Open Menu

Sirf Juma K Din Ka Roza Rakhna - Article No. 3341

Sirf Juma K Din Ka Roza Rakhna

صرف جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا - تحریر نمبر 3341

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص صرف جمعہ کا روزہ رکھے مگر یہ کہ اس سے پہلے اور بعد کے دن کا روزہ بھی رکھے۔

جمعہ 20 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص صرف جمعہ کا روزہ رکھے مگر یہ کہ اس سے پہلے اور بعد کے دن کا روزہ بھی رکھے۔(رواہ الترمذی)
ٓسامعین ذی قدر:آج سلسلہ درس حدیث میں جس حدیث مبارک پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جارہی ہے،اسے عالم اسلام کے ایک بہت بڑے محدث امام ترمذی نے اپنی سنن میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے نقل فرماہے۔
جس کا تعلق جمعتہ المبارک کے دن کو روزہ کے لئے خاص کرنے کے مسئلہ سے ہے۔ یہاں بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ جمعتہ المبارک کے دن کو ہفتے کے سات ایام میں بہت بڑی فضیلت وبرتری کا حامل قرار دیاگیا ہے۔ اسی لئے حدیث کی ہر کتاب میں فضائل جمعہ کا ایک الگ باب قائم کیا گیا ہے اورا قوال رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اس دن کی اہمیت اور اس دن کی نماز یعنی نماز جمعہ، قبولیت دعا کی ساعت خاص اور جناب رسالتماب ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پر درودشریف پڑھنے اور دیگر اور ادووظائف کو بڑی وضاحت سے بیان کیاگیا ہے۔

(جاری ہے)

تخلیق حضرت آدم علیہ السلام اور حتیٰ کہ قیام قیامت کا تعلق بھی اسی عظیم الشان دن یعنی یوم الجمعہ سے ہے۔ احادیث کی تمام ترکتابوں میں یہ موجود ہے کہ ملااعلیٰ جو اللہ پاک کی نورانی مخلوق فرشتوں کی آماجگاہ ہے، وہاں جمعتہ المبارک کو ” یوم المزید“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یعنی ایسا دن جس میں اللہ پاک کے خصوصی انعامات ونوازشات کی بارش ہوتی ہے۔
اوریہ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک آئینہ کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اسے رکھا۔ او رعالم ارواح میں اسے یوم صالح کہاجاتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ جمعہ کے دن تمام چرند، پرند لرزاں وترساں ہوتے ہیں کہ کہیں آج قیامت نہ آجائے۔ البتہ انسان اور جن بے خبر رہتے ہیں۔ ان تمام انفرادی خصوصیات کی بنا پر جمعتہ المبارک کو ” سیدالایام “ اور حتیٰ کہ ” عید کا دن “ قرار دیاگیا ہے۔

اور جہاں تک ” نماز جمعہ “ کا تعلق ہے تو یہ الگ طور پر بے انتہا ء خوبیوں سے بھرپور نماز ہے۔ جس کی تیاری پر صاحب ایمان کو درجہ بدرجہ اونٹ، گائے، بکری، مرغی اور انڈے کی قربانی کا حقدار قراردیاگیا ہے۔ جوشخص جس قدراہتمام اور مستعدی سے مسجد میں حاضر ہوکر نماز ادا کرتا ہے اسی قدر قیامت میں قرب الٰہی سے نواز جائے گا۔ ایک حدیث پاک کی رو سے جلدی نہادھو کر نماز جمعہ کے لئے جانے والے کے نامہ اعمال میں ہر قدم پر ایک سال کے قیام اور روزوں کا ثواب درج کیاجاتا ہے۔
اگر خطبہ جمعہ کو نہایت خاموشی اور توجہ سے سنے توبے شمار خوبیوں کوسمیٹ کر واپس ہوتا ہے۔
سامعین محترم ! اس خوبصورت اور دیدہ زیب پس منظر میں آج کی زیر مطالعہ حدیث مبارک کو جب ہم پڑھتے ہیں توبادی النظر میں یہ سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ اتنے کمالات اور خوبیوں سے بھرپور دن کو روزے کے لئے خاص کرنے کی ممانعت فرمادی گئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ تم سے کوئی بھی شخص جمعہ کے دن کا روزہ رکھے۔
اگر روزہ رکھنا ہی ہے توجمعہ سے پہلے یعنی جمعرات یا جمعہ کے بعد ہفتے کے دن کا بھی روزہ رکھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ ممانعت کیوں ارشاد فرمائی گئی ہے؟
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ شارع علیہ السلام کا حق ہے کہ وہ منشائے الٰہی کے مطابق جو چاہیں امت کو کرنے کا حکم فرمائیں اور جس سے چاہیں روک دیں۔ ایسے او امراور نواہی”غلوفی الدین“ کی راہ کے لئے سدِباب ہیں۔
ورنہ انسان اکثر اوقات جذبات اور عقیدت کے ہاتھوں دین کے قریب ہونے کی بجائے اس سے دور ہوتا چلاجاتا ہے۔ بدعات ورسومات کا لامتناہی سلسلہ اسی غلوفی الدین کا شاخسانہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب کوئی شخص جمعہ کے دن روزے کا بھی اہتمام کرنا شروع کر دے گا تو نماز جمعہ کی تیاری اور اس کے اہتمام میں کمی اور کوتاہی کااندیشہ در آتا ہے۔ وہ روزے کی آڑ میں جمعہ کے دیگر فضائل سے محرومی کا شکار ہوسکتا ہے۔
شارع علیہ السلام نے ازراہ شفقت امت کو بالخصوص جمعہ کے دن کا روزہ رکھنے کی ممانعت فرماکر تسبیح ، تکبیر، تہلیل، تحمید، استغفار اور دیگر اہم ترین اذکا رجن میں درودپاک سرِفہرست ہے، کے لئے وقت دے کر اس پر احسان عظیم فرمادیا ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وجزاہ عن امتہ کما یحب ویرضی۔ ہاں جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ایک صورت باقی رکھی ہے کہ اگر کسی صاحب ایمان کا یہ دل چاہ رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن کے روزے کی فضلیت سے بھی بہر ہ مند ہوتو اُسے چاہئے کہ اس سے پہلے یا اس کے بعد کے دن کا ایک اور روزہ بھی ساتھ شامل کرلے۔
ایسی صورت میں خصوصی طور پر جمعہ کا روزہ رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم مبارک کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور جمعہ کے روزہ کا ثواب بھی مل جائے گا، یہ دراصل شریعت اسلامی کا مزاج ہے اوریہی مزاج وہ ایک صاحب ایمان کا بھی بنانا چاہتی ہے کہ ہر حکم اور نہی کو صحیح سپرٹ میں لیا جائے اور اپنے ذاتی ذوق اور حد سے بڑھے ہوئے جذبے سے اجتناب ہی برتا جائے ۔
اسی سے سہولت اور اعتدال کی راہ ہمواررہتی ہے۔ اور شرعی احکام اس کے لئے بوجھ نہیں بنتے۔ عبادات وطاعات میں مشکل پسندی اور ناگوار پابندی کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اور لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا “کے ابدی اور شرعی ضابطہ کو مستقل ضابطہ کے طور پرمنوایا گیا ہے۔ آج کی حدیث مبارک اسی ضابطہ کی پیغمبرانہ تشریح ہے۔ا ور رہنمائی کررہی ہے کہ صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ارشاد فرمائیں کہ یہ کر لو تو اسے اُسی طرح بجالانا چاہئے اور جس عمل سے روکیں ، رُک جاناچاہئے۔
چون وچراکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ثواب وہی ثواب ہے جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثواب کا نام دیں۔ میرایا آپ کا کسی عمل کو ثواب یاگناہ کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یعنی جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دے دیں، وہ لے لو اور جس سے روکیں ، اس سے رُک جاؤ۔ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ ہماری سوچ ، فکر اور عقل کو شریعت مطہرہ کے تابع کردے۔ آمین۔

Browse More Islamic Articles In Urdu