Open Menu

Chotoon Se Shafqat Baroon Ka Ehteram - Article No. 3352

Chotoon Se Shafqat Baroon Ka Ehteram

چھوٹوں سے شفقت بڑوں کا احترام - تحریر نمبر 3352

اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے ،ہمارے بڑے کی تو قیر اور عزت نہ کرے

پیر 30 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے ،ہمارے بڑے کی تو قیر اور عزت نہ کرے ،بھلائی اور نیکی کا حکم نہ کرے اور برائی سے منع نہ کرے ۔
سامعین ذی قدر!معاشرتی اور زندگی کو صحیح نہج پر چلانے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ ہر فرد معاشرہ کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،اُس کا متعین حق ملے اور جو فرائض اس کے ذمے بنتے ہیں ،وہ انہیں ادا کرنے میں تامل اور پس وپیش سے کام نہ لے ۔
کوئی فرد ایسا نہیں جس کے حقوق ہی حقوق ہوں،فرض کوئی نہ ہو۔ اور ایسا بھی کوئی نہیں جس کے ذمے صرف فرائض ہی فرائض ہوں اور اُس کا حق کوئی نہ ہو۔

(جاری ہے)

کچھ حقوق ہوتے ہیں تو فرائض بھی ضرور ہوتے ہیں۔ دین اسلام کا ایک خاص مزاج اور نقطہ نگاہ ہے جو عین فطرت سے ہم آہنگ ہے ۔اور اُس کا تقاضا ہے کہ اُس کے ماننے والے اس کی پیروی کریں ۔اس سے اُنہیں سکون،اطمینان، آسودگی اور راحت میسر آئے گی ۔

جبکہ اس کی خلاف ورزی میں بے سکونی ،قلق ،اضطراب اور بے چینی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔حقوق وفرائض کے سلسلہ میں اس کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے ہر فرد کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا چاہئے کیونکہ ایک فرد کا فرض دوسرے کا حق ہوتاہے ۔فرض ادا کر دیا جائے تو دوسرے کا حق خود بخود اس کے پاس پہنچ جائے گا۔معاشرتی زندگی میں کھچاؤ اس وقت پیدا ہوتاہے جب کوئی انسان اپنے حق کی وصولی کے لئے آستین کسنا شروع کرتاہے ۔
یہ نوبت آتی اس وقت ہے جب دوسرا آدمی اپنے فریضہ کی ادائیگی سے غفلت یا سستی کا شکار ہوتاہے ۔قرض دار اگر وقت پر اپنا قرض ادا کرنے کی فکر کرے تو قرض خواہ کو طلب کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور معاملہ تُو تُو میں میں تک نہیں پہنچے گا۔ بعض اوقات بہت معمولی باتیں بہت بڑے جھگڑے اور فساد کا شاخسانہ بن جاتی ہیں ۔پھر انہیں سلجھاتے سلجھاتے عمریں بیت جاتی ہیں ۔

آج کی زیر مطالعہ حدیث پاک میں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو مجسم خلق حسن تھے ،ایسی ہی الجھنوں کو فرائض کی ادائیگی سے جوڑ کر ،حل کرنے اور سلجھانے کی تلقین فرما رہے ہیں ۔اور ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرمارہے ہیں کہ اگر کسی نے کسی اور طریقہ سے انہیں سلجھانے کی کوشش کی تو نہ صرف یہ کہ وہ کامیاب نہ ہو گابلکہ میرے طریقہ کار کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو مجھ سے دور کرلے گا،پھر میرا اُس کے ساتھ اور اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
یعنی اُس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کا یہ جملہ اگر چہ بہت سخت ہے مگر اُس میں وہی سختی ہے جو ایک بہت بڑے خیرخواہ کو کسی سے ہو سکتی ہے ۔یوں سمجھئے کہ اس جملہ میں محبت اور اپنائیت کا پہلو بھی موجود ہے کہ دیکھو ایسی نوبت نہ آنے دو کہ معاملہ یہاں تک پہنچے ۔تم بھلا کیسے برداشت کر سکتے ہو کہ مجھ سے قطع تعلق کر لو جبکہ تمہاری دنیاوی اور آخروی فلاح صرف اس میں ہے کہ تم مجھ ہی سے وابستہ رہو۔

سامعین محترم!پہلا شخص جس کو آپ نے تنبیہ فرمائی ہے ،وہ ہے۔یعنی جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے ۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ بڑے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہیں ،ہمارا حق فائق ہے ۔نہیں، اصل یہ ہے کہ معاشرہ میں موجود ہر طرح کے چھوٹوں کا حق فائق ہے ،اُس کو پہلے ادا کیا جائے گا۔عمر میں چھوٹا،مرتبے میں چھوٹا،معاشی اعتبار سے چھوٹا،منصب اور عہدے کے اعتبار سے چھوٹا،غرضیکہ ہر طرح کا ”صغیر“اس کے ذیل میں آتاہے اور وہ بڑوں کی شفقت کا حقدار ہے ۔
یہ چھوٹے صرف ڈانٹ ڈپٹ کے لئے نہیں بلکہ شفقت، محبت، پیار اور رہنمائی کے مستحق ہیں اگر بڑوں کی طرف سے یہ سب کچھ ان کے مطالبے کے بغیر انہیں ملتارہے تو وہ پُر سکون رہیں گے اور انہیں بھی احساس ہو گاکہ بڑوں کا ادب کیا جائے ۔
یہاں ہم رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرة طیبہ سے صرف دو مثالیں پیش کریں گے ۔جن سے ہم جان سکیں گے کہ چھوٹوں سے شفقت کیا ہوتی ہے ۔

امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے ۔یاد رہے کہ یہ اُس وقت کی بات بتا رہی ہیں جب چھوٹی عمر کی تھیں ،بچی تھیں۔کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آئی اور میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی ۔(مجھے دیکھ کر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سنہ سنہ۔
حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ حبشی زبان میں اس لفظ کے معنی ہیں ۔خوبصورت ۔یعنی آپ نے میری قمیض کی تعریف فرمائی ۔آگے سنیئے:کہتی ہیں کہ میں چونکہ چھوٹی بچی تھی ،اپنی جگہ سے اٹھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک کے پیچھے جا کھڑی ہوئی اور مہر نبوت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان تھی ،اُس سے کھیلنے لگی ۔میرے والد نے دیکھا تو مجھے ڈانٹا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے والد سے فرمایا ۔اسے کھیل لینے دو۔پھر مجھے دعائیں دیتے ہوئے فرمایا۔یہ کپڑے جو تم نے پہن رکھے ہیں ،انہیں لمبا عرصہ پہنتی رہو اور ان کو بوسیدہ کرو،پھر پہنو اور بوسیدہ کرو اور پھر پہنو اور بوسیدہ کرو۔میں ادب سے گزارش کروں گا کہ جو لوگ اپنی مجلس میں بچوں کو دیکھ کر تلملا اٹھتے ہیں ،امید ہے وہ اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں گے ۔
دوسری مثال ہم امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور امام مسلم رحمة اللہ علیہ کی صحیحین سے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں جو اُن کے صاحبزادے نے اُن سے سن کر بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عام دستور تھا کہ جب بھی آپ کے پاس کوئی سائل آتا یا آپ کے سامنے کسی کی ضرورت پیش کی جاتی ،تو آپ فرماتے ۔
یعنی تم لوگ شفارش کر دیا کرو اس پر تمہیں اجر ملے گا ۔پھر اللہ کی مرضی ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے جو بھی فیصلہ صادر کرادے ۔سو ایسی سفارش بھی اپنے اندر شفقت اور رحمت کا ایک پہلو رکھتی ہے ۔
زیر مطالعہ حدیث میں دوسرا آدمی ہے یعنی جو ہمارے بڑوں کی تو قیر اور احترام نہیں کرتا۔عمر میں بڑے ،مقام ومرتبہ میں بڑے ،علم وعمل میں بڑے ،منصب اور عہدے میں بڑے سب اس میں شامل ہیں ۔
ماں باپ ،اساتذہ ،علماء ، صلحاء اور معمر اشخاص سبھی تو قیر اور احترام کے مستحق ہیں ۔چھوٹوں کے ذمے ہے اور ان کافریضہ ہے کہ وہ ان کے مطالبے کے بغیر ادا کریں اور بڑوں کا حق ہے کہ انہیں ملے۔
امام شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تصنیف عوارف المعارف میں حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آگے آگے چلا جا رہا تھا رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا ۔
تم اس شخص کے آگے چل رہے ہو جو دنیا اور آخرت دونوں میں تم سے بہتر ہے ۔امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ کو عظمت وبزرگی والا ماننے کا یہ تقاضا ہے کہ سفید بالوں والے مسلمان کا احترام کیا جائے ۔قرآن پاک کے عالم اور حافظ کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے بشر طیکہ وہ اس کی تعلیمات میں غلونہ کرتا ہو اور اُس سے کنارہ کش نہ رہتا ہو ۔
اور اسی طرح اُس کا حاکم کا بھی احترام کرنا جو انصاف کے سب تقاضوں کو پورا کرتاہے ،ضروری ہے ۔یہاں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ صرف دل میں احترام کا ہونا کافی نہیں بلکہ روز مرہ زندگی میں نظر بھی آنا چاہئے۔ اور یہ کہ احترام وشفقت کا یہ حکم دو طرفہ ہے ،یک طرفہ نہیں ہے ۔
اور حضرات!حدیث زیر مطالعہ میں تیسرے اس شخص کو متنبہ کیا گیا ہے جو بھلائی کا حکم نہ کرتا ہو اور بُرائی کا سدباب نہ کرتا ہو ۔
یہ افراد معاشرہ کی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داری ہے ۔اس سے ہی عمدہ اقدار اور اچھے اخلاق پر وان چڑھتے ہیں ۔بُری باتوں اور مناسب عادتوں سے معاشرہ پاک ہوتاہے ۔پاکیزہ ماحول ہی پاکیزگی کو جنم دیتاہے ۔منکرات پھیل جائیں تو انسان کی زبان ،آنکھ ،کان، ہاتھ اور پاؤں بُرائی کے خوگر ہو جاتے ہیں ۔اس لئے چھوٹی سے چھوٹی معروف کو جہاں تک ممکن ہو آگے پہنچایا جائے اور بُرائی خواہ کتنی ہی چھوٹی ہو ،اُس کے آغاز ہی میں اس کا خاتمہ کیا جانا ضروری ہے۔

ان سب کاموں کو سر انجام دینے کے لئے حدیث مبارک کا پہلا جملہ ۔یعنی اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ،مہمیز کا کام دے گا۔ذی شعور اور ذمہ دار آدمی کو ہوشیار اور چوکنا رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ دے اور سیدھی راہ پر گامزن رکھے ۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu