Open Menu

DUA K Adaab - Ehkamat - Sarait Or Fazilat - Article No. 3195

DUA K Adaab - Ehkamat - Sarait Or Fazilat

دعا کے آداب احکامات،شرائط اور فضیلت - تحریر نمبر 3195

دعا کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ثابت ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی ابن آدم کا شعار رہی ہے جب کہ ملائکہ بھی اللہ پاک سے دعا گورہتے ہیں

ہفتہ 13 جولائی 2019

امیر افضل اعوان
دعا کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ثابت ہے اور یہ ہمیشہ سے ہی ابن آدم کا شعار رہی ہے جب کہ ملائکہ بھی اللہ پاک سے دعا گورہتے ہیں اور دیگر مخلوقات بھی اللہ رب العزت کی ثناء بیان کرتی ہیں اظہار کا وہ موثروجامع طریقہ دعا ہے اظہار بندگی کیلئے اللہ پاک خود اپنے بندوں کو دعا مانگنے کا حکم دیتاہے۔

دعا کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے مشرکین نے بھی اپنی عبادات میں اس کو ایک لازمی جز بنایا،بعض مذاہب کی عبادت محض دعا تک ہی محدود ہے۔تخلیق آدم کے بعد سب سے پہلی عبادت جو حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کو سکھائی گئی وہ دعا ہی تھی اور اس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے”دونوں بول اٹھے کہ اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں،اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم نامراد لوگوں میں شامل ہو جائیں گے“سورہ الاعراف ،آیت23،دعا کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ثابت ہے۔

(جاری ہے)


قرآن پاک سے حضرت نوح علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت ایوب علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام،حضرت لوط علیہ السلام،حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت اسماعیل علیہ السلام ،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت موسیٰ علیہ السلام ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام ،حضرت طالوت علیہ السلام اور اصحاب کہف کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہ السلام کا دعا مانگنا قرآن پاک سے ثابت ہے اور سورة آل عمران میں حضرت عمران علیہ السلام کی ذوجہ اور حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ کی دعا بھی موجود ہے۔
اللہ پاک خود اپنے بندوں کو دعا مانگے کا حکم دیتا ہے ،اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ”کہہ دو کہ میرے پر وردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے ،اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا(قبلے کی طرف)رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اسی کو پکارو،اس نے جس طرح تم کو ابتداء میں پیدا کیا تھا اسی طرح تم پھر پیدا ہو گے“سورہ الاعراف ،آیت29، اس آیت مبارکہ میں دعا کے احکامات کے ساتھ ساتھ دعا کے آداب بھی بیان کر دےئے گئے۔

سورہ الموٴمن ،آیت65،اس آیت مبارکہ میں خالق کائنات کی اطاعت وتابعداری کے ساتھ اس کی کبریائی کا بھی واضح بیان موجود ہے،آداب دعا کے حوالہ سے قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے کہ”اللہ کسی بھی شخص پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے،اس کا پھل اسی کے لئے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال اسی پر ہے(ایمان والو تم یوں دعا کیا کرو)اے ہمارے رب!ہم سے بھول چوک میں جو قصورہوجائیں ان پر گرفت نہ کرنا،اے مالک!ہم پروہ بوجھ نہ ڈالنا جوتو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے،پر وردگار!جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے ،وہ ہم پر نہ رکھ ،ہمارے ساتھ نرمی کر،ہم سے درگزر فرما،ہم پر رحم کر،تو ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر“سورہ البقرہ ،آیت 286،غور فرمائیے کہ اس آیت مبارکہ میں بندہ کے لئے دعا کا طریقہ کار بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ بندوں کو چاہیے وہ اپنے گناہوں پر اظہار ندامت کے ساتھ رب کائنات کے حضور رحم و کرم کی استدعاکریں۔

سورہ البقرہ ،آیت 186،اس آیت مبارکہ میں دعا کی قبولیت کی شرط بھی بیان کردی گئی کہ بندے اپنے رب کی بات مان لیا کریں اور اس پر ایمان کا مل رکھیں،قرآن کریم میں دعا کے احکامات،آداب اور شرائط بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو نہ پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں“سورہ الاعراف ،آیت55،اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ”اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا،کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے“سورہ الاعراف ،آیت56،اس آیت مبارکہ میں تعمیر سے تخریب کی طرف جانے کی ممانت اور خوف خدا کے ساتھ دعائیں مانگتے رہنے کا درس دیا جارہا ہے ،اسی مفہوم کے ساتھ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا جارہا ہے ”ان کی دعا بس یہ تھی کہ اے ہمارے رب !ہمارے غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرما،ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیا اسے معاف کردے،ہمارے قدم جمادے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر“سورہ آل عمران ،آیت 147،یہاں درس دیا جارہا ہے کہ جب زندگی میں مصیبت وتکلیف کا سامنا ہو کسی بھی گمراہی یا بددلی کا شکار ہونے کی بجائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور کا میابی ،فتح ونصرت کی دعا کرنی چاہیے۔

دنیا کی فانی زندگی میں ہمارے گرد شیطان نے جال بن رکھے ہیں اور وہ انسان کی سوچ کو بھٹکانے کے ساتھ ساتھ اس کو زلت وذلالت کی پستیوں میں دھکیلنے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا،
انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لئے خالق کا ئنات خود ثابت قدمی کا درس دیتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد فرما ہے کہ”وہ دعا مانگتے ہیں)اے ہمارے رب کجی پیدا نہ کر ہمارے دلوں میں اس کے بعد (کہ)جب تونے ہدایت دے دی ہمیں اور عطا فرما ہمیں اپنی طرف سے رحمت بے شک تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے“سورہ آل عمران ،آیت8، یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے اور اللہ نے مومنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثابت قدمی کی دعا کیا کریں ،اسباب دنیا کی تقسیم پر انسان کو رنجیدہ خاطر ہونے کی بجائے اپنے حال پر مطمئن رہنے کا درس دیتے ہوئے قرآن کریم میں فرمان ربانی ہے کہ”اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کر وجوکچھ مردوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے ،ماں ،اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو،یقینا اللہ ہر چیز کام علم رکھتا ہے“سورہ النساء ،آیت32،اس آیت مبارکہ میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے کہ مردوزن دنیا میں جو محنت کررہے ہیں ان کا حصہ اسی محنت کے مطابق رکھا گیا ہے وہ اس پر راضی ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل وکرم کے طلب گار رہتے ہوئے دعا کا سلسلہ جاری رکھیں ،مزید ہمیں یہ بھی درس دیا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو دعا دے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی جواباً اسی طرح نیک جذبات کا اظہار کریں”اور جب تمہیں سلامتی کی کوئی دعا دی جائے تو تم بھی سلامتی کی اس سے بہتر دعا
دو یا اسی کو لوٹا دو یقینا اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے“سورہ النسا،آیت86،یہاں سلام کی شکل میں ایک بندے کی طرف سے دوسرے شخص کو دی جانے والے سلامتی کی دعا کا بیان ملتا ہے اور حکم دیا جارہا ہے کہ اس صورت میں زیادہ بہتر الفاظ کا چناؤ کیا جائے۔

قرآن پاک میں کچھ دعائیں ایسی بھی ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ نے صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو سیکھانے کے لئے ارشاد فرمائیں ،جس طرح متعدد مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا گیا کہ ،ان الفاظ میں دعا مانگی جائے اور یہ بات سورة اخلاص ،سورة الکافرون ،سورة الفلق اور سورة الناس سمیت دیگر آیات قرانی میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے ،اسی طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا ہے کہ ”اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !تم دعا کرو کہ اے رب،(ہمیں )بخش دے اور (ہمارے حال پر )رحم فرما ،تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر رحم کرنے والا ہے “سورة المومنون،آیت 118،اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ دعاؤں میں تمام دعاؤں کی سرتاج سورة فاتحہ ہے کہ جس میں حمد ربانی بھی ہے ،تذکرہ آخرت بھی ہے ،ہر خیر کا سوال بھی ہے اور یہاں ہر قسم کے شر سے پناہ مانگنا بھی سیکھا دیا گیا ،قرآن پاک کے بعد ہمارا سب سے بڑا سرمایہ وہ دعائیں ہیں کہ جو رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ارشاد ہوئیں ،تاثیر اً ان کا بھی وہ ہی مقام ہے جو کہ قرآنی دعاؤں کا ہے ،ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں اس کی تلقین کی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے ہر معاملہ میں دعاکا خصوصی اہتمام کرتے تھے اور ان دعاؤں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا وآخرت کی کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی بھلائی ایسی نہیں کہ جس کی آپ صی اللہ علیہ وسلم نے دعا نہ فرمائی ہو اور اسی طرح کوئی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی ایسی نہیں کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ نہ مانگی ہو۔
۔۔

Browse More Islamic Articles In Urdu