Open Menu

Saadi - Article No. 3516

Saadi

سعدی - تحریر نمبر 3516

سعدی یقینا اعلیٰ ترین ذہانتوں کے حامل افراد میں سے ایک فرد تھے

پیر 26 اکتوبر 2020

مسعود مفتی
سعدی یقینا اعلیٰ ترین ذہانتوں کے حامل افراد میں سے ایک فرد تھے۔وہ اعلیٰ فہم و فراست کے حامل تھے۔وہ انسانوں اور ان کے اطوار کا بخوبی مشاہدہ سر انجام دیتے تھے۔ان کا کام ان کی فہم و فراست کا منہ بولتا ثبوت تھا۔شیخ شرف الدین سعدی جنہیں سعدی شیرازی بھی کہا جاتا تھا(1194تا1313بعد از مسیح)․․․․․انہوں نے 12ویں صدی کے اختتام کے قریب شیراز میں جنم لیا تھا جو فارس کا مشہور دارالحکومت تھا۔
فارس کے عام دستور کے مطابق انہوں نے اپنے لئے”سعدی“ بطور تخلص منتخب کیا(شاعرانہ نام)یہ تخلص انہوں نے اپنے سرپرست اور مربی عطا بیگ سعد بن زنگی حکمران فارس کے نام پر رکھا تھا جو اپنے علاقے کے عالم فاضل لوگوں کی حوصلہ افزائی سر انجام دیتا تھا․․․․عبداللہ کا بیٹا اور ایک ”علوی“ حضرت علی ابن طالب کی اولاد میں سے تھے․․․․وہ ایک عالم فاضل صوفی تھے اور سائنس کی ہر ایک شاخ پر دسترس رکھتے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے عبدالفرخ ابن جوزی سے تعلیم حاصل کی تھی اور دینی تعلیم عبدالقادر جیلانی سے حاصل کی تھی اور عبدالقادر جیلانی کے ساتھ انہوں نے پہلے حج بیت اللہ کے لئے مکہ شریف کا سفر سر انجام دیا تھا اور یہ سفر انہوں نے چودہ مرتبہ سر انجام دیا تھا اور اکثر پیدل حج کی سعادت حاصل کی تھی۔نور الدین عبدالرحمن جامی جو جامی کے نام سے جانے جاتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ:۔

”سعدی نے دور دراز کے سفر طے کیے تھے اور بہت سے عجیب و غریب ممالک دیکھے تھے“
انہوں نے اکثر پیدل حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی تھی اور ایک مرتبہ وہ ہندوستان کے مالا یار ساحل جا پہنچے تھے اور انہوں نے کشمیر کی سیاحت بھی سر انجام دی تھی۔بنارس کے ابراہیم خان اپنے صہوفی ابراہیم (Sohofi Ibrahim) میں کہتے ہیں کہ!
”سعدی کے وسیع ترسفروں/سیاحتوں کی چند ایک وجوہات یہ تھیں کہ وہ عجیب و غریب شہر اور علاقے دیکھتے تھے۔
اپنی مہمات کی تفصیل پیش کرتے تھے۔زندگی کے نشیب و فراز دیکھتے تھے۔بصیرت یافتہ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور سائنس اور علم حاصل کرتے تھے“
جیسا کہ سعدی بوستان میں کہتے ہیں کہ:۔
”کیا یہ عالم پر سکون ہونے سے قبل اپنے مرکز سے ہلانہ تھا؟کیا سعدی نے سفر طے کرتے ہوئے سائنس اور علوم حاصل نہ کیے تھے؟“
اپنے دنیاوی تجربے کے بارے میں سعدی اپنے غیر معمولی فلسفے کے ساتھ بات کرتے ہیں کہ:۔

”قسمت نے مجھے حکم صادر کیا کہ مجھے اصفہان چھوڑ دینا چاہیے میری روزی اب اس جگہ سے مزید وابستہ نہ رہی تھی۔میری قسمت مجھے عراق سے شام لے گئی اور اس مقام پر میرا عارضی قیام خوش کن تھا۔جب شام سے میرا جی اکتا گیا تب میرے دل میں دوبارہ اپنا گھر دیکھنے کی خواہش جنم لینے لگی اور مجھے امید تھی کہ واپسی کے سفر کے دوران میں عراق کے صوبے سے گزروں گا“
سعدی 166برس تک زندہ رہے
دولت شاہ کہتے ہیں کہ:۔

”سعدی کی طویل زندگی کے ابتدائی 30برس مطالعہ اور علم کا ذخیرہ کرنے میں گزرے تھے۔
اگلے 30یا غالباً 40برس وسیع تر سفر کے دوران تجربات سے دو چار ہونے میں گزرے تھے۔انہوں نے اپنی بقایا زندگی گوشہ نشینی میں گزاری تھی جبکہ وہ پرہیزگاری اور روحانی سر بلندی میں اپنی مثال آپ تھے“
اس لئے ان کا کام پختہ کار تجربے کا نچوڑ تھا۔

سعدی کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور انہوں نے کئی ایک نظمیں بہت سے ان ممالک کی زبانوں میں تحریر کی تھیں جن ممالک کا انہوں نے سفر طے کیا تھا۔
”میں نے دنیا کے مختلف علاقوں کی جہاں گردی کی ہے اور ہر جگہ میں وہاں کے مکینوں کے ساتھ گھل مل گیا تھا اور میں نے ہر ایک جگہ سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا تھا“
گلستان سے اقتباس:۔
”انہوں نے دانش ور لقمان سے پوچھا کہ:
آپ نے آداب کہاں سے سیکھے۔

انہوں نے جواب دیا کہ!
ان لوگوں سے جو اچھے طریقوں اور ادب و آداب سے واقف نہ تھے۔
میں نے ان لوگوں میں جو چیز ناگوار پائی․․․․
میں نے اسی چیز سے بچنے کی کوشش کی “
”دوبارہ․․․․․انہوں نے بچھو سے پوچھا کہ:۔
تم سردیوں میں کیوں باہر نہیں نکلتے؟
اس نے جواب دیا کہ!
مجھے گرمیوں میں کیا عزت بخشی جاتی ہے جو میں سردیوں میں باہرنکلوں“
درج ذیل جانی پہچانی حکایت سے اچھے معاشرے کے فوائد عیاں ہوتے ہیں۔

”ایک روز میں غسل خانے میں تھا میرے ایک دوست نے میرے ہاتھ میں مٹی کا ایک ٹکڑا تھمایا جو خوشبو سے مہک رہا تھا۔
میں نے اسے تھام لیا اور کہا کہ:۔
کیا تم مشک ہو یا عنبر ہو کیونکہ مجھے تمہاری خوشبو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے۔
اس نے جواب دیا کہ:۔
میں ایک ادنیٰ سا مٹی کا ٹکڑا ہوں لیکن میں کچھ دیر تک گلاب کے پھول کی محبت میں رہا ہو․․․․․میرے ساتھی کی میٹھی میٹھی اور بھینی بھینی خوشبو مجھ میں بھی رچ بس گئی ہے وگرنہ میں محض مٹی کا ایک ٹکڑا تھا جیسا کہ میں دکھائی دیتا ہوں“
سعدی کے اسٹائل کی عظیم ترین خوبصورتی اس کی خوشنما سادگی ہے ان کا تخیل مدبرانہ ہے اور ان کے کاموں میں مفید اور شریفانہ جذبے پائے ہیں اوسلے ان کے بارے میں کہتا ہے کہ!
”فارس کا چمکدار ترین زیور․․․․․نیکی اور پارسائی کا حامل․․․․فہم و فراست کا حامل اور عالم فاضل“
ان کی گلستان چین کے وسط اور افریقہ کی انتہائی سرحدوں تک انتہائی توجہ سے پڑھی جاتی ہے اور اس کی تعریف سر انجام دی جاتی ہے۔
مغربی مفکرین بھی ان کے اسٹائل کی تازگی کو سراہتے ہیں اور ان کی زبان کی چمک دمک کی تعریف کرتے ہیں۔جامی انہیں شیراز کی بلبل کہہ کر مخاطب کرتاہے۔
سعدی کے فلسفے سے درج ذیل حکایت قابل غور ہے:۔
”انہوں نے کہا کہ:۔
میں کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لایا تھا لیکن ایک مرتبہ جبکہ میں ننگے پاؤں تھا اور میرے پاس جوتے خریدنے کے لئے پیسے نہ تھے لیکن میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کے پاؤں ہی نہ تھے اور میں اپنے مقدر سے مطمئن ہو گیا“
گلستان یا گلاب کا باغ اور بوستان یا میوے کا باغ
گلستان حکایات کا مجموعہ ہے جن کا تعلق ان کے مشاہدے اور تجربے کے ذخیرے سے ہے۔
سعدی کی مقبولیت کا راز ان کی فراخ دلی اور بے تعصبی ہے۔ان کی تحریریں مشرق کا عالم اصغر ہیں۔اگر چہ سعدی نے اپنی گلستان تقریباً نو صد برس قبل تحریر کی تھی لیکن ان کی مہلک آج بھی تازہ ہے۔
جامی کہتے ہیں کہ:۔
”فہم و فراست کے حامل لوگ سعدی کے شاعرانہ کلام کو شاعروں کا ”نمک دان“کہتے ہیں۔“
جب اختیارات ایسے شخص کے ہاتھوں میں آتے ہیں
جو درست راستے سے بھٹک چکا ہوتا ہے
وہ اسے اعلیٰ عہدہ تصور کرتا ہے(لیکن حقیقت میں)
وہ ایک گڑھے میں گر چکا ہوتاہے۔

(سعدی)
ایک اور شعر میں سعدی کہتے ہیں کہ:۔
”لوگوں کی رسوائی کا باعث ان کے حکمرانوں کی بدعنوانی بنتی ہے“
وہ لوگ جو حکومت میں ہیں اور حکمرانی کے ساتھ چمٹا رہنا چاہتے ہیں سعدی ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ:۔
سلطنت اور عہدے پر اعتبار نہ کرو
کیونکہ وہ تم سے پہلے بھی موجود تھے․․․․اور
تمہارے بعد بھی موجود رہیں گے۔
(سعدی)
میں اب درج ذیل میں سعدی کی چند حکایات اور اقوال گلستان اور بوستان پیش کرتا ہوں جو قارئین کرام میں دلچسپی اجاگر کرنے کا باعث ثابت ہوں گے کہ وہ اس عظیم دانش ور کی زندگی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu