Open Menu

Ibn Rushd (Averroes) - Article No. 3497

Ibn Rushd (Averroes)

ابن رشد(ایوروز) - تحریر نمبر 3497

متاثر کن اسلامی مذہبی فلسفی جنہوں نے اسلامی روایات اور یونانی افکار کی ایک وحدت قائم کی

بدھ 30 ستمبر 2020

مسعود مفتی
متاثر کن اسلامی مذہبی فلسفی جنہوں نے اسلامی روایات اور یونانی افکار کی ایک وحدت قائم کی۔ انہوں نے ارسطو کے کاموں اور افلاطون کی ری پبلک پر کئی ایک تبصرے اور خلاصے پیش کیے جن کا اثر و رسوخ مابعد آنے والی صدیوں تک قائم رہا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مذہبی قانون اور فلسفے کے درمیان سمجھوتے پر ایک فیصلہ کن مقالہ تحریر کیا وہ قرطبہ کی ایک عظیم مسجد کے امام بھی ہے۔

ابو الواحد محمد ابن احمد ابن محمد ابن رشد جنہیں مغرب میں ایوروز (Averroes) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور اہل مغرب میں مقبول ہیں ․․․ انہوں نے 1126بعد از مسیح میں قرطبہ میں جنم لیا تھا۔ انہوں نے قرطبہ کے ایک نمایاں اور ممتاز خاندان میں جنم لیا تھا یہ خاندان ارکان جیوری (منصفین) پر مشتمل تھا۔

(جاری ہے)

انہیں احادیث مبارکہ پر عبور حاصل تھا اور اس کے علاوہ فقہ پر بھی عبور حاصل تھا۔

انہوں نے طب اور فلسفے کے میدان میں تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے قرطبہ کے چیف قاضی کے عہدے تک رسائی حاصل کی تھی۔ پہلے یہ عہدہ ان کے دادا کے پاس بھی رہا تھا۔ 1182ء میں انہیں خلیفہ ابو یعقوب یوسف کا ذاتی معالج مقرر کیا گیا تھا اور 1184ء میں اس کے بیٹے کا ذاتی معالج مقرر کیا گیا تھا۔ خلیفہ وقت نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ یونانی فلاسفر ارسطو کے فلسفے کی تشریح پیش کریں جس کی اس وقت سخت ضرورت در پیش تھی۔
یہ ایک ایسا کام تھا جس پر انہوں نے کئی برس صرف کیے تھے حالانکہ اس دوران وہ بطور قاضی ایک مصروف زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تمام ترتبصرے لاطینی زبان میں ہیں جو ارسطو کے کاموں پر مشتمل ہیں ۔ان تبصروں نے آنے والی صدیوں میں یہودیوں اور عیسائیوں پر عظیم اثرات مرتب کیے تھے۔ انہوں نے الفارابی اور ابو علی سینا کا فلسفہ استعمال کیا تھا۔ وہ گراں قدر قوت مشاہدہ کے حامل تھے۔

ابن رشد نے طب کی تعلیم ابو جعفر حرم التجالی سے حاصل کی تھی جن کو ارسطو کے کاموں پر عبور حاصل تھا اور قدیم معالجوں کے کاموں پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کو طبی سائنسوں کے لئے کئی ایک اصولوں اور شاخوں پر بھی دسترس حاصل تھی۔ وہ طبی تشخیص سر انجام دینے میں ماہر تھے اور ان کا علاج کامیابی سے ہمکنار ہوتا تھا۔ وہ سائنسدانوں کے اجلاسوں کی سر پرستی سر انجام دیتے تھے اور ان اجلاسوں میں ابن طفیل․․․․․ابن اظہر․․․․․ابن یوسف یعقوب جیسی ہستیوں کے علاوہ ابن رشد بذات خود شرکت کرتے تھے۔
یہ ابو جعفر تھے جنہوں نے دانشورانہ نشوونما میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کا رحجان قدیم سائنسوں کی جانب تھا اور اس رحجان کی بدولت انہوں نے فلسفیانہ مسائل کو سائنسی نقطہ نظر کے تحت دیکھا۔ ابن رشد ․․․․․ابن طفیل اور ابو یوسف کے درمیان اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کے دوران شہزادہ ابو یوسف نے دریافت کیا کہ:۔
”اگر آسمان ایک عنصر ہے جو کہ ہمیشہ سے وجود پذیر ہے اور ہمیشہ وجود پذیر رہے گا یا اگر یہ آغاز رکھتا ہے!“
ابن رشد پہلے پہل اس سوال سے پریشان ہوئے لیکن مابعد ان کا اعتماد واپس لوٹ آیا اور انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ بحث میں حصہ لیا اور انہوں نے ابو یعقوب یوسف کے دور کے دوران شہزادہ کی حمایت حاصل کی۔
یہ قصہ ان نزدیکی تعلقات کو ظاہر کرتا ہے جو اس وقت علم فلکیات اور مابعد الطبیعات کے مسائل کے درمیان موجود تھے۔ انہوں نے المہد کی سلطنت میں وسیع تر سفر سر انجام دیا جہاں پر انہوں نے اپنے کئی ایک کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ 1182ء میں وہ مراکش چلے آئے تھے اور انہوں نے ابو طفیل کی جگہ حاصل کی تھی جو ابو یعقوب کے چیف معالج (معالج اعلیٰ) تھے اور جہاں پر انہیں قرطبہ کا عظیم قاضی مقرر کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی گئی تھی ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ابن رشد کی ملاقات ابن اعرابی سے ہوئی تھی اور انہوں نے نوجوان ابن اعرابی کی ذہانتوں کو تسلیم کیا تھا۔
ابن رشد کی طب کی کتابوں سے بڑھ کر ان کے فلسفیانہ ․․․․مذہبی․․․․اور قانونی کاموں کو پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور ان کا بڑھ چڑھ کر مطالعہ سر انجام دیا گیا تھا چونکہ وہ بنیادی طور پر علم دین کے فلاسفر تھے اور قرآنی سائنس کے مفکر تھے۔
فلاسفی (فلسفہ)
ابن رشد کی فلسفیانہ تحریروں کو دو گروپوں میں منقسم کیا جاتا ہے۔
ارسطو کے کاموں پر ان کے تبصرے!
ان کی ذاتی تحریریں․․․․جو فصل المقامات․․․․․کتاب الکشف․․․․اور تہافت التہافت کے نام سے مشہور ہیں۔

ارسطو پر تبصرہ نگار ہونے کے ناطے ابن رشد نے ارسطو کے اپنے افکار کو بحال کرنے کی کوشش سر انجام دی اور الفارابی اور ابن سینا کی نیو افلاطونی تشریحات کی جگہ لینے کی کوشش کی۔ ابن رشد ارسطو ازم کو ایک سچائی کا درجہ دیتے ہیں۔ اس قدر سچائی جس قدر سچائی تک انسانی دماغ ذہن رسائل حاصل کر سکتا ہے۔ مابعد الطبیات کے ایک پہرے کا حوالہ دیتے ہوئے․․․․جو عربی زبان میں ہے اور جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ:۔

”مابعد الطبیات کی شکل اس حقیقت سے ظاہر ہے کہ یہ مکمل سچائی یا اس کے کسی اہم ترین حصہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی“
اس ضمن میں ابن رشد تحریر کرتے ہی کہ:۔
”ارسطو کا مطلب یہ ہے کہ سچائی حقیقت پر اس گرفت کو مضبوط کرنے کا عمل زمانہ قدیم سے اس کے دور تک ناممکن رہا ہے ۔یہ اس طرح ہے جیسے ہم یہ اشارہ دے رہے تھے کہ وہ بذات خود سچائی حقیقت پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا یا کم از کم زیادہ تر سچائی حقیقت پر اپنی گرفت مضبوط کر چکا تھا اور یہ کہ جو کچھ پیش روؤں نے اپنی گرفت میں لیا تھا وہ موازنے کے اعتبار سے بہت کم تھا خواہ یہ کل تھا یا اہم ترین حصہ تھا۔
بہترین امر یہ ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ وہ تمام تر سچائی حقیقت کو اپنی گرفت میں لینے میں کامیاب ہوا تھا اور کل سچائی حقیقت سے میری مراد وہ مقدار ہے جس پر انسانی فطرت اپنی گرفت مضبوط کرنے کے قابل ہے“
اس اعلان کا اشارہ محتاط انداز میں سمجھنا چاہیے!
”ارسطو نے نہ صرف انسانی علم کو عظیم ترقی سے ہمکنار کیا․․․․․بلکہ وہ اسے کاملیت کی ممکنہ حد تک لانے میں بھی کامیاب ہوا۔
اس نے وہ تمام سچائی حقیقت وضاحت کے ساتھ پیش کی جس تک انسانی رسائی ممکن تھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ جس کا ثبوت پیش کیا جا سکتا تھا۔ (برہان)“
اگرچہ ابن رشد ارسطو کے کاموں کا زیادہ مکمل علم رکھتے تھے اور انہوں نے زیادہ محتاط انداز میں اس کا تجزیہ سر انجام دیا تھا اور زیادہ درستگی کے ساتھ اس کا تجزیہ سر انجام دیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیش روؤں الفارابی اور ابن سینا سے بڑھ کر محتاط اور درست انداز اپنایا تھا۔
انہوں نے ارسطو کو منطق کے ماسٹر(صاحب المنطق) کی حیثیت سے دیکھنا جاری رکھا تھا۔
ابن رشد نے اپنی ذاتی تحریروں میں اس دور کے مذہبی مسائل کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ ابن رشد نے وحی (Revelation) کی حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ وہ اس نقطہ نظر کے مالک تھے کہ قرآن اور حدیث فطرت کے مطالعہ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ اس نقطہ نظر کے بھی حامل تھے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم فطرت اور وحی کی زبان کے معانی دونوں کو سمجھیں۔

ابن رشد نے کتاب الکشف بھی تحریر کی تھی اور کشف نے ان کی تحریر تہافت التہافت (Tahafut-Al-Tahafut) کی راہ ہموار کی تھی۔
علم فلکیات (Astronomy)
ارسطو کی مابعد الطبیات پر اپنے تبصرے میں ابن رشد نے تحریر کیا کہ
”نو جوانی کے دور میں میں یہ امید کرتا تھا کہ میرے لئے یہ ممکن ہو گا کہ میں اس تحقیق و تفیش (علم فلکیات کے میدان میں) کو ایک کامیاب نتیجے پرپہنچانے میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
اب اپنے بڑھاپے کے دور میں․․․․․میں امید کا دامن چھوڑ چکا ہوں․․․کئی ایک رکاوٹوں نے میرا راستہ روکا تھا لیکن میں نے اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ مستقبل کے محققین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں ضرور کامیاب ہو گا۔ہمارے دور کی علم فلکیات کی سائنس ایسا کچھ پیش نہیں کرتی جس کی وساطت سے کوئی وجود پذیر حقیقت سچائی کو اخذ کر سکے“
یہ چند لائنیں علم فلکیات کے میدان میں ابن رشد کی سوچ بچار کے جوہر کی وضاحت کرتی ہیں۔
وہ اس موضوع میں دلچسپی رکھتے تھے اور تھیوریوں کی تاریخ سے بھی واقفیت رکھتے تھے اور جو کچھ ارسطو نے اس موضوع پر کہا تھا اس کی وضاحت سر انجام دینے کی اہلیت بھی رکھتے تھے۔وہ عرب فلکیات کے ماہرین کی تحریروں سے بھی واقف تھے۔
طب کا میدان (Medicine)
ابن رشد کے فلسفیانہ․․․․مذہبی․․․․․اور قانونی کاموں کا مطالعہ ان کی طب کی کتب سے بڑھ کر سر انجام دیا گیا ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر علم دین کے حامل فلاسفر (فلسفی) تھے اور قرآنی سائنسوں کے مفکر تھے ۔
طب کے میدان کے ان کے اساتذہ میں علی ابو جعفر ابن ہارون التراجنی اور ابو مروان ابن جورایل بھی شامل تھے ۔طب کے میدان میں ابن رشد کے بڑے کام”الکیات“1153ء اور 1169ء میں تحریر کیے گئے تھے۔
ابن رشد نے گالن(Galen) کے کاموں کی تلخیص بھی پیش کی تھی اور اس کے کچھ حصے عربی مسودوں میں محفوظ ہیں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu