Open Menu

Kya Zubaan Se Roza Rakhnay Ki Niyat Karna Durust Hai - Article No. 3064

Kya Zubaan Se Roza Rakhnay Ki Niyat Karna Durust Hai

کیا زبان سے روزہ رکھنے کی نیت کرنا درست ہے؟ - تحریر نمبر 3064

ہر سال رمضان المبارک کے آنے سے قبل ہی افطاری وسحری کے اوقات کے تجارتی کیلنڈر شائع ہو کر تقسیم ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔جن پر اوقات نامہ روزہ رکھنے کی نیت:”وبصوم غد نویت من شھر رمضان“کے الفاظ بھی عموما دیکھے گئے ہیں ۔جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے کل کے رمضان کے روزے کی نیت کی۔

بدھ 20 مارچ 2019


مُبشّر احمد رَبّاَنی
ہر سال رمضان المبارک کے آنے سے قبل ہی افطاری وسحری کے اوقات کے تجارتی کیلنڈر شائع ہو کر تقسیم ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔جن پر اوقات نامہ روزہ رکھنے کی نیت:”وبصوم غد نویت من شھر رمضان“کے الفاظ بھی عموما دیکھے گئے ہیں ۔جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے کل کے رمضان کے روزے کی نیت کی۔
جہاں تک نیت کاتعلق ہے تو اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔


مثلاً اگر نماز کی نیت کی طرح روزہ کی نیت نہ کی گئی اور روزہ جیسی پابندیاں اپنے اوپر عائد کرلیں اور اس کے لوازمات کو بھی ادا کرنے میں سارا دن کوئی کوتاہی نہ کی‘تو پھر بھی روزہ نہ ہو گا بلکہ فاقہ ہو گا جس کا اس کو کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
حدیث نبوی ہے :
”ام المومنین حفصہ زوجة النبی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا کوئی روزہ نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

تمام عبادات میں نیت ضروری ہے چاہے نمازہو‘زکوة ہو یا روزہ۔“
حدیث نبوی ہے:
امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں اعمال کی دو اقسام ہیں ۔
(۱) وہ اعمال جو اصل مقصد کے لئے ہوں جیسے نماز‘روزہ وغیرہ کی نیت ضروری ہے اگر نیت نہ کی جائے گی تو باطل ہونگے۔
(۲)وہ اعمال جو اصل مقصد کے لئے تو نہیں لیکن اصل مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہوں جیسے وضو اور غسل ہے ان کی نیت اگر نہ بھی کی جائے تو درست ہو گی۔

آخر الذ کر مسئلہ میں حکم امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی رائے اور قیاس تک محدود ہے ادلہ الشریعہ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی دلیل اس مسئلہ کی موٴید ہے کیونکہ”انما الاعمال بالنیات“کے الفاظ مطلق اعمال پر دلالت کررہے ہیں اس سے کوئی عبادت بھی (چاہے وہ واسطہ ہو یا بذات خود عبادت) مستثنی نہیں ہے۔
روزے میں نیت احناف کے نزدیک بھی ضروری ہے مگر مروجہ نیت من گھڑت‘اخترعی اور ایجاد کردہ ہے ۔
چنانچہ احادیث مبارکہ سے جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نیت زبان سے ادا نہیں ہوتی بلکہ اس کا محل دل ہے دل سے نیت ضروری ہے اس بات کی شہادت فقہ کی کتب معتبرہ میں بھی موجود ہے کہ محلھا القلب یعنی نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان ۔لیکن بالفرض اگر یہ الفاط زبان سے ادا بھی کئے جائیں تو نیت تو نہ رہی بلکہ کلام بن گئی ۔جس کا جواب کہیں موجود نہیں ہے ۔
جملہ عبادات مثلا طہارت ‘نماز‘روزہ ‘حج اور زکوة وغیر ہ میں بالاتفاق محل نیت دل ہے زبان نہیں ہے ۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل کتاب نمبر 3)
( مُبشّر احمد رَبّاَنی)

Browse More Islamic Articles In Urdu