Open Menu

Hazrat Umme Salma Raziallah Anha - Article No. 3305

Hazrat Umme Salma Raziallah Anha

حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا - تحریر نمبر 3305

ٓآپ کا اصل نام ہند تھا اور کنیت ام سلمہ مشہور تھی۔

بدھ 5 فروری 2020

عنایت عارف
ٓآپ کا اصل نام ہند تھا اور کنیت ام سلمہ مشہور تھی۔ خاندان بنی مخزوم سے تھیں۔ باپ کا نام ابی امیہ سہیل اور ان کی والدہ عاتکہ بنت عامر بنو فراس سے تھیں۔ آپ کے والد فیاضی اور دریادلی کی وجہ سے زادالراکب کے نام سے مشہور تھے کیونکہ وہ جب بھی سفر پر جاتے تو پورے قافلے کے اخراجات خود برداشت کرتے تھے آپ کا پہلا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رضائی بھائی عبداللہ بن عبدالاسد سے ہوا۔
آغاز نبوت میں شوہر کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہوئیں۔ اسلام لانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کی۔واپسی کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ مدینے کی طرف ہجرت فرمائی چنانچہ آپ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔

(جاری ہے)

جب انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ ہجرت کا قصد کیا تو ان کے خاندان والوں نے سختی سے روک دیا۔ چنانچہ ان کے شوہر بیوی اور بچے سلمہ کو چھوڑ کرتنہا چلے گئے یہ روزانہ گھر سے باہر نکل کررویا کرتی تھیں۔

آخر کئی دن کے بعد خاندان والوں نے ترس کھا کر انہیں جانے کی اجازت دی تو تنہا روانہ ہوگئیں۔ کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ نے انہیں تنہا جاتے دیکھا تو ازراہ ہمدردی ساتھ ہولیا۔ راستے میں جب پڑاؤ ہوتا تو وہ اونٹ کھڑا کر کے کسی درخت کے نیچے چلا جاتا۔ جب روانگی کا وقت آتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر ہٹ جاتا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف آدمی کبھی نہیں دیکھا۔
وادی قباء کے نزدیک عثمان انہیں چھوڑ کر واپس چلا گیاجب وہاں لوگوں کو معلوم ہوا کہ ابوامیہ ایسے معزز رئیس کی بیٹی اس حالت میں ہجرت کرکے آئی ہے تو انہیں سخت حیرت ہوئی۔ ہجرت کے چوتھے سال ان کے شوہر وفات پاگئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تووہ بات یاد کی جس کو وہ مجھ سے بیان کرتے تھے اور میں نے دعا شروع کی تو جب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوند! مجھے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے بہتر جانشین دے تو دل کہتا کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہا سے بہتر کون مل سکتا ہے ؟ لیکن میں نے دعا کو پڑھنا شروع کردیا تو ابو سلمہ رضی اللہ عنہا کے جانشین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔
عدت کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نکاح کا پیغام دیا تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا کہ کچھ عذر ہیں۔ میں بڑی غیرت مند عورت ہوں، پھر میرے بچے ہیں اور میری عمر بھی کافی ہے مگر رحمتہ للعالمین نے سب عذر قبول فرما لیے۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے لڑکے عمر نے خطبہ نکاح پڑھااور آپ اُم المومنین کے زمرے میں شامل ہوگئیں۔
عمر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑے ذوق وشوق سے خدمت کرتی رہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے مکان میں تشریف لاتے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بستر آپ کے جانماز کے سامنے بچھتا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کو اس شرط پر آزاد کیا تھا کہ جب تک سرور دوعالم زندہ رہیں ان کی خدمت لازمی ہوگی۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے فہم وفراست کی مورخین نے بہت تعریف کی ہے۔ صلح حدیبیہ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے صلح کرلی اور صلح کی شرائط عام مسلمانوں کے نزدیک اچھی نہ تھیں اس لئے لوگ کچھ کبیدہ خاطر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا مگر لوگ افسردگی کے عالم میں بیٹھے رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر آکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر خود نکل کر قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لئے بال منڈوائیں۔
آپ کے ایسا کرنے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں بدل سکتا چنانچہ سب نے اسی وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کی اور ہر شخص ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔ بظاہر تو یہ معمولی سا واقعہ ہے مگر حقیقت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی خدادادذہانت سے ایک بہت بڑا مسئلہ حل کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عالم لوگوں کی نفسیات کو کس گہرائی سے سمجھتی تھیں۔
اکثر بزرگ مورخین نے لکھا ہے کہ عورتوں کی ساری تاریخ اصابت رائے کی ایسی شاندار مثال پیش نہیں کرسکتی۔ 11ھ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سخت علیل ہوئے اور طبیعت بہت زیادہ خراب ہوئی تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا چیخ اٹھیں ، سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور کہا۔ یہ مسلمانوں کاشیوہ نہیں۔ ایک روز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے حبشہ کے گرجوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں مجسمے اور تصویریں ہوتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں میں جب کوئی نیک انسان مرتا ہے تو وہ اس کے مدفن کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں اور اس کابت بنا کر اس میں کھڑا کرتے ہیں۔
قیامت کے دن اللہ کے نزدیک یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے۔61ھ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خواب میں دیکھا کہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان حالت میں تشریف لائے ہیں۔ سراور ریش مبارک پر غبار پڑا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا حال ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسین رضی اللہ عنہ کے مقتل سے آرہا ہوں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب بیدار ہوئیں تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے اور بے تاب ہوکرفرمایا کہ اہل عراق نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ خدا ان کو قتل کرے۔ انہوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو ذلیل کیا۔ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے۔
63ھ میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے84 برس کی عمر میں وفات پائی۔ ان دنوں ولید بن عتبہ مدینہ کا گورنر تھا۔
چونکہ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ وہ میرے جنازے کی نماز نہ پڑھائے اس لیے وہ جنگل کی طرف نکل گیا اور اپنی جگہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دیا۔
آپ کا علمی مرتبہ بہت بلند تھا آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز میں قرآن پڑھ سکتی تھیں۔ علم حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ کوئی ان کا مدمقابل نہ تھا۔ انہیں محدثین صحابہ کے تیسرے طبقے میں شامل کیا جاتا ہے۔
وہ مجتہد تھیں اور ان کی رائے بڑی صائب اور وزنی ہوتی تھی۔ کہاجاتا ہے کہ اگر ان کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو کتاب بن سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کی خاص فضیلت یہ ہے کہ ان کے فتووں پر بالعموم سب اتفاق کرتے ہیں اس سے ان کی عقل ودانش، فہم وتدبر ، قوت فیصلہ انکی نکتہ سنجی کا ثبوت ملتا ہے۔ انہوں نے کئی ایک کبائر صحابہ کے فیصلوں کی اصلاح کی ہے جن کا ذکر اکثر کتابوں میں ملتا ہے۔
جن میں مشہور ومعروف بزرگوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے علم حدیث حاصل کیا ان کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر عبد الرحمان بن ابوبکر رضی اللہ عنہا حضرت اسماہ بن زید رضی اللہ عنہ ، رافع رضی اللہ عنہ ، حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بہت مشہور ہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بے حدپاکباز، زاہدہ اور عابدہ تھیں۔
ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتی تھیں۔ یہ شرف ان ہی کو حاصل ہے کہ آیہ تطہیر ان کے گھر میں نازل ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ الزاہرا ء رضی اللہ عنہا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلا کر کمبل اوڑھایا اور فرمایا : خدایا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے ناپاکی کو دور کر اور ان کو پاک کر۔ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سنا تو عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم اپنی جگہ پر ہواور اچھی ہو۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا خصوصیت کے ساتھ سنت نبوی کی سختی سے پابندی کرتی تھیں اور عام روزہ مرہ کی باتوں میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کو پیش نظر رکھتی تھیں۔
حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہا کا یہ شرف ہی کم نہیں کہ وہ شہنشاہ کونین کی محبوب زوجہ مطہرہ تھیں۔
مگر آغوش اسلام میں آنے کے بعد اللہ نے انہیں علم وفضل ،تقویٰ وطہارت،وسعت قلب ونظر، اصابت رائے اور بے مثل فہم وفراست کی جس دولت سے نوازا اور صحبت نبوی میں رہنے سے جس طرح یہ جو ہر چمکے وہ ہماری تاریخ کا لازوال سرمایہ ہیں۔ ان کے پاکیزہ کر دار عمل کی ایک معمولی سی جھلک آج بھی ہماری دنیا کو بدل سکتی ہے۔ ان بلند رتبہ ، بزرگ اور پاک خواتین نے جید عالم صحابہ اور فضلاء کے سینوں کو علم دین کی تجلیات سے معمور کردیا اور وہ ہمیشہ اسی سعادت پر نازاں رہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمان عورتیں خود سوچ سکتی ہیں کہ وہ اگر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں گم ہو کر کندن بن جائیں تو آج بھی فرش خاک سے لے کر عالمِ نور تک بلند ترین مراتب اور درجات ان کے لئے چشم براہ ہیں۔ کاش ! یہ اس شمع نور سے اپنے نہان خانہ دل کو روشن کرسکیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu