Open Menu

Faraiz Waldeen - Article No. 3311

Faraiz Waldeen

فرائض والدین - تحریر نمبر 3311

عام طور پر ہم والدین کی فضیلت کی قرآنی آیات اور احادیث شریفہ پڑھتے اور سنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ماں باپ کی تو بڑی فضیلت ہے ۔باپ کے غصہ میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اُس کی رضا میں اللہ کی رضا ہے۔ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔مگر بطور والدین ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔

جمعرات 13 فروری 2020

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
”حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اُس سے اُس کے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ پس حاکم اپنے ماتحتوں کا ذمہ دار ہے اور اُس سے اُن کے متعلق پوچھا جائے گا ‘اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اُس سے اُن کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی ‘اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور بچوں کی ذمہ دار ہے اور اُس سے اُن کے متعلق باز پُرس کی جائے گی اور غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اُس سے اُس کے متعلق پوچھا جائے گا۔
خبر دار رہو!تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اُس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

(جاری ہے)


یہ حدیث احساس ذمہ داری کے متعلق ہے۔ عربی زبان میں”رَاعِِ“ کا معنی ہے چرواہا اور ”رعیة“ریوڑ کو کہتے ہیں۔ جس طرح چرواہا اپنے ریوڑ کی نگہداشت ‘دیکھ بھال‘بھوک پیاس اور دوسری ضروریات پوری کرنے کا ذمہ دار ہے اسی طرح مسلمانوں کا ہر فرد ذمہ دار ہے اور اُسے اپنی ذمہ داری کو بہترین انداز میں پورا کرنا ہے‘کیونکہ آخرت میں اس سے اپنی ذمہ داری کے متعلق باز پُرس ہو گی۔

مرد خاندان کا سر براہ ہے۔ اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرے‘اُن کی تربیت کرے اور انہیں اچھے اخلاق سکھائے۔ اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنے افراد خانہ کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرے۔ اُنہیں نماز روزے کی تلقین کرے‘ اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے‘ اُن کے کردار وعمل پر نگاہ رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اپنے فکر وعمل سے مثالی نمونہ پیش کرے۔
اپنے بیوی بچوں کو محض پندو نصائح کرنا کافی نہیں۔اگر اس کا اپنا عمل اُس کی گفتار کے مطابق نہیں تو صرف ہدایات جاری کرنا بے سود ہو گا۔قرآن مجید میں تو اس طرز عمل پر شدید وعید بایں الفاظ نازل ہوئی ہے:
”اے ایمان (کا دعویٰ کرنے)والو!تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسند یدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں۔

دو ٹوک بات ہے کہ جب گھر کا سر براہ خود سگریٹ پیتا ہوتو وہ اپنے بچوں کو سگریٹ نوشی سے کیسے روک سکتاہے !اسی طرح اگر وہ خود نماز کی پابندی نہیں کرتا‘وعدہ نہیں نبھاتا‘جھوٹ بولتاہے‘بدزبانی کرتا اور گھٹیا کردار کا حامل ہے تو وہ اپنی اولاد کو ان رذائل سے کیسے بچا سکتاہے!گویا صاحب خانہ کو ایک اچھے مسلمان کی سی زندگی گزارنا ہو گی تاکہ اُس کے گھر والے خود بخود اُس کے نقش قدم پر چل کر پسندیدہ کردار اپنا سکیں۔

اسی طرح عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔وہ اپنے شوہر کے گھر میں کسی ایسے شخص کو داخل نہ ہونے دے جس کی اُس کا شوہر اجازت نہ دے‘گھر کو صاف ستھرا رکھے‘شوہر کے مال کو اُس کی مرضی کے بغیر خرچ نہ کرے‘شوہر کی خوشنودی کے حصول میں کوشاں رہے۔اگر بالفرض شوہر کے کردار میں کچھ کمزوریاں ہوں تو بھلے طریقے سے اسے سمجھائے۔
پھر وہ اپنے بچوں کی بھی ذمہ دار ہے۔اُن کی کردار سازی میں جس طرح مرد ذمہ دار اور جواب دہ ہے عورت بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔ ماں اگر مضبوط کردار کی حامل ہوگی تو اولاد پر اُس کا گہرا اثر پڑے گا۔
اگر عورت ناچ گانے کی رسیا‘ پردے سے عاری اور نیم عریاں لباس پہننے والی ہو گی تو وہ اپنے بچوں کو ایمان ویقین اور قرآن وحدیث کے قریب کیسے لائے گی؟اُس کے بچے تو لازماً حیاباختہ اور ماں کے برے کردار وعمل کا نمونہ ہوں گے۔
ہاں‘اگر وہ خاتون جنت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کو اپنا راہنما بنائے گی تو ضرور با صلاحیت‘باکردار اور پاکباز بچے جنے گی۔قرآن مجید نے مسلمانوں کو (تم خود بھی آگ سے بچو اور اپنے گھر والوں کو بھی آگ سے بچاؤ)کے الفاظ میں تنبیہہ کرکے حقیقی خطرے سے آگاہ کر دیا ہے۔یعنی ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ خود بھی جہنم سے بچنے کا سامان کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس آگ سے بچائیں۔
لیکن افسوس کہ آج ماں باپ کو اپنے بچوں کے لباس وخوراک وغیرہ کی تو فکر ہے‘اُن کی دنیاوی تعلیم پر وہ ہزاروں روپے ماہوار خرچ کرتے ہیں‘مگر اُن کے سیرت وکردار کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتے جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ بچے ڈاکٹر‘انجینئر‘قانون دان اور حکمران وغیرہ تو بن جاتے ہیں مگر اچھے انسان اور اچھے مسلمان نہیں بن پاتے۔
مذکورہ بالا حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمادیا کہ اولاد کے بارے میں ماں باپ سے پوچھ گچھ ہو گی۔
اگر اس معاملے میں کوتاہی کی گئی تو انجام اچھا نہ ہو گا۔بے نمازی ماں باپ بے شک اولاد کو صبح وشام نماز پڑھنے کی تلقین کریں مگر عملی طور پر وہ انہیں نماز نہ پڑھنے کا سبق دے رہے ہیں۔کیونکہ اصل محرک تو انسان کا کردار ہے۔کسی دانش ورنے بہت خوب کہا ہے کہ ہزاروں ٹن وعظ کے مقابلے میں ایک اونس عمل کا وزن زیادہ ہے۔لہٰذا والدین کا فرض ہے کہ وہ خلاف شریعت اعمال سے خود بھی پرہیز کریں اور اپنی اولاد کو بھی بہر صورت گناہوں کے کاموں سے روکیں۔
والدین کا اچھا نمونہ یقینا اولاد کو متاثر کرے گا۔بقول علامہ اقبال:
بتولے باش وپنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے رضی اللہ عنہ بگیری
”اے خاتون !تو اُسوئہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا اختیار کر اور زمانے کی نظروں سے اوجھل زندگی گزار ‘یعنی پردہ اختیار کر۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پھر تیری گود میں ایک حسین رضی اللہ عنہ پرورش پائے گا۔

عام طور پر ہم والدین کی فضیلت کی قرآنی آیات اور احادیث شریفہ پڑھتے اور سنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ماں باپ کی تو بڑی فضیلت ہے ۔باپ کے غصہ میں اللہ کی ناراضگی ہے اور اُس کی رضا میں اللہ کی رضا ہے۔ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔مگر بطور والدین ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔یوں اولاد سے اپنے حقوق مانگتے ہیں مگر اپنے فرائض کی ادائیگی سے صرف نظر کرتے ہیں۔
یقینا یہ بہت بڑی خود فریبی ہے۔اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام بھی جواب دہ ہے کہ اُس نے اپنے آقا کا مال اس کی مرضی کے مطابق خرچ کیا یا خیانت کی۔
بہر حال اس حدیث کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو خبر دار کیا گیا ہے کہ وہ اپنے زیر اثر افراد کی کردار ساز ی میں کسی طرح کی غفلت اور عدم تو جہی اختیار نہ کریں‘بلکہ پوری کوشش اور جدوجہد کے ساتھ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کریں‘جس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ خود اچھے مسلمان بنیں‘قرآن سیکھیں‘سیرت کا مطالعہ کریں‘بزرگان دین اور صالح لوگوں کے مضبوط کردار سے واقفیت حاصل کریں اور اس کی روشنی میں پسندیدہ شخصیت بنیں۔
نتیجتاً نیکیاں اختیار کریں اور برائیوں سے پرہیز کریں‘تاکہ خود دوزخ کی آگ سے محفوظ رہیں اور دوسرے قدم کے طور پر اپنے بیوی بچوں کے حقوق سے آگاہی حاصل کرکے انہیں اچھے اخلاق اور مضبوط کردار سے آراستہ کریں ۔اولاد کی تربیت اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لئے اور ماں باپ کی حقیقی فضیلت کا اہل بننے کے لئے اچھا ماں باپ بننا ضروری ہے ۔اس ضمن میں ہمہ وقت اپنے اخلاق وکردار پر تنقیدی نگاہ ڈالنا ناگزیر ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu