Open Menu

Shab E Barat Ki Fazeelat - Article No. 1686

Shab E Barat  Ki Fazeelat

شب برأت کی فضیلت - تحریر نمبر 1686

اسلامی سال کے آٹھویں مہینہ شعبان المعظم کی پندرہویں کی رات کو شب برأت کہتے ہیں۔ اس کو شب برا ت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شب کا معنی ہے رات اور براء ت کا معنی بیزاری ، بری کر دینا۔

منگل 1 مئی 2018

ڈاکٹر محمد راغب حسین نعیمی


اسلامی سال کے آٹھویں مہینہ شعبان المعظم کی پندرہویں کی رات کو شب برأت کہتے ہیں۔ اس کو شب برا ت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ شب کا معنی ہے رات اور براء ت کا معنی بیزاری ، بری کر دینا۔ اس رات میں گنہگاروں کو جہنم اور گناہوں سے بری کر دیا جاتا ہے۔ اس رات کی حقیقت وفضیلت قرآن اور رسول اﷲ ؐ کے فرمان سے واضح ہے۔

قرآن پاک میں ہے ’’:بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا ، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام۔ قرآن پاک میں اس رات کو برکت والی رات کہا گیا کیونکہ اس رات میں نزول رحمت ، دعا کی قبولیت ، نعمتوں کی تقسیم اور تمام بڑ امور کے فیصلے کا نزول ہوتا ہے۔ یہ عظیم رات دینی ودنیاوی منافع کا سبب ہے۔

(جاری ہے)


اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ اس رات کی تمام برکتیںحاصل کریں تو پھر اس رات کو گزارنے کیلئے رسول اﷲؐ کا فرمان اور آپ کا عمل مبارک پیش نظر ہونا چاہیے۔

نبی کریمؐ نے فرمایا :’’جب شعبان المعظم کی پندرہویں کی رات آئے تو رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ اﷲ تعالیٰ سورج غروب ہونے کے وقت اپنی شایان شان آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے پس اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہے کوئی بخشش کا طالب میں اس کے گناہوں کو بخش دوں ؟، ہے کوئی رزق کا طالب میں اس کو رزق عطا کر دو ں؟ ہے کوئی مشکل میں پھنسا ہوا میں اس کی مشکل رفع کر دوں۔
اسی طرح اعلان فرماتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ، ص ۸۱۱)
دوسری حدیث مبارکہ میں رسول اﷲؐ نے فرمایا :
’’ اﷲ تعالیٰ اس رات میں اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک یا کینہ رکھنے والے کے۔ (مشکوٰۃ، ص ۸۱۱)ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اﷲؐ خود اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے جب حضرت عائشہ ؓپیچھے تشریف لے گئیں تو رسول اﷲؐ نے فرمایا ’’ بے شک اﷲ تعالیٰ اپنی شایان شان شعبان المعظم کی پندرہویں کی رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا اور کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔
(مشکوٰۃ ، ص ۷۱۱) تو تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات کو قیام کریں ، اﷲ تعالیٰ کی عبادت کریں ،اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور جائزحاجات کیلئے اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں اور جب پندرہویں کا دن ہو تو اس کا روزہ بھی رکھیں۔ جو کہ نفلی ہے۔
اس رات میں بہتر یہ ہے کہ نوافل کی بجائے اپنی عمر بھر کی قضا نمازوں کو پڑھیں اور قضا فرائض وواجبات کی ہو تی ہے۔
لہٰذا جتنا زیادہ ہو سکے اپنی رہی ہوئی نمازوں کی قضا کریں اور اﷲ تعالیٰ سے معافی بھی مانگیں۔ اﷲ تعالیٰ بخشنے والا ، معاف فرمانیوالاہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب یہ رات عظمت وبرکت اور رحمت والی ہے تو اس میں کام بھی اچھے کرنے ہیں۔ شیطانی اور بُرے کاموں سے پرہیز ضروری ہے خصوصا ہمارے معاشرہ میں جو ہندوانہ وبا ہے کہ آتش بازی اس کو ختم کرنا ہے۔
کیونکہ اس آتش بازی میں دینی ومعاشی دونوں طرح کے نقصانات ہیں۔ کیونکہ اس میں مال کو ضائع کرنا اور فضول خرچی ہے جس سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرما یا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورہ الاعراف :۱۳ میں فرمایا ہے کہ کھاؤ اور پیؤ اور فضول خرچی نہ کرو بے شک اﷲ تعالیٰ فضول خرچی کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ ایک اور جگہ فضول خرچی کرنیوالے کو شیطان کا بھائی فرمایا گیا۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :’’سورہ بنی اسرائیل:۷۲ میں فرمایا ہے کہ یہ پیسہ جو ہم شیطانی کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ کاش کسی غریب یتیم مسلمان کی مدد کر دیتے تو کتنا ہی اچھا ہوتا ؟ اور بسا اوقات اس آتش بازی سے کئی مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور کئی مسلمانوں کے اعضاء ضائع ہو جاتے ہیں اور کسی مسلمان کو ناحق تکلیف دینے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ رسول اﷲ ؐ کا کتنا پیارا فرمان ہے کامل مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔ (مسلم شریف)

Browse More Islamic Articles In Urdu