Open Menu

Sorah Alwaqiya K Fazail - Article No. 3261

Sorah Alwaqiya K Fazail

سورة الواقعہ کے فضائل - تحریر نمبر 3261

سورة الواقعہ کے بارے مشہور ہے کہ یہ سورت غنی اورتونگری والی ہے جو اسے رات کو پڑھے اپنے اہل وعیال کو پڑھائے اسے فاقہ کبھی نہیں پہنچتا۔

جمعرات 31 اکتوبر 2019

مُبشّر احمد رَباَنیِ
سورة الواقعہ کے بارے مشہور ہے کہ یہ سورت غنی اورتونگری والی ہے جو اسے رات کو پڑھے اپنے اہل وعیال کو پڑھائے اسے فاقہ کبھی نہیں پہنچتا۔لیکن اس کے متعلق مروی روایات ضعیف اور موضوع ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا:
”جس شخص نے ہر رات سورة الواقعہ تلاوت کی اسے فاقہ کبھی بھی نہیں پہنچے گا۔

عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے اپنی بیٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اسے ہر رات تلاوت کریں۔“
ابن کثیر اور شعب الایمان بیہقی میں یہ بھی ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ‘عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے گئے تو کہا۔

(جاری ہے)

آپ کو کیا شکوہ ہے؟تو انہوں نے کہا: اپنے گناہوں کا پھرکہا آپ کی کیا خواہش ہے تو انہوں نے کہا:اپنے رب کی رحمت کی ۔

عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کسی طبیب کو بھیج دوں کہنے لگے طبیب نے ہی تو بیمار کیا ہے۔پھر کہا میں تمہارے لئے کچھ مال کا حکم دوں؟کہنے لگے ایک دن پہلے آپ نے مجھے اس سے منع کیا ہے۔مجھے اس کی حاجت نہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اسے اپنے اہل وعیال کے لیے چھوڑدینا۔کہنے لگے:میں نے انہیں ایک ایسی چیز کی تعلیم دی ہے جب وہ اسے پڑھیں گے تو فقیر نہیں ہوں گے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے جس نے ہر رات سورة الواقعہ کی تلاوت کی وہ فقیر نہیں ہو گا۔
یہ روایت ضعیف ومضطرب ہے۔
اس کی سند میں شجاع یا ابوالشجاع مجہول راوی ہے امام احمد بن جنبل فرماتے ہیں:
یہ روایت منکر ہے اور اس کی سند میں شجاع اور السری کو میں نہیں پہچانتا۔
اسی طرح اس کی سند میں ابوطیبہ یا ابوظبیہ بھی مجہول ہے۔
2۔اس کی سند میں اضطراب بھی ہے السری کے شاگردوں نے اس بات میں اختلاف کیا ہے کہ اس کا استاد شجاع ہے یا ابو الشجاع اسی طرح شجاع کے استاذ میں بھی اختلاف ہے کہ وہ ابو فاطمہ ہے یا ابو ظبیہ پھر انہوں نے ابو ظبیہ کا لفظ ضبط کرنے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ وہ ابو ظبیہ ہے یا ابو طیبہ؟
ا ور یہ ابو ظبیہ عیسی بن سلیمان الجرجانی ہے اور اس کی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع ہے تفصیل کے لئے دیکھیں۔
5۔علامہ البانی رحمة اللہ علیہ اس روایت کے ضعف کی چاروجوہ بیان کرتے ہیں۔
1۔یہ منقطع ہے جیسا کہ امام دار قطنی وعیرہ نے بیان کیا ہے۔
2۔اس کا متن منکر ہے جیسا کہ امام احمد نے ذکر کیا۔
3۔اس کے راوی ضعیف ہیں جیسا کہ امام ابن جوزی نے کہا۔

4۔یہ روایت مضطرب ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر امام احمد ‘امام ابو حاتم‘امام ابن ابی حاتم‘امام دارقطنی‘امام بیہقی وغیرھم کا اجماع ہے۔ملاحظہ ہو۔
2۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ:
جس شخص نے ہر رات سورة الواقعہ تلاوت کی اسے کبھی بھی فاقہ نہیں پہنچے گا اور جس نے ہررات(لااقسم بیوم القیامة)کی تلاوت کی وہ اللہ سے قیامت والے دن اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گا۔

اس کی سند میں احمد بن محمد بن عمر الیمامی کذاب راوی ہے جس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے۔
3۔انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ:
”جس نے سورة الواقعہ کی تلاوت کی اور اسے سیکھا وہ غافل لوگوں میں نہیں لکھا جائے گا اور وہ اور اس
کے گھر والے فقیر نہیں ہوں گے۔“
امام سیوطی نے ”ذیل الاحادیث الموضوعہ“(277)میں اسے ابو الشیخ کی روایت بطریق عبدالقدوس بن حبیب از حسن ازانس رضی اللہ عنہ مرفوع بیان کیا ہے اور فرمایا:عبدالقدوس بن حبیب متروک ہے امام ابن حبان نے تصریح کی ہے کہ یہ روایت وضع کرتا تھا امام عبداللہ بن مبارک نے اسے کذاب قرار دیا ہے ۔
ملاحظہ ہو۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ سورة الواقعہ کے متعلق مروی روایات ضعیف اور موضوع ہیں۔بہت سارے خطیب اور واعظ اس روایت کو بیان کرتے ہیں اور وظائف واور اد بتانے والے مشائخ بھی اسے اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہیں اور فراخی رزق کے لئے یہ فضائل کیلنڈروں کی صورت میں شائع بھی کئے جاتے ہیں اس کی وجہ عام طو رپر یہ ہے کہ خطباء اور واعظین کو روایت کے صحت وسقم سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور کچھ اھل علم اس مسئلہ میں متساہل ہیں وہ فضائل اعمال میں ضعیف روایت بھی قبول کئے جاتے ہیں۔

ہمارے نزدیک کسی عمل کی فضیلت واستحباب ایک خالص شرعی مسئلہ ہے اس میں ایسی روایت قابل حجت اور لائق استناد ہے جس میں کوئی علت قادحہ نہ ہو جو اسے ضعیف بنادے۔
ضعف بیان کرنا اہل علم پر لازم ہے اگر وہ ضعف بیان نہیں کریں گے تو عام لوگ اسے صحیح سمجھ کر قبول کرتے جائیں گے۔اور مسائل کے لیے صحیح اور حسن احادیث کے علاوہ کسی سے حجت نہیں پکڑنی چاہئے اور یہ مذہب بڑے بڑے ائمہ محدثین کا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمة اللہ عنہ فرماتے ہیں:
شریعت میں ایسی احادیث ضعیفہ جو نہ صحیح ہیں اور نہ حسن قابل اعتماد نہیں مشہور حنفی عالم محمد زاہد کو ثری نے لکھا ہے کہ’ضعیف روایت کو مطلق طور پر نہ لینا۔ امام بخاری‘امام مسلم‘امام ابو بکر بن العربی جو اپنے دور کے بہت بڑے مالکی تھے امام ابو شامہ المقدسی جو اپنے وقت کے کبیر شافعی عالم تھے‘امام ابن حزم اور امام شوکانی رحمة اللہ علیہ کا مذہب ہے اور اس کا اس مسئلہ میں قوی غیرمہمل بیان ہے۔

مزید تفصیل کے دیکھیں راقم کی کتاب”آپ کے مسائل اور ان کا حل“جلد دوم کا مقدمہ۔ لہٰذا ضعیف روایات مطلق طور پر قابل حجت نہیں۔فضائل میں اور نہ مسائل میں فقرو تنگ دستی کے لے اللہ تعالیٰ سے اخلاص سے دعا کریں وہ ضرور دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتاہے ۔جیسا کہ سیدنا موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی:
”اے میرے پروردگار!تو بھلائی میں سے جو کچھ میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔

سید نا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میں اپنی مکاتبت سے عاجز آچکا ہوں آپ میرا تعاون کریں۔علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے تھے اگر تیرے اوپر صیر پہاڑ جتنابھی قرض ہو اللہ تعالیٰ اسے اتار دے گا پھر انہوں نے یہ دعا بتلائی۔
”اے اللہ اپنے حلال کے ذریعے اپنے حرام سے میری کفایت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے اپنے علاوہ سے غنی کر دے ۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu