Open Menu

Imamat Ka Haqdar Kon - Article No. 3358

Imamat Ka Haqdar Kon

امامت کا حقدار کون - تحریر نمبر 3358

لوگوں کا امام وہ ہے جو اللہ کی کتاب کو سب سے عمدہ پڑھتا ہو ۔

بدھ 1 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لوگوں کا امام وہ ہے جو اللہ کی کتاب کو سب سے عمدہ پڑھتا ہو ۔اگر قرأت قرآن میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امامت کرے جس کو سنت کا سب سے زیادہ علم ہو۔ اگر اس صفت میں بھی سب یکساں ہوں تو اس صورت میں امامت وہ شخص کرائے جو ہجرت کرنے میں آگے ہو ۔
اگر اس میں بھی سب ایک جیسے ہوں تو پھر وہ شخص امامت کا حقدار ہے جس نے پہلے اسلام قبول کیا ہو ۔جہاں کوئی آدمی پہلے سے امامت کرا رہا ہوتو دوسرا آدمی امام بننے کی ہر گز کوشش نہ کرے ۔اسی طرح کسی کے گھر میں مہمان ہونے کی صورت میں میزبان کی خاص نشست پر اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔

(جاری ہے)


گرامی قدر سامعین! نماز با جماعت کی ادائیگی کے لئے امام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔

امام کے بغیرجماعت کا تصور نا ممکن ہے ۔نماز کی عظمت ،فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفس نفیس امام کے انتخاب کا ایک اعلیٰ معیار مقرر فرما دیا ہے تاکہ مقتدی پورے اطمینان اور دلجمعی سے اس کی اقتداء میں نماز ادا کریں ۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے ساڑھے چودہ سو سال سے عالم اسلام کی ہر مسجد کے لئے نہ صرف یہ کہ امام کا تقرر ہوتا رہا ہے بلکہ موٴذن بھی رکھا جاتاہے ۔
الحمد اللہ ثم الحمد اللہ خیرو برکت کا یہ عمل اہل اسلام کی تنظیم وتنسیق کو کافی حد تک اپنی گرفت میں رکھے ہوئے ہے ۔محلے کی مسجد تک اس کی موجودگی نہایت خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے ۔ہماری دانست میں یہ ایک ایسی خوبی ہے جو صرف عالم اسلام کو نصیب ہے اور باقی دنیا دور سے ہی اس کا نظارہ کر سکتی ہے۔ آج کے مادہ پرستی کے ماحول میں بھی مساجد کے ائمہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔
اُن کی توقیرو تعظیم کا مکمل تحفظ کیا جاتاہے ۔ناقابل تردید حقیقت ہے یہ کہ امامت کا منصب نہایت عظیم الشان اور رفیع المنزلت منصب ہے کہ خود رحمت تمام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات مطہرہ میں نماز پنجگانہ کی امامت فرماتے رہے ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مسند خلافت کے لئے انتخاب بھی اس شرف امامت کی بنیاد پر ہوا۔ اس موقع پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جملہ ایک یاد گار جملہ ہے کہ جس شخصیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات اقدس میں اپنے مصلیٰ پر امامت صلوٰة کے لئے منتخب فرمایا ہم اسی کو امت کے احوال کی باگ ڈور سو نپیں گے ۔
پھر امامت وخلافت کا چولی دامن کا ساتھ رہا کہ خلیفہ وقت ہی امامت کا منصب سنبھالتے تھے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت تو عین اس وقت ہوئی جب آپ نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے اور جناب علی المرتضیٰ کو اس وقت شہید کیا گیا جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امامت نماز کے لئے کوفہ کی جامع مسجد میں تشریف لا رہے تھے ۔اموی اور عباسی دور خلافت میں بھی پورے اہتمام کے ساتھ یہ سلسلہ جاری وساری رہا۔

حضرات گرامی!نماز کی امامت اہم ترین ذمہ داری ہے ۔اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا ایک معیار مقرر فرما دیا ہے جو خالصةً دینی اور شرعی اقدار پر مبنی ہے ۔دنیوی وجاہت اور ثروت ودولت کا اس میں کوئی دخل نہیں چنانچہ امام کی اہم ترین خوبیوں میں اولین خوبی یہ ہے کہ جو شخص قرآن حکیم کو پڑھنے اور اس کی تلاوت کا خوب ماہر ہو ۔
لفظ تفضیل یعنی(Superlative Degree)ہونے کی وجہ سے اسی بات کا متقاضی ہے ۔اور سنن ابی داؤد میں اس کے ساتھ قرأة کا لفظ بھی ہے یعنی وہ قرأت قرآن میں سب سے مقدم ہو اور نہایت پختہ ہو ۔اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ وہ شخص قرأت وتجوید کے قواعد سے اچھی طرح واقف ہو ۔مطالب قرآن سے آگاہ ہو ۔وصل وفصل کے اصول سے مکمل طور پر باخبر ہو۔ نمازوں میں مطلوب اور مسنون قرأت سہولت کے ساتھ کر سکتا ہو ۔
نمازوں میں قرأت قرآن ہی اہم ترین فرض ہے اس لئے معیار میں اسے مقدم فرمایا گیا ہے ۔پھر فرمایا کہ اگر لوگ قرأت قرآن میں برابر ہوں تو پھر اس کو مسند امامت کے لئے آگے لایا جائے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ جاننے والا ہو ۔یعنی نماز اور دیگر شرعی امور کا علم زیادہ رکھتا ہو ۔فرائض ،واجبات ،سنن اور آداب اور اسی طرح طہارت اور حلال وحرام سے اچھی طرح آگاہ ہو ۔

تیسرے مرحلہ پر فرمایا کہ اگر سنت کے علم میں سب ہم پلہ ہوں تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ ہجرت میں کون مقدم ہے ۔آغاز اسلام میں ہجرت یعنی دین کی حفاظت کے لئے اپنے وطن اور گھربار کو چھوڑ دینا اہم ترین فرائض میں شامل تھا اور دین سے محبت کا ایک اعلیٰ معیار تھا۔لہٰذا اس وقت کے لحاظ سے اس کو بھی منصب امامت کے لئے استحقاق کا درجہ دیا گیا ۔
فتح مکہ کے بعد فرض ہجرت موقوف ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرما دیا کہ فتح مکہ کے بعد اب ہجرت کی وہ حیثیت بر قرار نہیں ۔محسوس یہ ہوتاہے کہ آج کے اس دور میں یہ جزو غیر موٴثر ہے ۔پھر ارشاد ہوا کہ اگر ہجرت میں سب یکساں ہوں تو پھر جو عمر میں سب سے بڑا ہو ،اُسے اس منصب کے لئے مقرر کر دیا جائے ۔وجہ یہ ہے کہ بڑی عمر کو حسنات اور نیکیوں کی کثرت کا سبب گردانا جاتا ہے جو ورع اور تقویٰ کی دلیل ہے ۔

نیز ایک اہم ترین ہدایت یہ فرمائی کہ جہاں پر کوئی قاری ،عالم اور متقی آدمی تسلسل سے امامت کے فرائض سر انجام دے رہا ہے تو وہاں کوئی اور آدمی اس کی اجازت کے بغیر لوگوں کی امامت نہ کرائے کہ اس میں اس کی دل شکنی ہو گی اور شاید انتظامی اعتبار سے بھی یہ اقدام درست نہیں ہو گا۔ ہاں اگر امام مقرر کسی صاحب علم کو خود ہی امامت کی درخواست کرے تو اب کوئی حرج نہیں ۔
اور آخری جملہ اس حدیث مبارک کا نہایت ہی خوبصورت ہے اور انسان کی عزت نفس،اس کے وقار اور اہل وعیال میں اس کی حیثیت کا محافظ ہے ۔فرمایا کہ کوئی بھی شخص جب کسی کے گھر میں مہمان کی حیثیت سے جائے تو اس کی اجازت کے بغیر اس کی مخصوص نشست یا مخصوص بستر پر مت بیٹھے ۔مسجد کے امام اور گھر کے بڑے کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنا دینی معاشرت کا نہایت تابناک پہلو ہے ۔

محترم سامعین!یہ ہدایت دور رس نتائج کی حامل ہے ۔انسان کی خود داری اور مثبت رجحانات کو صحیح اور درست قرار دینے کے ساتھ باقاعدہ اس کا تحفظ کر رہی ہے ۔سلام ہو اس ذات اقدس پر جس نے رہتی دنیا تک کے لئے نہایت معقول اور قابل عمل نظام سے انسان کو نواز دیا۔ صلی اللہ علیہ وعلیٰ اٰ لہ واصحابہ وبارک وسلم،اور برادران اسلام ۔آخر میں ہم آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایسا ارشاد گرامی آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو امامت کی ذمہ داریوں اور نزاکتوں اور باریکیوں کو اجاگر کر رہا ہے ۔
محدث کبیر امام ابو داؤد رحمة اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہمیں یہ حدیث سنا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن کی نمازوں کو اللہ قبول ہی نہیں فرماتے ۔ایک وہ آدمی جو لوگوں کی امامت کرائے بلکہ لوگ(اس کی سیرت وکردار میں نقص کی وجہ سے )اُس سے نالاں ہوں ۔
دوسرے وہ آدمی جو وقت نکل جانے کے بعد نماز کے لئے آئے اور تیسرے وہ آدمی جو کسی آزاد آدمی کو غلام بنالے اور ایک دوسری حدیث میں اس عورت کو بھی شامل کیا گیا ہے کہ جس کا خاوند رات بھر اُس سے ناراض رہے ۔جبکہ ایک اور روایت میں آپس میں لڑنے والے دو اشخاص کو بھی اسی وعید کے تحت ذکر کیا گیا ہے ۔اللہ رب العزت ہمیں صراطِ مستقیم کی ہدایت عطا فرمائے۔آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu