٹا ہی دکھائی دے کیونکہ گناہ کو چھوڑ دینا بھی نیکی کرنے کے زمرے میں آتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی اور برائی میں تمیز کرنے اور نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے کے جذبے سے سرشار فرمائے۔آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu