Open Menu

Sila Rehmi Ka Ajar O Sawab - Article No. 3372

Sila Rehmi Ka Ajar O Sawab

صلہ رحمی کا اجر وثواب - تحریر نمبر 3372

صلہ رحمی عربی کے دو الفاظ سے مرکب ہے صلہ کے معنی ہیں ملانا اور رحم کے معنی ہیں رشتہ داری جسے دین اسلام نے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں ایک اہم ترین اصطلاح اور دینی فریضہ کے طور پر روشناس کرایا ہے ۔

منگل 14 اپریل 2020

حافظ عزیز احمد
محترم سامعین!صلہ رحمی عربی کے دو الفاظ سے مرکب ہے صلہ کے معنی ہیں ملانا اور رحم کے معنی ہیں رشتہ داری جسے دین اسلام نے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں ایک اہم ترین اصطلاح اور دینی فریضہ کے طور پر روشناس کرایا ہے ۔امام نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صلہ رحمی کا مطلب ہے :رشتہ داروں کے ساتھ احسان سے پیش آنا ۔
یہ احسان کبھی مال کے ذریعے، کبھی خدمت کے طور پر اور کبھی رشتہ داروں سے ملاقات اور اُنہیں سلام کرکے ادا کیا جاتاہے ۔یعنی یہ حالات اور حالات کے تقاضوں کے مطابق مختلف صورتوں میں سر انجام دیا جاتاہے ۔قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں قطعاً کوئی اختلاف نہیں کہ صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے تعلقات استوار رکھنا ہر حال میں واجب ہے ۔

(جاری ہے)

خواہ وہ رشتہ دار نسبی ہوں یا سسرالی اور اُن سے قطع تعلق کرنا جسے ’قطع رحمی‘ کہا جاتاہے ۔بہت بڑا گناہ ہے ۔چونکہ صلہ رحمی کا تعلق حقوق العباد سے ہے ۔اس لئے دین اسلام نے اس کی بہت ہی تاکید فرمائی ہے ۔
جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات میں قرابتداری کے حقوق کی اہمیت دنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ ہے ۔
قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں بار بار اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔اس میں بنیادی اہمیت لفظ رحم کی وہ تشریح ہے جو خود خالق کائنات جل مجدہ نے ارشاد فرمائی ہے جسے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں بحوالہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے ۔جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ رحم درخت کی ٹہنی کی طرح عرش الٰہی سے لپٹ کر نہایت ہی فصیح الفاظ میں کہتی ہے کہ اللہ جو مجھے ملا کر رکھے ،تو بھی اسے ملا کر رکھنا اور جو مجھے کاٹ کر پھینک دے ،تو بھی اُسے اپنے سے جدا کر دینا۔
اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتاہے :میں رحمان ہوں ،میں رحیم ہوں ۔میں نے رحم کو اپنے نام سے مشتق کیا۔(یعنی رحمان ورحیم سے رحم لیا گیا ہے) لہٰذا جو شخص اسے ملائے گا،میں بھی اُسے ملاؤں گا اور جو اس کو توڑ دے گا میں بھی اُسے توڑ دوں گا ۔اس حدیث کی روشنی میں ہم صلہ رحمی کی اہمیت کا خوب اندازہ کر سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا کیا مقام ہے۔

حضرات گرامی! قرآن حکیم نے سورة الرعد کی آیت نمبر 21میں صلہ رحمی کو اولوالا لباب یعنی دانشوروں کی اہم ترین علامت قرار دیا ہے۔ فرمایا ہے :یعنی یہ ایسے لوگ ہیں جو اُس چیز کو ملا کر رکھتے ہیں جس کے متعلق اللہ کا حکم ہے کہ اُسے ملا کر رکھا جائے ۔جبکہ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کو فاسق اور بدکار کہا ہے جو قطع رحمی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔چنانچہ سورة البقرہ کی آیت نمبر 27میں ہے کہ فاسق وہ لوگ ہیں جو اللہ سے کئے گئے وعدہ کو توڑنے کے ساتھ ساتھ صلہ کو بھی کاٹ کے رکھ دیتے ہیں جس کے متعلق اللہ کا حکم یہ ہے کہ اُسے ملا کر رکھا جائے ۔
معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا یہ بندھن اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ معاشرتی نظام کا جزو لاینفک ہے ۔اس کی خلاف ورزی اللہ کے ہاں نہایت ہی نا پسندیدہ عمل ہے اور اس کے اثرات خاندانی جھگڑوں، ذہنی پریشانیوں اور بعض وحسد کی صورت میں نمو دار ہو کر انسانی زندگی کو بے کیف اور بد مزہ کر دیتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مواعظ حسنہ میں اسے ہمیشہ کلیدی حیثیت دی ہے ۔
توحید اور رسالت کے بعد اہل ایمان کو صلہ رحمی کا حکم فرمایا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے حسین اخلاق میں اسے معیاری حیثیت حاصل ہے ۔پہلی وحی کے بعد جب آپ نے حضرت خدیجہ رحمة اللہ علیہ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کے متعلق ڈر محسوس ہو رہا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا:بخدا اللہ آپ کو نہ کبھی ضائع کرے گا اور نہ ہی تنہا چھوڑے گا کیونکہ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ۔
انہوں نے اس کے ساتھ دیگر اعلیٰ اخلاق کا بھی ذکر فرمایا ۔اسی طرح ابو سفیان ایمان قبول کرنے سے پہلے جب شام میں مسلمانوں کے خلاف قریش مکہ کی طرف سے ایک مہم پر تھے تو ہر قل نے انہیں اپنے دربار میں بلوا کر پوچھا کہ وہ نبی تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں ؟تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ وہ کہتے ہیں :ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو باتیں تمہارے آباؤ اجداد کرتے تھے ،وہ سب چھوڑ دو۔
پھر کہا کہ وہ ہمیں نماز کا، سچ بولنے کا،پاکدامنی کا اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں ۔اس قسم کے کئی ایک واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں جو اس بات کو پوری شدومد سے واضح کرتے ہیں کہ آپ خود بھی صلہ رحمی کرنے والے تھے اور لوگوں کو بھی اس کے لئے ترغیب دیتے ۔امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہمیں یہ ارشاد سنایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” صلہ رحمی، پڑوسیوں سے اچھا سلوک اور حسن خلق گھروں کی آبادی اور عمر میں اضافہ کا باعث ہیں۔

امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ بات خوش لگے کہ اس کی عمر کو بڑھا دیا جائے ،اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دی جائے اور بُرے خاتمہ سے محفوظ ہو جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ اللہ کا ڈر رکھے اور صلہ رحمی کرے ۔“اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رشتہ داروں اور اعزہ واقارب کی مالی امداد صرف رزق میں وسعت ہی کا سبب نہیں بلکہ انسان کی عمر میں بھی برکت کا ذریعہ ہے ۔
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کتنی خوبصورت بات سنائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مسکین اور ضرورت مند کو صدقہ وخیرات دو گے تو صرف صدقہ کا ثواب ملے گا۔ لیکن اگر کسی رشتہ دار کو دو گے تو صدقہ بھی ہو گا اور صلہ رحمی بھی ۔گویا دہرا ثواب مل جائے گا۔ اس لئے اگر اللہ نے مال ودولت کی نعمت سے نواز رکھا ہے تو صدقہ اور صلہ رحمی کی اس برکت سے کبھی محروم نہیں رہنا چاہیے۔
خواہ وہ رشتہ دار غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
سامعین محترم! دیکھا گیا ہے کہ عموماً قرابتداروں میں شکر رنجیاں ہوتی ہیں ۔معمولی معمولی باتوں پر اختلاف ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ بھی لگتا ہے کہ ایک طرف سے واضح طور پر زیادتی ہو رہی ہے ۔مگر آپ یقین کیجئے کہ یہی وہ وقت ہے کہ ایک مسلمان کو بڑے پن کا ثبوت پیش کرنا چاہیے اور سارے اختلافات کو بھلا کر ایسے رشتہ داروں کے قریب ہو کر اُن کے دکھ میں شریک ہونا چاہیے ۔
اگر انہیں مالی اعانت کی ضرورت ہے تو صدقہ وخیرات کی مد سے ان کی ضرور مدد کرنا چاہیے ۔اس ضمن میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس ارشاد گرامی کو نہیں بھولنا چاہیے جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں سنایا ہے۔کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: اے عقبہ! کیا میں تمہیں دنیا اور آخرت والوں کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کردوں ؟پھر فرمایا:جو تم سے رشتہ توڑے تم اُس سے جوڑ کرر کھو،جو تمہیں محروم کرے تو اُسے دیتے رہو، جو تم پر ظلم کرے تو اس کو معاف کردو۔
سن لو،جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر بڑھا دی جائے اور اس کے رزق کو پھیلا دیا جائے تو اُسے چاہیے کہ وہ رشتہ داروں سے جڑ کر رہے ۔“
حضرات گرامی!یہ بہت ہی عظیم الشان بات ہے کیونکہ بدلے کی صلہ رحمی کسی حد تک توصلہ رحمی کہلائی جا سکتی ہے ۔لیکن یکطرفہ صلہ رحمی اصل صلہ رحمی ہے جو بڑے ہی جگر گردے کا کام ہے۔
بدی را بدی سہل باشد جزا
اگر مردی احسن الی من اساء
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Browse More Islamic Articles In Urdu