Open Menu

Farid Ud-Din Aṭṭar - Article No. 3518

Farid Ud-Din Aṭṭar

فرید الدین عطار - تحریر نمبر 3518

وہ صوفی فلسفے کی روح تھے اور سنائی اس کی دو آنکھیں تھے اور میں ان دونوں کے بعد آیا ہوں

بدھ 28 اکتوبر 2020

مسعود مفتی
جلال الدین رومی عطار کے بارے میں کہتے ہیں کہ!
”وہ صوفی فلسفے کی روح تھے اور سنائی اس کی دو آنکھیں تھے اور میں ان دونوں کے بعد آیا ہوں“
ابو طالب برخوردار ابو بکر ابراہیم․․․․․برخوردار مصطفی․․․․․برخوردار شعبان عام طور پر شیخ فرید الدین کے نام سے جانے جاتے تھے۔خاندانی نام محمد ابراہیم تھا۔
انہوں نے شلیاکھ (Shalyakh) میں سلطان سانجر (Sanjar) کے دور میں جنم لیا تھا،اور انہوں نے 114 برس زندگی پائی تھی۔1230 بعد از مسیح میں نیشاپور کے محاصرے کے دوران چنگیز خان کا داماد تارتار (Tartar) ہلاک ہو گیا تھا اور اس کی پاداش میں علاقے کے لوگوں کا بے تحاشہ قتل عام کیا گیا تھا۔یہ قتل عام منگولوں نے کیا تھا اور اس قتل عام میں ہلاک ہونے والوں میں فرید الدین بھی شامل تھے۔

(جاری ہے)

یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن کے 13برس امام رضا کے مقبرے کے قریب گزارے تھے اور وسیع تر سیاحت سر انجام دی تھی۔انہوں نے رے․․․․․کوفہ․․․․․مصر․․․․․دمشق․․․․․مکہ․․․․․ہندوستان اور ترکستان وغیرہ کا سفر طے کیا تھا اور بالآخر نیشاپور میں مقیم ہو گئے تھے۔وہ 39 برس تک آیات اور صوفی بزرگوں کے اقوال جمع کرتے رہے تھے تاکہ مکمل علم کے حصول میں کامیاب ہو سکیں۔
ان کے والد ایک ممتاز ادویہ فروش تھے اور کچھ دیر تک کے لئے فرید الدین نے بھی اسی پیشے کو اپنایا تھا اور ان کی دکان ان لوگوں کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث بنتی تھی جو اس کے قریب سے گزرتے تھے کیونکہ یہ نہ صرف صاف ستھری تھی بلکہ سلیقے اور فرینے کے ساتھ سجی بھی ہوئی تھی اور ادویات اور عطریات کی خوشبو خوشگوار تاثرات قائم کرتی تھی۔عطار کا مطلب ہے عطر فروش اور فرید الدین نے لفظ عطار کو اپنے تخلص کے طور پر استعمال کیا تھا۔

ایک روز وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ دکان پر بیٹھے تھے ایک عمر رسیدہ درویش ان کی دکان پر آیا اور انہوں نے بے چینی․․․․․پریشانی․․․․ اور تشویش ناک انداز میں اس سجی سجائی دکان کا قریبی مشاہدہ سر انجام دیا اور ایک آہ بھری اور آنسو بہانے لگے اور جو نہی انہوں نے دنیا کی آنی جانی․․․․․ناپائیدار․․․․عارضی․․․․اور وقتی چیزوں کی جانب دیکھا وہ بے چینی کے عالم میں آنسو بہانے لگے۔
عطار نے اس درویش کو رخصت ہونے کے لئے کہا۔اس کے جواب میں درویش نے کہا کہ:۔
”میں نہ صرف تمہاری دکان سے رخصت ہو سکتا ہوں بلکہ چشم زدن میں اس دنیا سے بھی رخصت ہو سکتا ہوں،لیکن اے عطار مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تم دنیاوی چیزوں کو چھوڑ کر موت کو کیسے گلے لگاؤ گے؟“
یہ سننے کے بعد عطار نے جواب دیا کہ انہیں امید ہے اور وہ اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ بھی اسی قدر طمانیت کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑ سکتے ہیں جس قدر طمانیت کے ساتھ ایک درویش اس دنیا کو چھوڑ سکتا ہے۔

معمر درویش نے جواب دیا کہ:۔
”ہم دیکھیں گے․․․․․انہوں نے اپنا لکڑی کا پیالہ زمین پر رکھا اور اس پر اپنا سر رکھ کر لیٹ گئے اور اللہ کا نام لیتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کری“
عطار اس واقعے سے ازحد متاثر ہوئے انہوں نے فوراً اپنی دکان سے دست برداری اختیار کی اور اپنے آپ کو صوفی فلسفے کے مطالعہ کے لئے وقف کر دیا۔
انہوں نے اس قدر جوش․․․․․جذبے․․․․اور ولولے کے ساتھ مطالعہ جاری رکھا کہ اگرچہ وہ ایک نامور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن وہ ایک کامل صوفی کے طور پر مشہور ہوئے۔عطار ابراہیم بن ادھم کے اقوال سے متاثر ہوئے تھے․․․․․وہ بلخ کے شہزادے اور مشہور معروف صوفی تھے۔
اپنے پاکیزہ ذہن ․․․․سنجیدہ سوچوں․․․․․․اور شیریں کلامی کی بدولت اسلام کی مشرقی سر زمینوں پر وہ اثرات مرتب کیے جو صدیوں تک قائم رہے۔
ایران کی ادبی تاریخ میں سنائی اور رومی کے بعد ان کا نام گونجتا ہے۔ان کا دیوان 40,000شعروں پر مشتمل ہے۔وہ ایک بے مثل اور لاثانی شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اس کے علاوہ وہ ایک کامل ترین صوفی بزرگ کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔
عطار کے مطابق زائر کے دل سے تین پردے ہٹنے چاہئیں قبل اس کے کہ اس پر خوشی کا دروازہ کھولا جائے۔
اول ․․․․․․اگر اسے دونوں جہانوں کی سلطنت بطور بیرونی تحفہ پیش کی جائے․․․․اسے ہر گز خوشی نہیں منانی چاہیے․․․․․کیونکہ کوئی بھی انسان جو کسی تخلیق کردہ چیز پر خوشی مناتاہے․․․․․وہ ہنوز لالچی اور حریص ہے اور لالچی اور حریص انسان محروم رہتا ہے۔(خدا کے علم سے محروم رہتا ہے)

Browse More Islamic Articles In Urdu