Open Menu

Taharat Rah E Nijat - Article No. 3339

Taharat Rah E Nijat

طہارت راہ نجات - تحریر نمبر 3339

طہارت اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے ۔

جمعرات 19 مارچ 2020

حافظ عزیز احمد
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے ارشاد فرمایا:طہارت اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے ۔الحمد للہ (وزن کے)ترازو کو بھر دیتاہے ،سبحان اللہ اور الحمد للہ (دونوں مل کر)آسمانوں اور زمین کے درمیان کو پُر کر دیتے ہیں ،نماز روشنی ہے ۔صدقہ بُرہان اور دلیل ہے ۔
صبر بھر پور روشنی ہے ۔قرآن حمید تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف دلیل ہے۔سارے لوگ صبح کو اٹھتے ہیں اور اپنی جان کا سودا کرتے ہیں کچھ اُسے آزاد کرا لیتے ہیں اور کچھ اُسے ہلاکت میں ڈال کر برباد کر دیتے ہیں۔(رواہ مسلم)
محترم سامعین! آج کی زیر مطالعہ حدیث مبارک کو امام مسلم رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں کتاب الطہارة کے ذیل میں درج کیا ہے۔

(جاری ہے)

شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نہایت عظمت کی حامل ہے ،اس کا تعلق دین اسلام کے اصولوں سے ہے اور یہ شریعت کے اہم ترین اور بنیادی قواعد پر مشتمل ہے ،نہایت عام فہم اور دنیا وآخرت کی فلاح وصلاح اور کامیابی کی ضامن ہے ۔رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس گرانمایہ ارشاد گرامی میں کل آٹھ باتیں ذکر فرمائی ہیں:پہلی بات یہ ہے کہ طہارت اور پاکیزگی نصف ایمان ہے۔
طہارت صرف صفائی یا اُجلا پن نہیں بلکہ یہ انسان کے جسم اور اُس کے لباس کی اُس حالت کا نام ہے کہ جس کے حاصل ہونے کے بعد وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونے کے قابل ہو ۔اور یہ تبھی ہو گا جب وہ جسمانی طور پر ہر قسم کی ظاہری اور مخفی نجاست سے پاک ہو ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر صاف جسم اور ستھرا لباس ضروری نہیں کہ پاک بھی ہو ۔
اس لئے ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ صفائی ستھرائی کے ساتھ اپنے آپ کو پاک رکھنے کا اہتمام بھی کرے ۔کیونکہ صرف صفائی نصف ایمان نہیں بلکہ دراصل پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض شارحین حدیث نے یہاں الطہور سے مراد وضو لیا ہے ۔جس طرح ایمان قبول کر لینے کے بعد پہلے گناہ ختم ہو جاتے ہیں ،اسی طرح وضو کرنے سے بھی انسان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔
یوں یہ وضو آدھا ایمان ٹھہرا۔دوسری اور تیسری بات جو اس حدیث مبارک میں بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ الحمد للہ وزن اعمال کے ترازو کو بھر دیتاہے ۔اور اگر الحمد للہ کے ساتھ سبحان اللہ بھی شامل کر لیا جائے تو لسان نبوت کا فرمان یہ ہے کہ ان دونوں کی برکت سے زمین وآسمان کا درمیانی خلا پر ہوجاتاہے ۔اور کیوں پر نہ ہو کہ ایک ایک ذرہ ہر وقت خالق کائنات جل مجدہ‘کی تسبیح وتحمید اور اس کی تنز یہ میں مصروف ہے ۔

صاحب ایمان کی زبان سے نکلے یہ دو عظیم کلمات اللہ کی تسبیح وتقدیس کے سمندر میں شامل ہوتے ہیں تو سارا خلا ہی اللہ پاک کی حمد اور تسبیح سے گونج اٹھتا ہے ۔نہایت ہی گرانقدروظیفہ ہے جو ہر دم زبان پر ہونا چاہئے اور اللہ کے خزانے بھرے ہیں ،بے بہا عطا کے باوجود ان میں کوئی کمی نہیں آتی ۔چوتھی بات یہ ہے کہ نماز نور ہے ۔یعنی انسان کو فواحش ومنکرات سے روک کر اس کے دل کو پاکیزہ اور منور کر دیتی ہے۔
دل منور ہوتو چہرے پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس لئے یہ ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ الصلاة نور ۔پانچویں بات یوں ارشاد فرمائی کہ صدقہ نا قابل تردید دلیل اور بُرھان ہے ۔جو مسلمان کے اس وعدے کا عملی ثبوت مہیا کرتی ہے کہ اُس کے پاس جو کچھ بھی موجود ہے ،وہ محض اللہ پاک کی عطا اور مہربانی سے ہے ۔
اس لئے وہ اللہ پاک کے دئیے ہوئے مال سے اس کی راہ میں خرچ کرکے ایک ایسی مثال قائم کرتاہے کہ آخرت میں اللہ کے حضور اس کے لئے بہت روشن اور واضح دلیل بن کر سامنے آجائے گی اور اس کی کامیابی میں ممدو معاون بن جائے گی ۔
چھٹی بات یہ ارشاد فرمائی کہ صبر بھر پور روشنی ہے ۔اسلامی اخلاق میں صبر کا بہت اونچا مقام ہے ۔فرمایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت سے مدد ونصرت طلب کرنے کا بہترین نسخہ صبر اور نماز ہے ۔صبر ،اللہ کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت پر جم جانے اور استقامت کا نام ہے ۔گناہوں اور نا فرمانیوں سے پرے ہٹ کر کھڑے ہو جانے کا نام ہے،مصائب وآلام اور آفات وبلیات پر اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے ۔
قرآنی وضاحت یہ ہے کہ صبر کرنے والوں کا اجر بے حساب ہے اور یہ کہ اللہ پاک صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔صبرو استقامت ایک بے بہا طاقت ہے ۔ایسی قوت اور ایسا سہا را ہے کہ انسان کو جادئہ حق سے ہٹنے نہیں دیتا۔ ایسی روشنی ہے کہ انسان کو بھٹکنے نہیں دیتی ۔اور انسان کو افراط وتفریط کی دو انتہاؤں سے بچا کر رکھتی ہے اس لئے صبر کا دامن تھامنے والے لوگ بڑے لوگ اور صاحبان عزیمت ہوتے ہیں ۔
اور ان کا اجر وثواب بے شمار اور اَن گنت ہے ۔
ساتویں بات یوں ارشاد فرمائی کہ قرآن حکیم یا تو تیرے حق میں حجت کا کام دے گا یا تمہارے خلاف گواہی دے کر تمہارا کام تمام کردے گا ۔قرآن حکیم کے ساتھ تعلق کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ۔ایک یہ کہ اللہ پاک کی اس عظیم کتاب کے جو حقوق ایمان والوں کے ذمہ ہیں، وہ اُن سے آگاہ بھی ہوں اور ان حقوق کی ادائیگی میں مخلصانہ جدوجہد بھی کرتے ہوں ۔
ایسے لوگ جب روز قیامت اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو قرآن حکیم ان کے حق میں گواہی دے کر ان کو سر خروکردے گا۔اس کے مقابلہ میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوں گے جنہوں نے قرآن حکیم کے حقوق کے سلسلہ میں سہل انگاری اور بے اعتنائی برتی ہوگی ۔اس کے حرام کو حرام نہ سمجھا ہو گا اور اس کی تعلیمات سے روگردانی روا رکھی ہو گی ۔ایسے لوگوں کے خلاف قرآن حکیم اپنی زبان کھولے گا اور اس طرح ان کی ناکامی پر مہرثبت کردے گا ۔
اس لئے ہر مسلمان کو جائزہ لینا چاہیے کہ وہ قرآن حکیم کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے روز حساب کس قسم کے لوگوں کے ساتھ ہو گا۔یہ احتساب نفس اگر اسی زندگی میں ہی کر لیا جائے تو اللہ کی کتاب عظیم کی مثبت شہادت کے کافی مواقع میسر آسکتے ہیں ۔ورنہ پچھتاوے اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکے گا ۔آٹھویں اور آخری بات بھی نہایت اہم ہے ۔
اور وہ یہ کہ ہر ایک انسان جب صبح کو بیدار ہوتاہے تو اس کے پاس اپنی جان اور اپنے نفس اور اس کی صلاحیتیوں اور توانائیوں کا بڑا خزانہ ہوتاہے ۔
وہ اُسے لے کر نکلتاہے اور دنیا کے اس بازار میں نیکی اور برائی دونوں کی فوجوں سے اس کو سابقہ پڑتاہے ۔اگر وہ ہمت کرے اور اپنی توانائیوں کو نیکی اور مثبت کاموں کے حصول میں صرف کرے تو وہ اپنے آپ کو برائیوں کی قوتوں اور شکنجوں سے آزاد کرا لیتاہے ۔اس طرح وہ دن کے آخری حصہ میں نہایت آسودہ خاطر ہلکا پھلکا اور حتمی طور پر مطمئن اور مسرور ہوتاہے ۔
اس کے برعکس اگر وہ برائی کی قوتوں کے ہتھے چڑھ جائے ،جائز وناجائز ،حرام وحلال اور اصلاح و فساد کی تمیز کے بغیر من مانی شروع کر دے تو شام ہونے تک وہ غیر شعوری طور پر اپنے نفس کو اپاہج کر چکا ہوتاہے ۔وہ آزردہ خاطر ،بھاری بھر کم ،نہایت مضطرب اور پریشان ہوتاہے ۔ جو ظاہر ہے کہ بڑے ہی گھاٹے اور خسارے کا سودا ہے ۔اس لئے عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کو صبح اٹھتے ہی اپنی ترجیحات کا ضرور تعین کرنا چاہیے۔
اپنے بھلے اور بُرے کا سوچنا چاہئے۔ زندگی کا ایک ایک دن بلکہ ایک ایک پل نہایت قیمتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توانائیوں کویوں ہی ضائع کردینا یا بُرائی اور شرکے پر چار میں جھوک دینا قطعاً کوئی دانشمندی کاکام نہیں ۔سورة البقرہ کی آیت نمبر 257میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ۔وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال کر لاتاہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست طاغوت ہوتے ہیں جو انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف گھسیٹ کر لے جاتے ہیں ۔
یہی لوگ دوزخ والے ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔میرے عزیز القدر سامعین !آئیے عہد کریں کہ آج کی زیر مطالعہ حدیث پاک کی ہر نصیحت کو حرز جان بنائیں گے ،طہارت اور پاکیزگی کا اہتمام کریں گے ،اللہ کریم کی تحمید اور تسبیح کریں گے ،نماز کا نور حاصل کریں گے ۔صدقہ وخیرات کو اپنے لئے برہان بنائیں گے ،صبر سے اللہ کی مدد حاصل کریں گے ،قرآن حکیم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اُسے اپنے لئے حجت بنائیں گے اور ہر دن کا آغاز سوچ سمجھ کر کریں گے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو خیر اور نیکی کے کاموں کے پر چار میں خرچ کرکے اللہ کے ہاں سر خرو ہوں گے ۔ان شاء اللہ۔

Browse More Islamic Articles In Urdu