Open Menu

Saadi Qist 2 - Article No. 3517

Saadi Qist 2

سعدی قسط 2 - تحریر نمبر 3517

سعدی․․․․․․تمہاری طرح ایک یتیم ․․․․جو تین برس کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے

منگل 27 اکتوبر 2020

مسعود مفتی
یتیموں کی قابل رحم حالت پر
کسی یتیم کے سامنے اپنے بچے کو پیار نہ کرو کیونکہ اگر یتیم روتا ہے ․․․․․کون اس کی اشک شوئی کے لئے موجود ہے؟اگر یتیم اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو چکا ہے اسے اپنے سینے سے لگا لو اور اسے والدین کی محبت عطا کرو یاد رکھو اگر یتیم روتا ہے خدا کا تخت کانپتا ہے اگر تم اپنے بچے کو پیار کرنا چاہتے ہو پہلے یتیم کو پیار کرو۔

اے سعدی․․․․․․تمہاری طرح ایک یتیم ․․․․جو تین برس کی عمر میں والدین کے سائے سے محروم ہو گئے تھے․․․․․ہی ایک یتیم کی قابل رحم حالت کو بخوبی جانتا ہے۔
یہ پہرہ جب میں نے 30برس قبل پڑھا․․․․․اس نے مجھے میری گہرائیوں سے ہلا کر رکھ دیا․․․․اور میں ایک بچے کی مانند رویا اور میں نے یتیموں کی قابل رحم حالت اور ضرورت مندوں کی قابل رحم حالت پر غور کرنا شروع کیا اور اس طرح میں مکمل تبدیلی سے ہمکنار ہوا۔

(جاری ہے)


خیر خواہی پر
ہر وقت خیر خواہی کے لئے تیار رہو کیونکہ روح کا خالق خیر خواہ ہے
طمانیت پر
طمانیت ان کا مقدر ہے جو خوش قسمت ہیں
رازوں کی حفاظت پر
انسانوں کے چھپے ہوئے عیب عیاں نہ کرو کیونکہ ان کی توہین سر انجام دیتے ہوئے تمہیں شہرت میسر نہ آئے گی کوئی بھی راز کسی دوست کے حوالے نہ کرو کیونکہ وہ کسی بھی وقت تمہارا دشمن بن سکتا ہے کسی بھی دشمن کی برائی نہ کرو کیونکہ کسی بھی دن وہ تمہارا دوست بن سکتا ہے۔

سعدی ہمیں ایک تاجر کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے ایک ہزار دینار گم ہو گئے تھے وہ اپنے بیٹے کو خبردار کرتا ہے کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائے۔
اس کا بیٹا سوال کرتا ہے کہ:۔
”کیوں؟“
تاجر نے جواب دیا کہ:۔
”اس طرح بد قسمتی دوگنی ہو جائے گی۔اول ایک ہزار دیناروں کی گمشدگی اور دوم ہمارے نقصان پر ہمارے ہمسایوں کی خوشی“
ناشکری پر
انسان اشرف المخلوقات ہے اور جانوروں میں رسوا ترین بے شک کتا ہے لیکن دانشوروں کی رائے ایک کتا اگر اپنی خوراک کے لئے شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے․․․․وہ ایسے انسان سے بڑھ کر قابل احترام ہے جو اظہار تشکر سے عاری ہے۔

”ایک کتا روٹی کے اس ٹکڑے کو کبھی نہ بھولے گا جو اسے عطا کیا جائے گا خواہ اس کے بعد آپ اس کے سر پر سینکڑوں پتھر برسائیں“
روئے زمین پر بے وفعت ترین اشیاء درج ذیل چار اشیاء ہیں!
بنجر زمین پر بارش سورج کی روشنی میں چراغ ایک اندھے شخص کے نکاح میں دی گئی خوبصورت عورت ناشکرے کے ساتھ کی جانے والی نیکی
”اس کے مشکور رہیں جس نے آپ کے ساتھ نیکی کی ہے اور جو آپ کا مشکور ہے اس کے ساتھ نیکی کریں“
کسی کے احساسات کو مجروح نہ کریں
کسی کے زخمی اور دکھی دل کے دھوئیں سے بچو کیونکہ اندرونی زخم بالآخرتپش بن جائے گا کسی کے دل کو اس قدر دکھی نہ کرو کہ وہ اس دکھ کو برداشت نہ کر سکے ایک آہ تمام دنیا کو شعلے میں تبدیل کر سکتی ہے
مصالحت پر
ایک دوست جس کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہے اس سے ایک دم اجنبیت اختیار کرنا کس قدر غلط اقدام ہے
چند اشعار
برسوں کے تغیر و تبدیل کے بعد ایک پتھر ایک ہیرے میں تبدیل ہوتا ہے․․․․توجہ کریں اور اسے یک دم تباہ و برباد نہ کریں دوسرے پتھر کے ساتھ ٹکڑاتے ہوئے
دماغ کے دیوالیہ پن پر
پرانی کہاوت
”ایک بد پرندہ ایک بد انڈا ہی دیتا ہے“
سعدی اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں کہ:۔

”کوئی ایسا شخص جس کا ماخذ ہی بد ہے اس سے نیکی کا عکس کیسے جھلک سکتا ہے۔ہم ایک برے لو ہے سے کیسے ایک اچھی تلوار بنا سکتے ہیں؟
ایک بے وقعت شخص محض تعلیم سے ایک قابل قدر شخص نہیں بن سکتا۔
بری عادات جو کسی شخص کی فطرت میں رچ بس گئی ہوتی ہیں․․․․․وہ محض موت کی گھڑی ہی ان سے نجات حاصل کر سکتا ہے“
داستان
ایک شریف آدمی کا بیٹا بے وقوف اور غبی تھا۔
اس نے یہ کہتے ہوئے اسے ایک عالم فاضل شخص کے پاس بھیجا کہ:
”حقیقت میں آپ اس نوجوان کو ہدایت سے نوازیں گے۔وہ ایک سمجھ دار وجود بن سکتا ہے۔اس نے کچھ دیر تک کے لئے اسے اسباق سے نوازا لیکن اس نوجوان پر ان کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے اس کے باپ کو یہ کہتے ہوئے پیغام ارسال کیا کہ:۔
برخوردار دانشوری اختیار نہیں کر رہا اور اس نے مجھے بھی احمق بنا دیا ہے“
سعدی کہتے ہیں کہ:۔

”اگر خلقی/پیدائشی اہلیت اچھی ہو گی۔تب تعلیم اس پر اثر انداز ہو سکتی ہے،لیکن کوئی بھی پالش کرنے والا یہ نہیں جانتا کہ ایک برے مزاج کے حامل لوہے کو کیسے پالش کرنا ہے۔ایک کتے کو سات مرتبہ کسی سمندر میں دھوئیں اور جب تک وہ گیلا ہے وہ غلیظ اور ناپاک ہے وہ مسیح علیہ السلام کے گدھے کو مکہ شریف لے گئے تھے واپسی پردہ ہنوز گدھا ہی تھا“
خاموشی کی برکتیں
”میں نے ایک دوست سے کہا کہ میں نے بولنے کی بجائے خاموش رہنے کا انتخاب کیا ہے کیونکہ کئی ایک مواقع پر اچھے اور برے الفاظ آپس میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں لیکن دشمنوں کی آنکھیں اسی پر لگی ہوتی ہیں جو کچھ برا ہوتا ہے۔

اس نے جواب دیاکہ:۔
دشمن ہماری زیادہ خدمت سر انجام دیتا ہے جو کسی اچھائی کو نہیں دیکھتا “
مداخلت اور خلل اندازی پر
”میں نے ایک مرتبہ ایک فلسفی کو یہ کہتے سنا کہ کسی نے کبھی اپنی جہالت کا اعتراف نہیں کیا ماسوائے میری․․․․․جو اس وقت بات کا آغاز کرتا ہے جبکہ دوسرے نے اپنی بات ابھی ختم نہیں کی ہوتی“
جاہل کے ساتھ بحث مباحثے پر
سعدی بیان فرماتے ہیں کہ جاہل کے ساتھ بحث مباحثہ سر انجام دینا کیسا ہے
”ایک عالم فاضل شخص جو ایک جاہل کے ساتھ بحث مباحثے میں مشغول ہوتا ہے اسے اپنے وقار کی معاونت کی کوئی امید نہیں ہوتی اور اگر جاہل اس پر حاوی ہو جاتاہے․․․․ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ ایک پتھر ہے جو ایک ہیرے کو کچل سکتا ہے“
اگر ایک باشعور شخص کے ساتھ بے شعور شخص ناروا سلوک کرتا ہے اس پر ملال نہیں کرنا چاہیے
اگر ایک بے وقعت پتھر کا ٹکڑا سونے کے ایک کپ کو کچل سکتا ہے اس کی وقعت میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی سونے کی وقت کم ہوتی ہے خدا مہربان اور ہمدرد ہے۔
سعدی اس سلسلے میں اپنے اسٹائل میں درج ذیل شعر کہتے ہیں:۔
خدا کی فیاضی اور وقار کی جانب متوجہ ہو غلام گناہ کرتا ہے لیکن خدا شرم کھاتا ہے چونکہ وہ مہربان ہے․․․․وہ اپنی مخلوق کو معاف فرما دیتا ہے سعدی کے فلسفے کی اس کلید کے ساتھ ہم شاعر سعدی کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔دانشوری اور خوبصورتی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتی ہے․․․․یہ سعدی ہیں
جب جان جان آفریں کے حوالے کرنے لگو
بہتر ہے کہ اسے وقار کے ساتھ حوالے کرو
یہ دنیا کا خاتمہ ہے
موت کے بعد اس فرد کا نام باقی رہنا چاہیے
میں نے محض اِدھر اُدھر سے چند حکایتیں پیش کی ہیں تاکہ قارئین کرام کو سعدی کے اخلاقیات کے بارے میں روشناس کروایا جا سکے جو کہ کسی نوجوان کو یہ تحریک بخش سکتی ہیں کہ وہ ان کے کاموں کو مفصل طور پر پڑھیں بالخصوص سعدی کی گلستان․․․․بوستان․․․․اور کلیات اور زیادہ سے زیادہ طمانیت اور خوشی اخذ کریں۔

Browse More Islamic Articles In Urdu