Open Menu

Gadagaron Ko Sadqa O Kherat Daina Kaisa Hai - Article No. 3062

Gadagaron Ko Sadqa O Kherat Daina Kaisa Hai

گداگروں کو صدقہ وخیرات دینا کیسا ہے؟ - تحریر نمبر 3062

”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا

منگل 19 مارچ 2019

مُبشّر احمد رَبّاَنی
اللہ وحدہ لاشرک لہ نے صدقات وخیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایاہے:
”اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اس کافائدہ خود پا ؤ گے۔تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہئے اور جوبھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد )میں روک دیے گئے۔

جو زمین میں(کاروبار وغیرہ)کے لیے چل پھر نہیں سکتے‘نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں ‘آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے ۔وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کروگے بے شک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے ۔“
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات وخیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء ومحتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا نا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر وغریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں ۔

(جاری ہے)


(ا)التعفف(۲)الحاف
تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقروغربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے ۔کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
”تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کرکے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔

یہی حدیث ابوھریرة رضی اللہ عنہ سے:
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص میری ایک بات قبول کرلے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں ۔میں نے کہا‘میں قبول کرتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگوں سے کسی چیز کو بھی سوال نہ کر‘ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کوکوڑا گرجاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑ ا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جواسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوانشان بن کر آئے گا۔سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کوکتنا مال کفایت کرتا ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پچاس درھم یا اتنی قیمت کا سونا۔

مذکورہ بالااحادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں لوگوں کے آگے درست سوال دراز کرنا معیوب ہے کوئی خوددار انسان اسے پسند نہیں کرتا جس شخص کے پاس اتنامال ہو کہ وہ اسے کفایت کرتا ہو پھر بھی وہ بھیک مانگے تو اس کا بھیک مانگنا قیامت کے دن اس کے منہ پر زخم کا نشان ہو گا اور جو آدمی مسلسل بھیک مانگتا رہتا ہے قیامت والے دن اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کر تا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا۔“
لہٰذا لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہئے جو آدمی لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہے اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا کر دیتا ہے ۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا۔انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا‘یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ختم ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جو کچھ میرے پاس مال ہوتا ہے میں اسے یتیم سے روک کر نہیں رکھتا جو شخص سوال سے بچاؤ طلب کرتا اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے اور جو غنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنا دے دیتا ہے اور جو صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اسے صبر کی تو فیق دے دیتا ہے۔
کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر وسیع اللہ خیر والی چیز نہیں دی گئی۔“
لہٰذا ہر مسلم کو اللہ تعالیٰ سے دعاکرنی چاہئے کہ وہ ہمیں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے اور بھیک مانگنے سے بچا کر رکھے اور وہ مسلم کا میاب ہے جو اپنے رزق پر قناعت کرے اور کسی سے سوال نہ کرے ۔جیسا کہ عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام آباد لایا اور حسب ضرورت روزی دیا گیا اور جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اس پر اسے قناعت کی توفیق بخشی۔

لہٰذا بہترین مسلمان وہ بھی ہے جو حسب ضرورت روزی دیا گیا تو اس نے اس پر ہی قناعت کی اور لوگوں سے بھیک نہیں مانگی‘اللہ تعالیٰ ہمیں بھیک مانگنے سے محفوظ فرمائے اور جتنی روزی وہ عطا کرے اس پر قناعت کی توفیق بھی عطا کرے۔
اور اگر ماتحت الاسباب سوال کرنے سے کوئی چارہ نہ ہوتو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے سوال کر لیا جائے کیونکہ نیک لوگ جو صدقہ وخیرات سے کام لیتے ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے فقراء ومساکین کا تعاون کرتے ہیں اور سائل کو محروم نہیں کرتے ۔
عام دنیا دار لوگ اگر ایک آدھ بار تعاون کر بھی دیں تو وہ لوگ انسان کی عزت نفس اور خودداری کو مجروح بھی کر دیتے ہیں جب کہ خوف خدا رکھنے والے لوگ انسان کی محتاجی اور فقر سے ناجائزفا ئدہ نہیں اٹھاتے حتی کہ کسی موقع پر کئے ہوئے اپنے تعاون کو جتلانے تک نہیں ۔اس سے انسان کی حرمت وعزت بھی محفوظ رہتی ہے جس طرح انصار صحابہ (رضی اللہ عنہ )
نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔
(واللہ اعلم)

الحاف
سورة البقرہ کی اس آیت کریمہ میں مسکین کی دوسری صفت”الحاف “بیان ہوئی ہے یعنی وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔بعض مفسرین نے الحاف کے معنی کیے ہیں ‘بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت ”عفت “بیان کی گئی ہے ۔(فتح القدیر)اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح وزاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے اس لیے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود(بطور پیشہ )لوگوں سے مانگے(تفسیر احسن البیان ص154)
ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دودو لقمے یا ایک ایک دو دو کھجور کے لئے لوگوں کے در پر جا کر سوال کرتا ہے ۔

صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ)نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکین کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’مسکین وہ ہے جو حسب ضرورت مال نہیں پاتا اور اس کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے ۔“
صحیح مسلم میں مذکورہ باب کے تحت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے اس طرح بھی روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مسکین وہ نہیں جو ایک ایک دودو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے دردر پھرتا ہے مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے اگر تم چاہوتو یہ آیت کریمہ پڑھو(کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے“۔

الحاف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ ملا حظہ ہوں ۔
معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”گڑ گڑا کرا ور چمٹ کر سوال نہ کرو‘اللہ کی قسم! تم میں سے جو کوئی مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کا سوال مجھ سے کوئی چیز نکلوالیتا ہے اور میں اسے ناپسند کر رہا ہوتا ہوں توجو میں اس کو دیتا ہوں اللہ اس میں برکت نہ دے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الحاف یعنی کسی کے سامنے الحاح وزاری کرکے اور چمٹ کر سوال کرنا منع ہے جس شخص کے پاس چالیس درھم ہوں پھر وہ لوگوں سے گریہ وزاری کر کے سوال کرے تو وہ ملحف ہے ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
”میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف منہ کرکے بیٹھ گئے اور فرمایا”جو شخص لوگوں سے بے پرواہی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کردے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو تھوڑے پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص سوال کرے گا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درھم)کے برابر مال ہوگا تو اس نے الحاف کیا۔
میں نے دل میں کہا میری یا قوتہ اونٹنی ایک اوقیہ سے بہترہے میں واپس پلٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔“
عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس چالیس درھم ہوں تو وہ ملحف ہے یعنی لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے والا ہے ۔“
بنواسد میں سے ایک آدمی نے کہا میں اور میرے گھر والے بقیع الغرقد (مدینہ کے قبرستان کا نام)میں
اتر ے تو میری اہلیہ نے مجھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھانے کے لیے کسی چیز کا سوال کر ۔
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو میں نے پایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کررہا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ نہیں جو تجھے دوں ۔وہ ناراض ہو کر پیٹھ پھیر کر چلا اور کہنے لگا قسم ہے مجھے عمر دینے والے کی ! تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”یہ شخص مجھ پر غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

جس آدمی نے تم میں سے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیة(40درھم )یا اس کے برابر مال ہوا تو اس نے چمٹ کر (ناحق)سوال کیا۔اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا:میرے پاس تو ایک اونٹنی چالیس درھم سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور خشک انگور آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسکین اور فقیر وہ ہے جس کے پاس حسب ضرورت اخراجات نہیں ہیں اور وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال بھی نہیں کرتا اور ناواقف ونادا ن اس کے چہرے کی چمک دیکھ کر اسے مالدار تصور کر لیتا ہے اور عام طور پر معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آدمی صدقہ وخیرات کے لائق ہے اور جس شخص کے پاس 40درھم یا اس کی مقدار مالیت ہوتو وہ اس کی ضرورت کو کفایت کر جاتا ہے اور وہ ملحف یعنی (چمٹ کر سوال کرنے والا)نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال پر قناعت کر لیتا ہے ۔

عصر حاضر میں لاری اڈوں ‘بازاروں اور گلی کو چوں میں گھومنے والے بھکاری اور گداگر پیشہ ور لوگ ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو محنت مزدوری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ‘اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن میں اتنی سکت اور ہمت رکھی ہے کہ اگر وہ اسے کام میں لائیں تو سوال کرنے سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ لوگ حصول مال کے لیے محنت و مزدوری سے جی چرا کے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں اور حرام وحلال کی تمیز کے بغیر ہر طریقے سے مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا پورا کنبہ ہی دردرکا بھکاری اور سوالی بنا ہوا ہے ۔

نوجوان عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے ہوئے لاری اڈوں کی خاک چھان رہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ لوگ صدقات وعطیات کے مستحق معلوم نہیں ہوتے ۔مال وزر والے افراد اور احسان ونیکی کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ صاحب حاجات اور صدقات و خیرات کے مستحق افراد کو پہچان کران پر اپنے اموال صرف کریں اور یقینا حاجت مند مسلم افراد اللہ کے دین کے حامل ہوں گے اور نماز‘روزہ وغیرہ جیسی عبادات سر انجام دیتے ہوں گے کیونکہ وہ تو ذلت وخواری سے بچنے کے لیے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے جب کہ پیشہ ور بھکاریوں میں تو بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مسکر اور نشہ آور اشیاء خرید کر استعمال کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں سے تعاون تو گناہ پر تعاون ہے جو کہ شر عا حرام ہے ۔
امام نووی نے شرح صحیح مسلم 113/7میں فرمایا ہے کہ :
”جو شخص کمائی پر قادر ہے اس کے سوال کرنے کے متعلق دو وجھوں سے ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے ان سے صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس کے لیے سوال کرنا حرام ہے ظاہر احادیث کی وجہ سے ‘دوسری بات یہ ہے کہ کراہت کے باوجود تین شرطوں کے ساتھ حلال ہے :(1)وہ اپنے آپ کوذلیل نہ کرے۔
(2)اور نہ ہی سوال کرنے میں گریہ وزاری سے کام لے (3)اور نہ ہی جس سے سوال کرتا ہے اسے تنگ کرے۔اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہو گئی تو سوال کرنا بالااتفاق حرام ہے۔
عصر حاضر کے بھکاری تو دردر کی ذلت ورسوائی بھی اٹھاتے ہیں اور مانگتے وقت انتہاء درجے کی گریہ وزاری کرتے ہیں اور لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں ‘انہیں اگر کہا جائے بھائی معاف کرو تو پھر بھی جان نہیں چھوڑتے لہٰذا ان کا سوال کرنا تو کسی صورت بھی صحیح نہیں ۔اس لیے ہمیں چاہئے کہ جو صحیح شرعی لحاظ سے مسکین ہواس کی معاونت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو اور پیشہ ورگداگروں کی حوصلہ شکنی ہو۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر3)
(مُبشّر احمد رَبّاَنی)

Browse More Islamic Articles In Urdu