Open Menu

Darakhat Or Pathar Bhi Sajda Karte Hain - Article No. 3184

Darakhat Or Pathar Bhi Sajda Karte Hain

درخت اور پتھر بھی سجدہ کرتے ہیں - تحریر نمبر 3184

روایت میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب اپنے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہوئے جب مقام کعربہ میں پہنچے جو کہ بصریٰ اور اس کے درمیان دس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے

جمعرات 20 جون 2019

محمد الیاس عادل
روایت میں آتا ہے کہ جناب ابو طالب اپنے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر شام کے سفر پر روانہ ہوئے جب مقام کعربہ میں پہنچے جو کہ بصریٰ اور اس کے درمیان دس کلو میٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے وہاں بحیرانامی ایک راہب کلیسا میں رہتا تھا جو کہ نصرانیوں کا بہت بڑا عالم تھا اس نے جب سے رہبانیت اختیار کی اسی کلیسا میں اس نے اپنا قیام رکھا۔
اس کلیسامیں ایک کتاب تھی جس کا علم اس راہب کو تھا ۔بعض کا کہنا ہے کہ وہ کتاب اس کے اسلاف سے ورثے میں چلی آرہی تھی ۔
اس سال قافلہ بحیرا کے پاس اُتر احالانکہ بار ہااس سے قبل بھی اس کے پاس سے ان لوگوں کا گزر ہوتا تھا لیکن وہ ان سے کسی قسم کا سلوک نہ کرتا تھا اور نہ ہی کوئی بات کرتا تھا اب جب قافلے کے لوگوں نے یہاں پر پڑاؤ کیا تو بحیرا نے ان کے لیے بہت سا کھانا تیار کیا۔

(جاری ہے)

بعض کا کہنا ہے کہ جب بحیراکلیسا میں تھا اور قافلہ آرہا تھا تو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلے میں یوں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بادل کا ایک ٹکڑا سایہ فگن ہے ۔علاوہ ازیں تمام درخت اور تمام پتھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کررہے تھے چنانچہ اصل وجہ اس دعوت کی یہی بات تھی۔

جب قافلہ اس کلیسا کے نزدیک ہی ایک درخت کے سائے میں اُتر اتو بحیرانے اس وقت بھی دیکھا کہ بادل کا ٹکڑا درخت پر سایہ کیے ہوئے درخت کی شاخیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکی ہوئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نیچے سایہ میں تشریف فرما ہیں۔بحیرانے جب یہ ساری باتیں ملاحظہ کیں تو وہ کلیسا کی چھت سے اترا اور اس نے کھانے کی تیاری کا حکم دے دیا۔
جب کھانا تیار ہو گیا تو بحیرا راہب نے قافلہ والوں کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ سب کو بلا کر لائے۔
جب تمام لوگ آگئے تو اس نے کہا ،اے گروہ قریش!میں نے تمہارے لیے کھانا تیار کیا ہے میری خواہش ہے کہ تم سب کے سب آؤ خواہ تم میں کوئی چھوٹا ہو یا بڑا،غلام ہو یا آزاد۔قافلے میں سے ایک شخص نے اس سے کہا کہ آج تو تمہاری حالت ہی کچھ اور ہے ہم تو تمہارے پاس سے بار ہا گزرے ہیں تم ایسا سلوک ہمارے ساتھ تو نہیں کرتے تھے آج ایسی کون سی غیر معمولی بات ہو گئی؟بحیرا کہنے لگا تم نے بالکل سچ کہا ہے جو کچھ تم کہہ رہے ہو میری حالت ویسی ہی تھی لیکن تم لوگ مہمان ہو اور میری یہ خواہش ہے کہ تمہاری عزت کروں اور تمہارے لیے کھانا تیار کراؤں تاکہ تم سب کھاؤ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کم عمری کے باعث قافلے والوں کے گجاووں کے پاس اسی درخت کے نیچے تشریف فرمارہے ۔
جب بحیرانے ان لوگوں کو دیکھا اور وہ صفت جو اس کے علم میں تھی اور جسے وہ بخوبی جانتا تھا نہ دیکھی تو وہ پھر کلیسا کی چھت پر چڑھا اور اس بادل کوا سی طرح درخت کے اوپر سایہ فگن دیکھا تو چھت سے نیچے اُتر آیا اور کہنے لگا،اے گروہ قریش!میری درخواست یہ تھی کہ تمام لوگ دعوت میں تشریف لائیں میرا خیال ہے کہ بعض لوگ پیچھے رہ گئے ہیں ۔
انہوں نے جواب دیا،ا ے بزرگ!تیرے پاس آنے سے سوائے ایک لڑکے کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جسے تیرے پاس آناچاہیے تھا وہ لڑکا عمر میں سب سے چھوٹا ہے اس لیے وہ ہمارے گجاووں کے پاس رہ گیا ہے ۔
بحیرا نے کہا ،ایسا نہ کرو میری خواہش ہے کہ وہ بھی تشریف لائیں اور اس کھانے میں تمہارے ساتھ شریک ہوں ۔قریش کے ایک شخص نے جوان ہی کے ساتھ تھا ایک روایت میں ہے کہ وہ حارث بن عبدالمطلب تھے ،کہا ،لات وعزیٰ کی قسم! ہمارے لیے ذلت کا باعث ہے کہ ہم میں سے عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا کھانے سے رہ جائے ۔
پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور لے گیا۔بحیرا دیکھ رہا تھا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے سے باہر تشریف لائے تووہ سفید بادل بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی روانہ ہوا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف لائے تو بحیرا تعظیم کے لیے کھڑا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی عزت واحترام سے بٹھایا۔
ایک روایات میں آتا ہے کہ بحیرانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑا اور کہا ،یہ ہیں سارے جہانوں کے سردار ،یہ ہیں رب العالمین کے رسول ،ان کو اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر معبوث فرمائے گا۔
یہ سن کر قریش کے شیوخ نے پوچھا،اے بحیرا!تجھے کیسے معلوم ہو گیا ہے ۔اس نے کہا جب تم لوگ گھاٹی پر چڑھ رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ تمام درخت اور تمام پتھر ان کو سجدہ کررہے تھے اور یہ دونوں چیزیں صرف انبیاء کرام کوہی سجدہ کیا کرتی ہیں علاوہ ازیں میرے علم میں ایک اور نشانی بھی ہے وہ یہ کہ ان کی پشت مبارک پر مہر نبوت ہے ۔اس کے بعد بحیرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی غور سے دیکھنے لگا اور جسم اطہر کے اُن خاص حصوں کا معائنہ کرنے لگا جن کی صفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت میں اپنے پاس پاتا تھا ۔
بحیرا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ،اے لڑکے!میں تجھے لات وعزیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ جو کچھ میں تجھ سے پوچھوں مجھے ٹھیک ٹھیک جواب دینا۔
بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا اس لیے کہا تھا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کو ان دونوں بتوں کی قسمیں کھاتے ہوئے سنا تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،لات وعزیٰ کی قسم دے کر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھ۔
اللہ کی قسم!مجھے ان دونوں سے جتنا بغض ہے اور کسی چیز سے کبھی نہیں رہا۔بحیرا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ،اللہ کی قسم!آپ مجھے وہ بتائیے جو میں پوچھتا جاؤں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،جو تمہیں مناسب معلوم ہو وہ مجھ سے پوچھو۔
بحیرانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے متفرق سوالات کیے بعض نیند اور بیدار ہونے کے بارے میں اور بعض درست امور کے بارے میں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوالات کے جواب دیتے رہے اور خواب کے جواب میں ارشاد فرمایا ،میری آنکھ سوجاتی ہے لیکن میرادل بیدار رہتا ہے ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات بابر کات کی علامات وصفات بیان فرماتے جاتے تھے اور بحیراراہب ان صفات کو جو اس نے کتب سابقہ میں آخری نبی کی صفات کے ضمن میں پڑھ رکھی تھیں کے موافق پاتا تھا۔
اس کے بعد بحیرانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ اطہر کی طرف دیکھا اور جناب ابوطالب اور بعض دیگر لوگوں سے جو ساتھ بیٹھے ہوئے پوچھا کہ یہ سُرخی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے زائل ہوتی ہے یا نہیں ؟انہوں نے کہا ،ہم نے کبھی نہیں دیکھاکہ وہ زائل ہوئی ہو ۔
چنانچہ یہ نشانی بھی درست نکلی اسے مزید یقین ہو گیا مگر دل کی تسلی اور یقین کو تقویت پہنچانے کے لیے بحیرانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ دوش مبارک سے کپڑا ہٹائیں تاکہ وہ مہر نبوت کا مشاہدہ کرے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم شرم وحیا کی وجہ سے دکھانا نہ چاہتے تھے اس پر جناب ابوطالب نے کہا،اے میری دونوں آنکھوں کے نور !بحیرا کو مہر نبوت کے دیدار سے محروم نہ رکھو۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوش مبارک سے کپڑا ہٹایا۔بحیرا راہب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی اور اس پر بوسہ دیا فرط جذبات سے اس کی آنکھوں سے آنس نکل آئے۔بحیرا نے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جناب ابوطالب کے ساتھ رابطہ اور جناب ابوطالب کی نگہداشت کو ملاحظہ کیا تھا اس لیے وہ جناب ابوطالب کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے پوچھا ،اس کا آپ سے کیا رشتہ ہے ؟انہوں نے کہا ،میرابیٹا ہے ۔
بحیرا نے ان سے کہا ،یہ تمہارا بیٹا نہیں اس کے والدین زندہ لوگوں میں نہیں ہونے چاہئیں۔
جناب ابوطالب نے کہا ،میرے بھائی کا بیٹا ہے ۔بحیرانے ان سے کہا، پھر ان کا باپ کہا ہے۔انہوں نے جواب دیاکہ انتقال ہو گیا ہو اہے۔بحیرانے کہا ،تم نے سچ کہا ۔پھر اس نے جناب ابو طالب سے کہا،یہ لڑکا آخری نبی ہے اس کی شریعت دنیا میں پھیلے گی اس کا روشن دین تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کردے گا آپ اسے شام نہ لے جائیں کیونکہ یہودی ان کے دشمن ہیں اگر انہیں معلوم ہو گیا یہ آخری نبی ہیں تو خطرہ ہے کہ وہ کہیں ان کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں لہٰذا بہت جلد ان کو اپنے شہر میں پہنچادیں ۔
جناب ابوطاب نے یہ سناتو بہت فکر مند ہوئے ۔سامان تجارت کو بصرہ میں ہی فروخت کیا اور مکہ مکرمہ کو واپس تشریف لے گئے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی کے ساتھ اس مقام سے واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا گیا اور خود جناب ابوطالب تجارت کی تکمیل کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جناب ابوطالب جب شام کی تجارت سے فارغ ہو گئے تو وہاں سے جلد نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ چلے آئے ۔
ایک اور روایات میں آتا ہے کہ چند یہودی روم سے اسی جگہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے انہوں نے قدیمی کتب کے مطالعے سے یہ بات معلوم کی تھی کہ اس زمانہ میں نبی آخری الزمان اس درخت کے نیچے جو بحیرا کے کلیسا کے نزدیک ہے ٹھہریں گے چنانچہ وہ روم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل (نعوذ باللہ)کے ارادے سے آئے۔یہ تین کاہن تھے جن کے نام دریس،زریر اور تمام یاشمام تھے۔
جس روز قریش کا قافلہ آیا یہ بھی اسی روز بحیرا کے پاس پہنچے اور انہوں نے بحیرا سے کہا کہ آج کلیسا کے اس درخت کے نیچے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)قریش کے قافلہ کے ساتھ ٹھہریں گے ہم اس لیے آئے ہیں تاکہ ان کو قتل کردیں اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔
بحیرانے ان کا یہ ارادہ دیکھا تو ان کو اس کام سے منع کیا اور واضح دلائل کے ساتھ انہیں سمجھایا کہ اگر وہ آخری نبی ہیں جن کی تعریف وصفات تم نے آسمانی کتب میں پڑھی ہے تو وہ شخص جو تو ریت ،زبور اور انجیل پڑھتا ہے ان کو نبی ہونے کے اعتبار سے کیسے نہیں پہچانے گا اور ان کے قتل کا ارادہ کیسے کر سکتا ہے دوسری بات یہ ہے کہ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ جب اللہ کسی کام کو کرنا چاہے تو کیا کسی شخص میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس کو روک سکے؟انہوں نے کہا ،نہیں ۔
اس پر بحیرا نے کہا ،تم اس کام سے باز آجاؤ اور واپس لوٹ جاؤ چنانچہ وہ بحیرا کی بات کو سمجھ گئے اور اس کام کے کرنے سے منع ہو گئے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu