Open Menu

Haji Abdul Wahab - Article No. 2768

Haji Abdul Wahab

حاجی عبدالوہاب - تحریر نمبر 2768

حاجی عبدالوہاب کی تمام زندگی بانی تبلیغ جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کے مقدس کام کو عام کرنے میں گذری آپ کی وفات سے دعوت و تبلیغ اور نیکی و خیر کا ایک روشن باب بند ہوگیا

جمعہ 7 دسمبر 2018

مولانا مجیب الرحمن انقلابی
آہ۔۔۔گذشتہ دنوں اسلام اور ملک و ملت کے عظیم محافظ حضرت مولانا سمیع الحق کی مظلومانہ شہادت کے بعد عالم اسلام کو تبلیغی جماعت کے عالمی امیر حاجی عبدالوہاب کی وفات کی صورت میں ایک اور صدمہ کو سہنا پڑا ۔۔۔۔اور حاجی عبدالوہاب 75 سال یعنی پون صدی دعوت و تبلیغ کے اس مقدس کام پر لگانے کے بعد لاکھوں لوگوں کی ہدایت ،ہزاروں لوگوں کے ایمان کا ذریعہ بننے اور انسانیت کی خدمت کے تمغے سجائے اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ میں سرخرو ہوگئے ۔



حاجی عبدالوہاب کی تمام زندگی بانی تبلیغ جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کے مقدس کام کو عام کرنے میں گذری آپ کی وفات سے دعوت و تبلیغ اور نیکی و خیر کا ایک روشن باب بند ہوگیا حاجی عبدالوہاب کی ایمان افروز روشن زندگی اور لاکھوں لوگوں کی آپ کی نماز جنازہ میں شرکت قابل رشک ہے۔

(جاری ہے)

آج پوری دنیا میں رائیونڈ کی پہچان اور شناخت دعوت و تبلیغ والے اس مقدس کام اور تبلیغی جماعت کے حوالہ سے ہے ، حاجی عبدالوہاب ہندوستان کے ضلع کرنال میں 1922ء میں پیدا ہوئے گریجویشن اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے کیا اور پھر تحصیلدار بھرتی ہوگئے آپ راجپوت فیملی سے تعلق رکھتے تھے بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی سے ملاقات ہوئی اور ان کی خلوص بھری باتیں ان کے دل و دماغ میں ایسے نقش ہوئیں کہ پھر تحصیداری چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت و تبلیغ والے اس کام سے وابستہ کر لیااورپھرایسے’’ فنا فی التبلیغ‘‘ ہوئے کہ کھانے پینے، سونے ، پہننے اور آرام سے بے پرواہ ہوکر ہر وقت دعوت و تبلیغ کی فکر ان پر سوار ہوتی اور پوری امت اور انسانیت کے لیے فکرمند ہوکر اکثر فرماتے کہ، پوری انسانیت کی ہدایت کی دعا کرو غیر مسلم بھی اللہ ہی کے بندے ہیں۔
آپ اپنی تقریروں میں کثرت کے ساتھ یہ جملہ ارشاد فرماتے جو کہ آپ کی پہچان بن گیا ہے’’اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیر اللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین اپنے دلوں میں بٹھالو‘‘۔

مبلغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب کے بقول نبویؐ تڑپ ان کے دل میں تھی بلاشبہ وہ کروڑوں میں ایک تھے وہ قال ہی نہیں حال میں بھی تبلیغی تھے ایک مرتبہ لقمہ ہاتھ میں اٹھایا اور منہ میں ڈالنے کی فکر نہ رہی اور پون گھنٹہ تک دین اور دعوت و تبلیغ کی اہمیت کے حوالہ سے گفتگو فرماتے رہے جہاں حاجی عبدالوہاب حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کے ہاتھ پر بیعت تھے وہاں وہ شیخ التفسیر امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری سے بھی بیعت اور خلیفہ مجاز تھے ، حاجی عبدالوہاب کی زندگی تبلیغی جماعت کے عظیم راہنماء مولانا محمد عمر پالنپوری کے اس جملہ کی عملی تصویر تھے کہ ’’اس دعوت و تبلیغ والے کام کو کرتے کرتے مرنا ہے اور مرتے مرتے کرنا ہے‘‘حاجی عبدالوہاب کی بھی یہی کیفیت تھی کہ بستر مرگ پر بھی جب آپ کو ہوش آتا تو آپ کی گفتگو اس دعوت و تبلیغ والے کام اور کارگزاری کے حوالہ سے ہو تی آپ بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی فکر عملی تصویر بن چکے تھے جب کسی جاننے والے نے ایک خط کے ذریعہ مولانا محمد الیاس کاندھلوی ہے ان کی خیریت دریافت کی تو آپ نے سوزودرد میں ڈوبے ہوئے قلم کے ساتھ جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ’’ طبیعت میں سوائے تبلیغی درد کے اور سب خیریت ہے‘‘ آپ کی بھی یہی کیفیت ہوتی۔
آپ نے بھی مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی طرح جب اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیا تو ہر طرف دین سے دوری عقائد کی خرابی اور اعمال و عقائد کا بگاڑ دیکھا کہ لوگ شرک و بدعت، جہالت اور ضلالت و گمراہی کے ’’بحرظلمات‘‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ امت محمدیہ کی اصلاح کے سلسلہ میں متفکر و پریشان دیکھائی دینے لگے، آپ نے محسوس کیا کہ عام دینداری جو پہلے موجود تھی اب ختم ہوتی اور سمٹتی چلی جا رہی ہے، پہلے یہ دین داری خواص تک اور مسلمانوں کی ایک خاص تعداد میں رہ گئی تھی پھر اس کا دائرہ اس سے بھی تنگ ہوا اور ’’اخص الخواص‘‘ میں یہ دینداری باقی رہ گئی ہے پہلے جو خاندان اور قصبات و علاقے اور شہر ’’رشد و ہدایت‘‘ کے مراکز سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اس قدر تیزی کے ساتھ انحطاط و زوال ہوا کہ اب ان کی ’’مرکزیت‘‘ ختم ہوتی جارہی ہے جہاں پہلے علم و عمل کی قندیلیں روشن رہتی تھیں اب وہ بے نور ہیں، دوسری بات آپ نے بھی یہ محسوس کی کہ علم چونکہ ایک خاص طبقہ تک محدود رہ گیا ہے اس لیے آپ یہ چاہتے تھے کہ عوام الناس میںپھر سے دینداری پیدا ہو، خواص کی طرح عوام میں بھی دین کی تڑپ اور طلب پیدا ہو، ان میں دین سیکھنے سکھانے کا شوق و جذبہ انگڑائیاں لے، اس کے لیے وہ ضروری سمجھتے تھے کہ ہر ایک دین سیکھے، کھانے، پینے اور دیگر ضروریات زندگی کی طرح دین سیکھنے او اس پر عمل کرنے کو بھی اپنی زندگی میں شامل کریں اور یہ سب کچھ صرف مدارس و مکاتب اور خانقاہی نظام سے نہیں ہوگا کیونکہ ان سے وہی فیضیاب ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے دین کی طلب ہواور وہ اس کا طالب بن کر خود مدارس و مکاتب اور خانقاہوں میں آئیں، مگر ظاہر ہے کہ یہ بہت ہی محدود لوگ ہوتے ہیں اس لیے حاجی عبدالوہاب ضروری سمجھتے تھے کہ اس ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کے ذریعہ ایک ایک دروزاہ پر جا کر اخلاص و للہیت کے ساتھ منت و سماجت اور خوشامد کر کے ان میں دین کے ’’احیائ‘ کی طلب پیدا کی جائے کہ وہ اپنے گھروں اور ماحول سے نکل کر تھوڑا سا وقت علمی و دینی ماحول میں گزاریں تاکہ ان کے دل میں بھی سچی لگن اور دین سیکھنے کی تڑپ پیدا ہوا اور یہ کام اسی دعوت والے طریقہ سے ہوگا جو طریقہ اور راستہ انبیاء کرامؑ کاتھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرامؓ جیسی مقدس اور فرشتہ صفت جماعت پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنے میں کامیاب ہوئی اور پھر جب اس دعوت و تبلیغ سے عام فیضاء دینی بنے گی تو لوگوں میںدین کی رغبت اور اس کی طلب پیدا ہوگی تو مدارس و خانقاہی نظام اس سے کہیں زیادہ ہوگا بلکہ ہر شخص مجسمِ دعوت اور مدرسہ و خانقاہ بن جائے گا۔


آپ کی دین کے لیے تڑپ و بے چینی اور درد وبے قراری دیکھنے میں نہیں آتی تھی ، مسلمانوں کی دین سے دوری پر آپ انتہائی غمگین و پریشان اوراس فکر میں ڈوبے رہتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر کسی طرح دین دوبارہ زندہ ہو جائے۔ بعض اوقات اسی فکر میں آپ ’’ماہی بے آب‘‘ کی طرح تڑپتے آہیں بھرتے اور فرماتے تھے میرے اللہ میں کیا کروں کچھ ہوتا ہی نہیں۔
کبھی دین کے اس درد وفکر میں بستر پر کروٹیں بدلتے اور جب بے چینی بڑھتی تو راتوں کو فکر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتے۔ آپ کے سوز و درد کا اندازہ ہر وہ شخص آسانی کے ساتھ لگا سکتا تھا جو آپ کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا اور باتیں سنتا تھا، آپ کا بس نہیں چلتا تھا کہ سب لوگوں کے دلوں میں وہی آگ پھونک دیں جس میںوہ عرصہ سے جل رہے تھے۔ سب اس غم میں تڑپنے لگیں جس میں وہ خود تڑپ رہے تھے، سب میں وہی سوز و گداز پیدا ہو جائے جس کی لطیف لمس سے آپ کی روح جھوم اٹھتی تھی۔
جب بلوچستان اور سندھ میں عصبیت و لسانیت نے سر اٹھایا اور ملک کی سالمیت خطرے میں محسوس کی تو آپ نے جہاں مختلف بااثر دینی و مذہبی شخصیات سے ملاقاتیں کیں وہاں آپ نے ان علاقوں میں تبلیغی جماعتوں کو بھی کثرت سے بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا تاکہ بھٹکے ہوئے لوگ دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اسلام اور ملک کے محافظ بن جائیں ۔حاجی عبدالوہاب دن میں کئی کئی گھنٹے مسلسل بیان کرتے صبح فجر کے بعد بیان اور اس کے بعد مشاورت ، تبلیغی جماعتوں کو روانگی کے وقت ہدایات اور اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں دعوت و تبلیغ کے پھیلے ہوئے کام کی نگرانی اور ہدایات دیتے ہوئے نظر آتے۔
ایک وقت تھا جب رائے ونڈ تبلیغی مرکز کئی کئی دن کوئی نہ آتا اور رائے ونڈ ریلوے اسٹیشن پر رکنے والی ہر گاڑی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھناکہ شاید دعوت و تبلیغ کے حوالہ سے دین کا درد لیے کوئی مسلمان اس ٹرین سے اترے جب کوئی مسافر اس مقصد کے لیے نہ ملتا یہ واپس پلٹتے ہوئے دعائیں کرتے ، توبہ و استغفار ، ذکر و اذکار اور عبادت میں مصروف ہو جاتے اور امت کی فکر میں راتوں کواٹھ اٹھ کر ایمان اور ہدایت کے لیے روتے اور گڑگراتے ہوئے نظر آتے ، کئی کئی دن فاقوں میں گذر جاتے لیکن کھانے پینے کی پرواہ کے بجائے امت کی ہدایت کی فکر ہوتی اور دعوت و تبلیغ کی غرض سے آنے والے مسافروں کی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ راتوں کو اٹھ کر جہاں ان کی ہدایت کی دعا کرتے وہاں ان کے باتھ رومز(لیٹرین) کی بھی صفائی خود اپنے ہاتھوں سے کرتے نظر آتے۔

چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب جامعہ اشرفیہ لاہور کی مسجد حسن کی توسیع اور تعمیر نو کے ’’سنگ بنیاد‘‘ حوالہ سے ایک پروقار اور روح پرور تقریب منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے نامور علمی و دینی شخصیات ، علماء و مشائخ اور زعمائے ملت نے وہاں تبلیغی جماعت کے عالمی امیر حاجی عبدالوہاب نے علالت کی وجہ سے ہسپتال میں ہونے کے باوجود اصرار کر کے ڈاکٹروں سے اجازت لے کر کچھ وقت کے لیے جامعہ اشرفیہ لاہور کی اس تقریب میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو وہ منظر قابل دیدنی تھا کہ جب جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم ’’شفیق الامت‘‘ حضرت مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مدظلہٗ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ویل چیئر پر موجود حاجی عبدالوہاب کا نائب مہتمم و ناظم اعلیٰ مولانا قاری ارشد عبید اور حافظ اسعد عبید سمیت دیگر اساتذہ اور علماء کے ہمراہ ان کا استقبال کیا اس موقعہ پر حاجی عبدالوہاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسان جس مقصد کے لیے دنیا میں جس عظیم مقصد کے لیے آیا ہے اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لیے دین کی محنت کرے ۔
اس موقعہ پر حاجی عبدالوہاب نے رقت آمیر دعا ئیہ کلمات کہتے ہوئے کہا کہ جامعہ اشرفیہ کی اس تقریب میں شرکت کرنا میرے لیے باعث سعادت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ حاجی عبدالوہاب کی پوری زندگی دین کی جدوجہد سے عبارت ہے انہوں نے جس طرح فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے خود کو کھپایا اور تھکایا ا س کی نظیر اور مثال نہیں ملتی دین کے لیے جدوجہد کرنے والے مخلص لوگوں کے لیے ان کی قابل رشک زندگی مشعل راہ ہے،آخر کار 75 سال دعوت و تبلیغ والے اس مقدس کام پر شب و روزصرف کرنے کے بعد 96 برس کی عمر میں18 نومبر 2018 ء بروز اتوار لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں ’’ڈینگی بخار‘‘ جان لیوا حملہ کے بعد انتقال کر گئے ۔
آپ کے انتقال کی خبر پوری دنیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے ملک و بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میںتبلیغی جماعت اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے رائے ونڈ کا رخ کیا گویا کہ اس روز تمام راستے اور تمام قافلے رائے ونڈ کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے ۔آپ کی نماز جنازہ آپ کے جانشین اور تبلیغی جماعت کے موجودہ امیر مولانا نذر الرحمن نے پڑھائی اور نماز جنازہ میں 13 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ موٹر وے اور لاہور کی مختلف سڑکوں اور راستوں پر رش کی وجہ سے پھنسے نظر آئے جس کی وجہ سے وہ جنازہ میں شریک نہ ہوسکے بلاشبہ آپ کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا جنازہ تھا آپ کی قبرکی مٹی سے بھی آپ کے شیخ و مرشد شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ، جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ ترمذی حضرت مولانا محمد موسیٰ روحانی بازی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا صوفی محمد سرور کی طرح جنت کی خوشبو آنے لگیں بعد میں آپ کو رائے ونڈ کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا۔

حاجی عبدالوہاب کی حقیقی اولاد تو نہ تھی لیکن لاکھوں کی تعداد میں آپ کی روحانی اولاد اور کروڑوں چاہنے والے پوری دنیا میں موجود دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔اللہ تعالیٰ حاجی عبدالوہاب کو کڑوٹ کڑوٹ جنت نصیب فرمائے اور دعوت و تبلیغ والے اس مقدس کام اور محنت کو پوری دنیا میں عام فرما دے۔
؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Browse More Islamic Articles In Urdu