Open Menu

Hazrat Aisha Sadiqa R.A - Article No. 1201

Hazrat Aisha Sadiqa R.A

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا - تحریر نمبر 1201

آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجا تھا

جمعہ 25 اگست 2017

اُم ِمفازا:
ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہاکا نسب چوتھی پشت (قصی ) پر جاکر حضور سیدنا رسول کریم ﷺکے نسب سے مل جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہابلاشبہ پاکیزہ طیبہ ،طاہرہ باعظمت اور باوقار خاتون تھیں۔ قصی کی نسل سے آپ کے عقد میں آنے کا شرف صرف اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا اور اام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان کے حصے میں آیا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کا نسب نامہ یوں ہے۔خدیجہ بنت خویلد بن امسد بن عبدالعزی بن قصی بن کلاب بن مرہ کعب بن لوی بن غالب بن فھر الاسدیہ القریشہ۔امّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن الاصم (جندب ) بن ھرِم (ھدمِ)بن رواحہ بن حجر بن عبدبن مصیص بن عامر لوی بن غالب بن فھر العامریہ القریشہ تھیں ۔

(جاری ہے)

اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا عفت و حمیت و طہارت کا پیکر تھیں ۔ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی پاکیزہ سیرت کی وجہ سے زمانہ جاہلیت میں بھی انہیں ”طاہرہ “ لقب سے یاد کیا جاتا تھا ۔ انہیں ،،،،،،،،،،،،،،سربراہ خواتین قریش بھی کہا جاتا تھا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ کے بہت عالی مرتبت گھرانے میں ہوئی ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکے بھتیجے حکیم بن حزام بن خویلد بیان فرماتے تھے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہا مجھ سے دو سال بڑی تھیں ۔ وہ اصحاب فیل کے واقع سے پندہ برس پہلے 556 میں پیدا ہوئیں۔
پیارے آقا سے نکاح سے قبل اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہاکی دو شادیاں ہوچکی تھیں ۔
پہلا نکاح عتیق بن عابد سے ہوا ، ان سے ایک بیٹی تھیں ۔ اس کا نام ہند اور کنیت اُم محمد تھیں ۔ دوسرا نکاح ابو ہالہ بن زرارة بن نباش اُسیدی (اسدی ) تمیی سے ہوا۔ ان سے چار بیٹے تھے ۔ یہ سب کے سب سعادت مند اور سب کے سب شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ ان کا مختصر تعارف یہ ہے ۔ ہندو بن انی ہالہرضی اللہ عنہ۔انہوں معرکہ بد ر میں بہادری کے جوہر دکھائے ۔
آپ جنگ احد میں بھی شریک ہوئے ۔ 36ہجری میں جب واقع جمل پیش آیا تو امیر المومنین حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے داد ِ شجاعت دیتے ہوئے ۔ جام شہادت نوش کیا ۔ آپ سے چند حدیث مبارکہ بھی مرسی ہیں۔ہالہ بن ابی ہالہ ،حضور سید کائنات رسول اللہ ﷺ ان سے بھی بڑی محبت فرماتے تھے ،ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ آرام فرمارہے تھے کہ ہالہ اگئے آپ ﷺ کی آنکھ مبارک کھلی تو فوراََ آپ کو سینہ مبارک کے ساتھ لگالیا اور بڑی محبت سے تواتر کے ساتھ فرمایا ہالہ! ہالہ! ہالہ ! حضرت حارثرضی اللہ عنہ اپنے اسلام کا کھلم کھلا اِظہار فرماتے تھے ۔
جب آپ نے اسلام قبول کرلیا تو رکن ایمانی تو رُکن ایمانی کے قریب دعوت و تبلیغ فرمارہے تھے کفار مشرکین نے آپ کو شہید کردیا ،بعض روایات مین آتا ہے کہ حضور سیدنا سرکار کائنات رسول ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔ وہ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے والی صحابی تھے۔طاہر بن ابی ہالہ یہ بھی اسلام کے دلدِادہ تھے حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو چند صحابیوں کے ہمراہ یمن کے علاقے میں زکوة کی وصولہ کے لیے عامل بنا کر روانہ فرمایا ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کو جب حضور ﷺ کی صدق گفتار حسن کردار امانت داری اور حسن اخلاق کی خبر معلوم ہوئی تو انہوں نے آپ کی خدمت اقداس میں پیغام بھیجا آپ ﷺ ان کے غلام میسرہ کے ہمریہ مال تجارت لے کر ملک شام جائیں ۔ رسولﷺ نے اس پیشکش کو قبول فرمایا ، جب آپﷺ شام کی حدود میں داخل ہوئے تو ایک روز ا ٓپ ﷺ ایک درخت کے نیچے سایہ میں جلوہ افروز تھے۔
قریب میں ایک راہب نے دیکھا اور میسرہ سے پوچھا یہ شخص کون ہے میسرہ نے کہنا یہ قبیلہ قریش کہ ایک معزز شخص اور اہل حرم سے ہیں ۔ راہب نے کہا اس درخت کے نہچے پیغمبر کے سوا کوئی نہیں بیٹھتا ۔سفرِ شام سے واپسی پر اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا میسرہ سے سفر کے حالات معلوم فرمائے ۔میسرہ نے آپﷺ کی امانت ،صداقت شرافت ، نرم گفتگاری کی تعریف کی اور رسول ﷺ کے ساتھ پیش آنے والے تمام حال اور راحب کی گفتگو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی گوش گزاری۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہانے فوراََ ایک عورت کو رسول کریم ﷺ کی خدمت اقداس میں بھئجا تاکہ نکاح کی بابت آپﷺ کی مرضی معلوم کی جاسکے۔ جب یہ پیغام نبی کریم ﷺ میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی والدہ خویلد کے پاس آئے اور نکاح کا پیغام دیا ۔
آپ کے والد نے نکاح کے اس پیغام کو قبول کرلیا ۔تقریب نکاح کے لیے رسول ﷺ اپنے چچا صاحبان کے ساتھ تشریف لائے ۔ حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے ایک گائے ذبح کی ہوئی تھی اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہا نے عمدہ پوشاک زیب تن فرما رکھی تھی۔بوقت نکاح کریم آقاﷺ کی عمر مبارک پچیس برس اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک چالیس سال تھیں ۔
خطبہ نکاح آپ ﷺ سے چچا ابع طالب رضی اللہ عنہ نے پڑھا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔ ”سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں سیدنا ابرہیم کی کھیتی سے سیدنا اسماعیل کی نسل سے معد کی اصل سے اور اُصل اور مفُر کے نسب سے پیدا فرمایا۔ ہمیں بیت اللہ شریف کا پاسبان حرم شریف کا رکھوالا اور منتظم بنایا۔ ہمارے لئے ایسا گھر بنایا جس کا حج کیا جاتا ہے ۔
ہمیں ایسے حرم سے نوازا جو امن کا گہوارا ہے ۔ہمیں لوگوں پر حکمران بنایا جس شہر میں رہتے ہیں اِسے برکات سے نوازا ۔حمد الہی کے بعد میرے بھتیجے محمد ﷺ مصطفی بن عبداللہ شرف وقار اعلی فرضی اور فضیلت و دانائی کا قریش کے کسی بھی آدمی کے ساتھ موازنی نہ کیا جائے تو محمد ﷺ کا پلڑا ہی بھاری نکلے گا ۔اگر ان کے پاس مال کم ہے تو یہ آنے جانی والی چیز ہے۔
یہ مال ڈھلتی چھاؤں ہے ۔ محمد ﷺ وہی عظیم ہستی ہے جن کی قرابت داری سے تم سب بخوبی اگاہ ہوں ۔ بلاشبہ آپﷺ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا خولید کی خواستگاری فرماتے ہیں ۔ جو حق مہر تم لوگوں نے طلب کیا وہ میرے مال سے فی الفور ادا کیا ھائے گا۔ اللہ کی قسم محمد ﷺ بہت شان کے حامل ہوگے اور ان کی خبر ہر سو پھیل جائے گی۔
روایات کے مطابق اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کا حق مہر ساڑھے بارہ اَ ہ قیمہ تھا اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہے۔ گویا پانچ سو درہم ہوئے۔جب حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ خطبہ مکمل فرمالیا تو ورقہ بن نوفل جو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے ، نے بھی خطبہ پڑھا جس کا مضمون یہ ہے۔
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ویسا ہی بنایا جیسا آپ نے بیان کیاہے۔ہمیں ان چیزوں کے ذریعے سے فضیلت بخشی جنہیں آپ نے شمار کیا ہے۔ پس ہم عرب کر سردار اور قائد ہیں ۔ تم سب بھی ان تمام تعریفوں کے اہل اور جامع ہوں ۔ عرب تمہاری فضیلت کا انکار نہیں کرسکتے ۔ تمہارے خاندانی شرف ووقار کو کوئی نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ لہذا قریش کی جماعتوں گواہ رہومیں اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا بنت خو یلد کا نکاح محمد ﷺسے کیا ہے۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہاکا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں انہوں اپنا مال دین اسلام کی راہ میں خرچ کیا ۔ آپ کی احسن خدمات کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے سے انہیں سلام بھیجا اور انہیں جنت میں یاقوت سے جڑے موتیوں سے بنے ہوئے ایک بے مثل محل کی بشارت عطا فرمائی ۔ خود حضرت جبرائیل نے بھی انہیں سلام پیش کیا ، یہ سلام رسول اللہ ﷺ نے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا کو پہچایا۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا نے اس سلام کے جواب میں فرمایا یقینا اللہ خود ( سلامتی دینے والا) ہے اور حضرت جبرائیل پر سلامتی ہوں ۔ اور ائے اللہ کے رسول آپ ﷺ پر سلامتی اللہ کی رحمتیں اور برکات ہوں۔اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک غلام بطور ہدیہ پیش کیا ۔
اس غلام کو تاریخ اسلام میں زید بن حارث ہرضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے۔ حضرت زید نن حارثہ رضی اللہ عنہ نہایت سمجھدار وفا شعار مودب اور خدمت گزار تھے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت اقداس میں آئے تو آپﷺ کے ہی ہو کر رہ گئے۔ انہیں آپﷺ سے اتنی محبت تھی کہ وہ آپﷺ کے سایہ عاظت کے مقابلے میں اپنے عزیز ترین خونی رشتوں کو بھی ناقابل ترجیح سمجھتے تھے۔
ان کو حضورﷺ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا ۔آپ ﷺ کے چچا ابو طالب رضی اللہ عنہ کا خاندان بت بڑا تھا ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفررضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا ۔علی مرتضی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ اور اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کے سایہ عاظت میں رہے۔اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کے عزیزوں اور قرابت داروں سے حسن سلوک سے پیش آتی تھیں ۔
رسول اللہ ﷺ کی بعث سے رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ ملنے کے لیے آئیں تو اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجہ ُالکُبری رضی اللہ عنہ نے انہیں چالیس بکریاں اور ایک اونٹ مرحمت فرمایا اور بہت احترام سے رخصت کیا۔رسول اللہ ﷺ کی عمر چالیس سال ہوئی تو وحی کا ظہور ہوا ایک دن آپ ﷺ غار حرا میں تھے کہ اچانک جبرئیل نے اکے آپ ﷺ سے کہا ”پڑھو“ آپ ﷺ نے فرمایا میں پڑھنے والا نہین ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے فرشتے نے پکڑ کر خوب بھینچا اور پڑھو۔ میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں فرشتے نے دوبارہ پکڑلیا اور بھینچا اور کہا ”پڑھو“ میں نے کہا میں پڑھنے والا نہیں “ تیسری بار خوب پکڑ کر کہا پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھرئے سے پیدا کیا پڑھو اور تمہارا رب تو نہایت کریم ہے ۔رسول اللہ ﷺ یہ آیات مبارکہ لے کر اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کے پاس پہچے اور فرمایا مجھے چادر اوڑھادو ،مجھے چادر اوڑھادو“ انہوں نے آپ ﷺ کو چادر اوڑھادی ۔
یہاں تک آپ ﷺ کی حالت بہتر ہوئی آپ ﷺ نے اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ کو سارا ماجری سنایا۔ تو انہوں نے آپﷺ کو تسلی دی اور فرمایا اللہ کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسواہ نہ کرے گا۔ بے شک آپ ﷺ صلہ رحمی فرماتے ہیں ۔ درماندوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ۔ فقیروں محتاجوں کو کما کر دیتے ہین مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہ حق میں پیس آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ اور صفات چنیدہ کے حوالے سے آپ ﷺ کو تسلی دی۔ مزید تسلی کے لیے وہ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لئے گئیں ۔ ورقہ بن نوفل عبرانی زبان لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔ اور حسب توفیق انجیل بھی لکھتے تھے۔وہ اس وقت کافی بوڑھے تھے اور بینائی بھی کھوچکے تھے ۔
اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ نے ورقہ بن نوفل سے سارا واقعہ بیان کیا تو وہ کہنے لگے یہ تو وہی ناموس فرشتہ ہے جسے اللہ نے حضرت موسی رضی اللہ عنہ پر نازل فرمایا تھا۔ پھر ورقہ بن نوفل کہنے لگے ۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں جوان اور توانا ہوتا کاش میں اُس وقت زندہ رہوں جب آپ ﷺ کی قوم آپ ﷺ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میری قوم مجھے نکال دیں گی ؟ ورقہ بن نوفل کہنے لگے جی ہاں۔
جب کوئی بندہ اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپﷺ لائے ہے تو اس سے دشمنی ہی کی گئی۔ اگرمجھے آپ ﷺ کا زمانہ نصیب ہوا تو میں آپﷺ کی بھرپور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل جلد ہی وفات پاگئے اور وحی کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا۔یہ اعزاز بھی اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہکو حاصل ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ آپﷺ پر ایمان لائیں ۔
جب لوگ آپ ﷺ کو جھٹلاتے اور ایذا اور تکلیفیں دیتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کا غم ہلکا کر دتیں اور ہمت حوصلہ بڑھاتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رفاقت کے چوبیس سال گزارنے کے بعد اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہ بعث دسویں سال ہجرت مدینہ منورہ سے تین سال پہلے چونسٹھ سال اور چھ ماہ کی عمر میں اس دینائے خاقی کو خیر باد کہہ گئیں ۔
انہیں مکہ مکرمہ کے مشہور قبرستان ججنت العلمی میں دفن کیا گیا۔ ان کی تدفین کے وقت حضور سیدنا رسول اللہ ﷺ خود قبر میں اُترے ۔حضور سیدنا رسول کریم ﷺ کی تمام اولاد اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہا سے ہوئی ۔ سوائے صاحبزادہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے۔ اُمّ المُؤمنین حضرت سیدّہ خدیجتہ الکُبری رضی اللہ عنہااسلام کی عظیم الشان خاتون تھی۔ اللہ تمام امت مسلمہ کی خواتین ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu