Open Menu

Syedna Abbas Razi Allah Anho Ka Qubool Islam - Article No. 3044

Syedna Abbas Razi Allah Anho Ka Qubool Islam

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام - تحریر نمبر 3044

حضرت عباس رضی اللہ عنہ قریش کو اس ضغطے میں چھوڑ کر اپنے چند قبیلہ داروں کے ہمراہ مقام حجفہ(مکہ سے تراسی میل)میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب کہ

ہفتہ 2 مارچ 2019

محمد عبداللہ مدنی
حضرت عباس رضی اللہ عنہ قریش کو اس ضغطے میں چھوڑ کر اپنے چند قبیلہ داروں کے ہمراہ مقام حجفہ(مکہ سے تراسی میل)میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب کہ بنو ہاشم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر پہلے سے اطلاع تھی۔بنو ہاشم ہر قیمت پر مسلمانوں کی یلغار سے خود کو بچانا چاہتے تھے ۔اسی طرح ابوسفیان بن حارث(رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد برادر) اور ابو سفیان ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابوامیہ بن مغیرہ ہر دو نے نبق العقاب نام مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بار یابی کی التجا کی ،لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا۔

عبداللہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے برادر حقیقی تھے۔

(جاری ہے)


سیدہ ممدوحہ اس سفر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت میں تھیں ۔عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابو سفیان بن حارث آپ کے برادر عم زاد ہیں ۔عبداللہ سے آپ کا دوہرا ناتا تھا۔وہ میرے بھائی اور آپ کے پھوپھی زاد ہیں “فرمایا”میرے عم زاد برادرنے میری تزلیل میں کوئی کمی رہنے دی ؟اور اس پھوپھی زاد نے مکہ میں مجھے کیسار سواکیا! بی بی تم رہنے دو میں ان سے درگزار “ابوسفیان نے رسول اللہ کی برہمی کا حال سن کر کہا:
واللہ لیوذنن لی اولا خذن بید بنیی ھذاثم لنذھبن فی الارض حتیٰ نموت عطشا وجوعا
”بخدا! اگر آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے باز یابی کا موقعہ نہ دیا تو میں انے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر صحرا میں نکل جاؤں گا اور بھوکا پیا سامر جانے کوترجیح دوں گا“
ابوسفیان کی رقت کا ماجراسن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا۔

دونوں کو شرف بار یابی بخشا ،دونوں کا جرم معاف فرمادیا اور دونوں مسلمان ہو گئے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ اپنے عالی منزلت برادرزادہ کی فوجی قوت اور ولولہ سے بے حد متاثر ہوئے۔
اگر چہ وہ خود اسلام لا چکے تھے۔مگر انہوں نے غازیوں کی کثرت سے اندازہ کر لیا کہ پورے عربستان میں جس لشکر کے مقابلہ کی کسی کو تاب نہیں اہل مکہ اس سے کیوں کہ عہدہ برآمد ہو سکتے ہیں ۔

عباس رضی اللہ عنہ اس سے چند ہی ساعت قبل مکہ سے آئے تھے۔جہاں ان کے اہل وعیال اور دوست احباب سب موجود تھے ۔انہیں پوری طرح یقین تھا کہ اسلام اپنے مقابلہ میں کمزور اشخاص سے قطع کرنے کا رواد ار نہیں ۔عباس رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کے متعلق اپنا اضطراب ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا”اگر قریش طالب امان ہوں ؟“ممکن ہے کہ ا ن کے برادرزاد ہ کو اپنے عم بزرگوں کی تقدیم کلام پسند آئی ہو۔

اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عباس رضی اللہ عنہ سے متعلق یہ غور فرمایا کہ انہیں بطور سفیر قریش کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس حد تک قریش کو مرعوب کرلیں کہ کشت وخون کے بغیر پرامن طور سے مکہ پر قبضہ ہو جائے اور وہجس طرح ازل سے امن وسلامتی کاگہوارہ چلا آرہا ہے ،آج بھی اس کی سلامتی میں خلل نہ آنے پائے۔ جناب عباس رضی اللہ عنہ حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقہ بیضا پر سوار ہوئے اور گزر گاہ اراک پر ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔

ان کا عباس رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق اس راہ سے آنے کا منشایہ تھا کہ اگر کوئی لکڑ ا ہار یا شیر فروش یا کوئی شخص مکہ میں جانے والا نظر آجائے تو اس کے دل میں ایسے انداز سے مسلمان فوجوں کی کثرت اور ولولہ کا یقین پیدا کیا جائے جس سے وہ شخص ازخود اہل مکہ کوڈرادے اور شہر پر حملہ ہونے سے قبل قریش رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر امن کی درخواست پیش کریں ۔جناب عباس رضی اللہ عنہ کو علم تھا کہ جب سے مسلمانوں نے مقام مر الظہر ان پر ڈیرے ڈالے ہیں ،قریش اس اطلاع کے بغیر اپنے مستقبل سے گھبرارہے ہیں کہ ان کے خیال میں خطرات ان کے قریب آچکے ہیں ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu