Open Menu

Durood Ki Awaz Nabi SAW Ko Pohanchne Wali Riwayat Ki Tehqeeq - Article No. 3300

Durood Ki Awaz Nabi SAW Ko Pohanchne Wali Riwayat Ki Tehqeeq

درود کی آواز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچنے والی روایت کی تحقیق - تحریر نمبر 3300

”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو!تم بھی اس نبی پر صلاة وسلام بھیجتے رہو“۔

جمعرات 23 جنوری 2020

مُبشّر احمدرَباَنی
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر درود پڑھنے کے متعلق اللہ وحدہ لا شریک کا قرآن حکیم میں حکم ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاة بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو!تم بھی اس نبی پر صلاة وسلام بھیجتے رہو“۔
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر صلاة وسلام پڑھنا چاہئے لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ دنیا میں جہاں بھی درود پڑھا جارہا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے ہیں۔

امام ابنِ قیم رحمة اللہ علیہ نے صلاة وسلام کے متعلق جو کتاب بنام”جلاء الافہام“لکھی اس میں ایک روایت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ درج کی ہے:
”ابو درد اء رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جمعہ والے دن مجھ پرکثرت سے درود پڑھا کرو۔

(جاری ہے)

یہ ایسا دن ہے جس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں نہیں ہے کوئی آدمی جو مجھ پر درود پڑھتا ہو مگر مجھ تک اس کی آواز پہنچ جاتی ہے وہ جہاں کہیں بھی ہو۔

ہم نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی۔بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے“۔
یہ روایت درست نہیں ہے۔امام عراقی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”بلا شبہ اس کی سند صحیح نہیں“۔
اس سند کے صحیح نہ ہونے کی دو وجوہات ہیں:
سعید بن ابی مریم اور خالد بن یزید کے درمیان انقطاع ہے یعنی سعید بن ابی مریم نے یہ حدیث خالد سے نہیں سنی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ خالد بن یزید 139ھ میں فوت ہوئے۔(تہذیب التہذیب178/2) جبکہ سعید بن ابی مریم کی ولادت 144ھ میں ہوئی(تہذیب التہذیب(296/2)گویا کہ سعید خالد کی وفات کے پانچ سال بعد پیدا ہوا۔لہٰذا یہ روایت صحیح کیسے ہو سکتی ہے۔
دوسری علت یہ ہے کہ سعید بن ابی ہلال اور ابو الدارداء رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی انقطاع ہے۔سعید بن ابی ہلال مصر میں70ھ میں پیدا ہوئے۔
(تہذیب التہذیب342/2)جبکہ ابو درداء رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخر میں فوت ہو چکے تھے۔(تقریب:52)لہٰذا70ھ میں پیدا ہونے والے آدمی کی ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کیسے ہو سکتی ہے۔وہ تو ان کی پیدائش سے پہلے ہی اس دُنیائے فانی سے جا چکے تھے۔
امام صلاح الدین العلائی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ سعید بن ابی ہلال کی روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مرسل ہے(جامع التحصیل:224)اور جابر رضی اللہ عنہ مدینہ میں 70ھ کے بعد فوت ہوئے۔
(تقریب:52)جب سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت مرسل ہے تو جابر رضی اللہ عنہ سے پہلے فوت ہوجانے والے صحابی ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔علاوہ ازیں علامہ سخاوی رحمة اللہ علیہ نے القول البدیع ص:158میں طبرانی کبیر سے یہ روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
”یعنی جلاء الافہام میں اس روایت کے اندر”بلغتنی صوتہ“ اور القول البدیع میں”بلغتنی صلاتہ“کے الفاظ ہیں“۔

پہلی دلیل کا مطلب مجھے اس کی آواز پہنچتی ہے اور دوسری کا مطلب یہ ہے مجھے اس کا درود پہنچتاہے۔
دوسری صورت میں سائل کا مسئلہ ہی حل ہو جاتاہے کیونکہ دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ کو درود پہنچا دیا جاتاہے بہر کیف یہ روایت اسنادی لحاظ سے قابل حجت نہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu