Open Menu

Jab Naiki Se Khushi Or Gunah Se Dukh Ho - Article No. 3366

Jab Naiki Se Khushi Or Gunah Se Dukh Ho

جب نیکی سے خوشی اور گناہ سے دکھ ہو - تحریر نمبر 3366

جب تمہیں اپنی نیکی اچھی لگے اور گناہ بُرا لگے تو تم موٴمن ہو۔

بدھ 8 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
یہ موضوع دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی سے لیا گیا ہے۔ جسے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے ۔اور اس کے الفاظ یوں ہیں :جب تمہیں اپنی نیکی اچھی لگے اور گناہ بُرا لگے تو تم موٴمن ہو۔ مطلب ہے کہ اگر قلب وضمیر میں نیکی اور بُرائی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت موجود ہو جس کی علامت یہ ہے کہ نیکی کرنے کے بعد فرحت وشادمانی کا احساس ہو اور گناہ ہو جائے تو طبیعت بوجھل اور دکھ کا احساس ہو تو جانئے کہ ایمان کا دیا روشن ہے ۔
اور اس روشنی کی موجودگی میں یہ نہیں ہو سکے گا کہ بُرائی ،نیکی کی جگہ اور نیکی بُرائی کی جگہ لے لے ۔یہ احساس دراصل نیکی اور گناہ کو پرکھنے کی کسوٹی اور معیار ہے جو ہر صاحب ایمان کے دل میں موجود ہے اور اللہ رب العزت کی طرف سے ایک گرانقدر انعام ہے ۔

(جاری ہے)

امام طبرانی رحمة اللہ علیہ نے المعجم الکبیر اور امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اپنی مسند میں واقعہ کی صورت میں قدرے تفصیلی حدیث نقل کی ہے جس سے اس بات کی مزید وضاحت ہوتی ہے ۔

صحابی رسول حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ارادہ یہ تھا کہ آج میں آپ سے نیکی اور گناہ کے بارے ایک ایک بات دریافت کروں گا ۔میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہت سے لوگ موجود ہیں:میں نے لوگوں کی گردنوں کو پھلانگنا شروع کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو سکوں ۔

لوگ میرے آڑے آئے اور کہنے لگے :وابصہ رک جاؤ،یہ طریقہ درست نہیں ہے۔میں نے کہا:میں وابصہ ہوں ۔مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو لینے دو ۔میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے بے انتہاء محبت کرتا ہوں ۔اس لئے قریب ہونا چاہتا ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا:وابصہ قریب آجاؤ ۔وابصہ اور قریب آجا ؤ۔کہتے ہیں کہ میں آپ کے اس قدر قریب ہو کر بیٹھا کہ میرے گھٹنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھٹنوں سے چھو گئے ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:وابصہ!میں تمہیں بتاؤں کہ تم مجھ سے کیا دریافت کرنے آئے ہو یا تم ہی مجھ سے پوچھو گے ؟میں نے عرض کی :یا رسول اللہ!آپ ہی ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا:آج تم مجھ سے نیکی اور گناہ کے بارے دریافت کرنے آئے ہو ۔میں نے عرض کی:جی ہاں ۔بالکل یہی بات ہے ۔اس کے بعد آپ نے اپنے دست مبارک کی تین انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا اور میرے سینے پر ٹھونکتے ہوئے ارشاد فرمایا:وابصہ!اپنے دل سے فتوی لے لیا کرو۔
نیکی وہ ہے کہ جس سے دل کو اطمینان اور نفس کو سکون ملے اور گناہ وہ ہے جو دل میں خلش پیدا کرے اور سینے میں اضطراب اور پریشانی کا سبب بنے ،خواہ تجھے لوگ فتوی ہی کیوں نہ دیں۔“
سامعین محترم!غور فرمایئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح حکیمانہ انداز میں ایک لمبے مسئلہ کو چند جملوں میں حل فرما دیا۔ غالباً صحابی رسول نیکیوں اور گناہوں کی فہرست جاننا چاہتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی طویل فہرست کی بجائے ایک معیار اور کسوٹی ان کے حوالے فرما دی کہ اس سے اپنے اعمال کو پرکھ لیا کرو۔ اور اپنے ہی مفتی سے فتوی لے لیا کرو۔ حدیث شریف کا آخری جملہ”کہ خواہ لوگ تجھے فتوی ہی کیوں نہ دیں۔“ایک اور بڑی گتھی کو سلجھا رہا ہے اور وہ یہ کہ لوگ خواہ مخواہ میں تمہیں مغالطہ دینے اور نیکی اور گناہ کو خلط ملط کرنے کی کوشش کریں گے ۔
اُن کے بہلاووں میں ہر گز نہ آنا ۔دل اور ضمیر کی بات پر کان دھرنا کیونکہ لوگ غلط کہہ سکتے ہیں مگر ضمیر کبھی غلط نہیں کہہ سکتا۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ قرآن حکیم نے نیکی کو ”معروف“ جبکہ گناہ کو ”منکر“کا نام دیا ہے ۔معروف بھلی اور جانی پہچانی چیز کو کہتے ہیں ۔اس لئے قدرتی طور پر صاحب ایمان کو اس سے شناسائی ہوتی ہے وہ اس میں اپنے لئے اپنائیت محسوس کرتاہے اور اس کے پا لینے پر خوشی کا اظہار کرتاہے ۔
منکر اوپری اور غیر مانوس چیز کو کہا جاتاہے ۔احاطہ ایمان میں اس کی کوئی شناخت نہیں ہے ۔اس لئے صاحب ایمان اس سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں ۔اگر سرزد ہو جائے تو وہ دکھی ہو جاتے ہیں ۔چنانچہ ہم اپنے روز مرہ کے معمولات کو اسی کسوٹی پر پر کھ سکتے ہیں اور ان کے صحیح یا غلط ہونے کو بخوبی جان سکتے ہیں۔
ذی قدر سامعین! اتنے آسان اور یقینی معیار کے باوجود جب ہم اپنے گردو پیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ اور بُرائی کی بہتات ہے اور نیکی کی شرح بڑی ہی کم ہے ۔
وجہ اس کی نہایت ہی واضح ہے کہ ہمارے ایمان میں ضعف اور کمزوری ہے جس کی وجہ سے ہمارے دل زنگ آلود ہو گئے ہیں ۔شاید کسی حد تک ہم نیکی کی خوشی کو تو محسوس کر لیتے ہوں گے لیکن گناہ اور بُرائی کا دکھ محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔گناہ یا بُرائی کرنا دراصل نفسانی خواہش کی تکمیل کا نام ہے ۔اس لئے اس سے وقتی طور پر حظ نفس حاصل ہوتاہے ۔مگر یاد رکھئے کہ حظ نفس اور قلبی اطمینان وسکون دو الگ اور متضاد چیزیں ہیں۔
یہ حظ نفس ہی ہے جو گناہ اور بُرائی کی شرح کو بڑھا وا دے رہا ہے ۔لہٰذا بڑی ہی ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ سورة الاعراف کی آیت نمبر 201میں ہے :جو لوگ پر ہیزگار ہیں جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتاہے تو چونک پڑتے ہیں اور(دل کی آنکھیں کھول کر)دیکھنے لگتے ہیں۔
حضرات گرامی!یہ بات ہم پر مخفی نہیں کہ جس طرح نیکی اور گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ،اسی طرح ان کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے ۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہم روز مرہ کے معمولات میں قلبی سکون اور دلی اطمینان کی دولت سے مالا مال ہو سکتے ہیں لیکن ہم انہیں معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔اسی طرح بہت سی باتیں ایسی ہیں جو واقعتا دکھ اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں مگر ہم بے سوچے سمجھے ان کا ارتکاب کر لیتے ہیں اور غیر شعوری طور پر خوشی سے محروم اور دکھوں کے ہجوم میں گھر جاتے ہیں ۔
غیبت،بہتان تراشی ،چغل خوری ،سب وشتم ،طنزیہ گفتگو یہ سب دل دکھانے والے کام ہیں ۔یقینا ان سے دکھ ہی حاصل ہو گا۔
بھلے وقتوں کی بات ہے کہ انسان بہت سی نیکیاں بلا جھجھک کر لیتا تھا اور یقینی خوشی سے سر شار رہتا تھا ۔مثلاً کسی اجنبی کو مہمان بنا لینا،راہ چلتے مسافر کو گاڑی میں لفٹ دے دینا،بھٹکے ہوئے کو راستہ بتلا دینا،ٹیلیفون سے کسی کی بات کرا دینا، کسی حادثہ کی صورت میں سچی گواہی دے دینا۔
گھر کی گھنٹی یا دروازہ پر دستک ہونے پر بلا جھجھک دروازہ کھول دینا اور اسی طرح کے اور بہت سے اُمور ۔مگر اب کہاں ؟طمع ،لالچ اور خود غرضی نے ان کاموں کے سامنے بند باندھ دیئے ہیں ۔خلوص ہمدردی اور غمخواری سب کچھ مشکوک ہو کر رہ گیا ہے ۔آیئے اور نیکی کی حقیقی شادمانی اور بُرائی کی کسک کو محسوس کرنے کے لئے اپنے خود ساختہ اجتماعی رویوں کو بدلیں ۔
عمدہ اقدار کو واپس لائیں ۔خلوص ،عزت و احترام اور شفقت ومحبت پر پڑی گرد کو صاف کریں ۔بھائی بھائی بن کر رہیں اور معاشرے کی تشکیل نوکے لئے اپنا کردار ادا کریں ۔آخر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بہت ہی پیاری دعاء پڑھتے اور سنتے ہیں ۔اے اللہ مجھے ان لوگوں میں شامل فرما کہ جب وہ نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ اور جب اُن سے گناہ سرزد ہو جاتاہے تو اللہ سے بخشش مانگتے ہیں۔(آمین)

Browse More Islamic Articles In Urdu