Open Menu

Hazrat Umm E Hakeem RA - Article No. 3322

Hazrat Umm E Hakeem RA

حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا - تحریر نمبر 3322

” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام حکیم کی اس خدمت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ان کی کوشش سے عکرمہ بن ابی جہل مسلمان ہوئے۔ “(موطا امام مالک)”جن کی توحید پرستی نے خانہ ابو جہل میں ایمان اور شجاعت کی شمع روشن کی ۔“

منگل 25 فروری 2020

عنایت عارف
تاریخ میں ام حکیم رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور ہیں ۔باپ کا نام حارث بن ہشام تھا اور والدہ فاطمہ بنت الولید تھیں۔ حضرت خالد بن ولید ان کے حقیقی ماموں تھے ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے شادی ہوئی تھی۔شروع میں اسلام کی سخت دشمن تھیں کیونکہ اسلام دشمنی ان کے گھر کا سب سے بڑا امتیاز بن چکی تھی۔ غزوہ احد میں کفار کے ساتھ شریک تھیں۔
8ھ میں فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا مگر ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہل خوف کی وجہ سے یمن کی طرف فرار ہو گئے ۔حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اپنے شوہر کے لئے امان کی درخواست پیش کی ۔رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے ہی تمام دشمنوں کے لئے معافی کا اعلان کر چکے تھے ام حکیم کی خواہش پر عکرمہ کو بھی امان مل گئی۔

(جاری ہے)

چنانچہ ام حکیم رضی اللہ عنہا نے خود یمن کا قصد کیا اور عکرمہ کو ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عکرمہ کو دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے ۔عکرمہ نے خلوص نیت سے اسلام قبول کیا۔
اس کے بعد حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دامن سے اسلام دشمنی کا داغ مٹانے اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی غرض سے تمام غزوات میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا اور ہر موقع پر بہادری اور شجاعت کا قابل تعریف ثبوت دیا۔
جب خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رومیوں سے جنگ چھڑ گئی تو حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ ام حکیم رضی اللہ عنہ کے ساتھ لشکر اسلامی میں شامل ہو گئے ۔اور اجنادین کے معرکہ میں جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا نے عدت پوری کرنے کے بعد خالد بن سعید بن العاص سے نکاح کر لیا۔آپ کا دوسرا نکاح دمشق کے قریب ہوا تھا جہاں ہر وقت رومیوں کے حملے کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔
ام حکیم رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سے کہا کہ رسم عروسی کو سردست ملتوی کر دیا جائے ۔
مگر خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے اس جنگ میں شہادت کا پورا یقین ہے اس لئے میں رسم عروسی کو ملتوی کرنا پسند نہیں کرتا چنانچہ ایک پل کے قریب یہ رسم ادا ہوئی یہ پل ابھی تک قنطرةُ ام حکیم کے نام سے مشہور ہے ۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی ابھی لوگ بمشکل دعوت ولیمہ سے فارغ ہی ہو پائے تھے کہ رومی فوج نے حملہ کر دیا اور قرب وجوار کی فضا تلواروں کی جھنکار سے گونج اٹھی ۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ معاً ہتھیار سجا کر میدان جنگ میں نکلے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہو گئے ۔جب حضرت ام حکیم رضی اللہ عنہا کو اس سانحہ کی اطلاع ملی تو وہ شیر دل دلہن بپھر کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔اس وقت تلوار تو نہ مل سکی اپنے خیمے کی چوب اکھاڑ کر جدید طرز کے اسلحہ جنگ سے لیس رومیوں پر ٹوٹ پڑیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سات رومی سپاہیوں کو موت کی گہری نیند سلادیا۔

اس بہادر خاتون کی زندگی میں ہمارے لئے یہ درس پوشیدہ ہے کہ اس مسلمان عورت جہاں بھی ہو اور جس حالت میں بھی ہو وہ اپنی غیرت اور حمیت کا عملی ثبوت دینا خوب جانتی ہے ۔وہ اگر دلہن کے لباس میں بھی ہوتو اس حالت میں بھی اپنے فرض سے ایک لمحہ کے لئے غافل نہیں رہتی اور وہ سہاگ کو چوڑیوں کو پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیتی ۔مسلمان زندگی کے میدان میں مجاہدین کر جیتا ہے اور اس کی شریک حیات کسی صورت میں شرف جہاد سے محروم رہنا گوارہ نہیں کرتی جب اسے فرض پکارتاہے تو دنیا کی محبت اور تعلقات کی کشش اس کے راستے میں دیوار بن کر حائل نہیں ہو سکتی خدا کرے ہماری خواتین میں یہی جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ زندگی کے چمن زار کو میدان جہاد سمجھ کر جینے کا قرینہ سیکھ جائیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu