Open Menu

Taqwa Ki Fazelat - Article No. 3317

Taqwa Ki Fazelat

تقویٰ کی فضیلت - تحریر نمبر 3317

اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ سے زیادہ قربت کا تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہوں گے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے تقویٰ کی زندگی بسر کریں گے ‘وہ جو کوئی بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔

بدھ 19 فروری 2020

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو یمن کے لئے (قاضی یا عامل بنا کر)روانہ فرمایا(اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہاں کے لئے روانہ ہونے لگے)تو(ان کو رخصت کرنے کے لئے )حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو کچھ نصیحتیں اور وصیتیں فرماتے ہوئے ان کے ساتھ چلے‘اس وقت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تو(حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے)اپنی سواری پر سوار تھے‘اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔
جب آپ(ضروری نصیحتوں اور وصیتوں سے)فارغ ہو چکے‘تو آپ نے فرمایا:
”اے معاذ!شاید میری زندگی کے اس سال کے بعد ہماری ملاقات نہ ہو۔

(جاری ہے)

(گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ فرمایا کہ یہ میری زندگی کا آخری سال ہے اور میں عنقریب اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل کیا جانے والا ہوں۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)اور شاید ایسا ہو کہ(جب کبھی تم یمن سے واپس آؤ‘تو بجائے مجھ سے ملنے کے اس مدینہ میں)تم میری اس مسجد اور میری قبر پہ گزرو“۔

یہ سن کر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تصور‘اور)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے صدمہ سے رونے لگے‘تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر کے اور مدینہ کی طرف رخ کرکے فرمایا :”مجھ سے زیادہ قریب اور مجھ سے زیادہ تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں(اور تقوے والی زندگی گزارتے ہیں)وہ جو بھی ہوں‘اور جہاں کہیں بھی ہوں۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر صحابہ میں سے تھے۔وہ بیعت عقبہ ثانیہ کے 72افراد میں شامل تھے۔ آپ جنگ بدر میں شریک تھے اور بعد کے اکثر غزوات میں بھی آپ نے حصہ لیا۔قرآن وحدیث کا عمدہ فہم رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حلال اور حرام کا علم جاننے والا سب سے بڑا عالم قرار دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ترغیب دیتے تھے کہ لوگ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید سیکھیں۔دین کے معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اُن کے مشوروں کو بہت اہمیت دیتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تو آپ رضی اللہ عنہ مشیر خاص تھے۔ایک دفعہ انہوں نے کہا:اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا۔9ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کا حاکم بنا کر روانہ کیا اور نصیحت فرمائی کہ لوگوں کے لئے آسانی مہیا کرنا ‘مشکلات پیدا نہ کرنا۔
حضرت معاذ بڑے شیریں بیان اور خوش کلام صحابی تھے۔ان سے 157 حدیثیں مروی ہیں۔”وہ مسنون دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو سکھائی کہ فرض نمازوں کے بعد پڑھا کریں۔
اس حدیث میں اُس وقت کی منظر کشی کی گئی ہے جب 9ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف عامل بنا کر بھیجا۔اس موقع پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ تو اپنی سواری پر سوار تھے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ پا اُن کی سواری کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔
تواضع اور انکساری اسلامی اخلاق کی محبوب صفت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”بعد از خدا بزرگ توئی“کے مقام پر فائز ہونے کے باوجود انتہائی متواضع تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے معمولی کام خود کر لیتے‘صحابہ کے ساتھ سفر میں ہوتے تو دوسروں کے برابر کام کرتے ۔جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھودنے میں بھی صحابہ کے ساتھ کھدائی کا کام کیا۔
یہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کو نمایاں کرنے کی بجائے تواضع کے ضمن میں بے مثال اُسوہ پیش کررہے ہیں کہ معاذ رضی اللہ عنہ تو سواری پر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے ضرور کہا ہو گا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سواری پر سوار ہو جائیں اور میں پیدل چلتا ہوں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو قبول نہ کیا اور پیدل ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کرتے وقت اپنی رائے پر اصرار ہر گزنہ کرتے تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کو اپنی خواہش پر ترجیح دیتے تھے۔چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی سواری کے ساتھ پیدل چلنا چاہا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے بھی اس بات کو مان لیا اور اصرار نہ کیا۔
اس میں اسلامی اخلاق کا ایک اور پہلو بھی نمایاں ہوتاہے کہ کسی کو رخصت کرتے وقت کچھ فاصلے تک اس کے ساتھ جانے میں جانے والے کی عزت افزائی اور اکرام بھی مسنون ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ضروری پندونصائح دے چکے تو پھر فرمایا کہ اے معاذ!شاید آج کے بعد میری تمہاری ملاقات نہ ہو۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں عنقریب عالم آخرت کی جانب منتقل کیا جانے والا ہوں اور یہ بھی فرمایا کہ جب تم یمن سے واپس آؤ گے تو تمہاری ملاقات مجھ سے نہ ہو گی‘بلکہ تم میری اس مسجد اور میری قبر سے گزروگے ۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کی خبر سنا رہے تھے اس لئے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے صدمے کا احساس کرکے رونے لگے۔اس پر لگتاہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی اس کیفیت کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف سے پھیر کر اپنا رُخ مبارک مدینہ کی طرف کر لیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنسو دیکھ کر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ مزید پریشان نہ ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ اس خبر سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو صدمہ پہنچا ہے ‘چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو یہ خوشخبری بھی سنادی کہ میری وفات کے ساتھ میری عقیدت مندوں اور جان نثاروں کو جو صدمہ ہو گا وہ وقتی ہو گا‘کیونکہ جب پر ہیز گار لوگ حیات دنیوی گزار کر عالم آخرت کی طرف مراجعت کریں گے تو ان کو وہاں میرا قرب نصیب ہو جائے گا۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تسلی دی کہ اس ظاہری فراق کا غم نہ کرو‘جب تمہارے دل میں خوف خدا اور تقویٰ ہو گا تو تم یمن میں رہتے ہوئے بھی مجھ سے دور نہ ہو گے‘بلکہ دار آخرت میں تو تم میرے ساتھ ہی ہو گے۔
اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ مجھ سے زیادہ قربت کا تعلق رکھنے والے وہ سب بندے ہوں گے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے تقویٰ کی زندگی بسر کریں گے ‘وہ جو کوئی بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔
یعنی آخرت میں میری پائیدار صحبت کے حصول کا معیار تقویٰ ہے۔یہ متقی لوگ چھوٹی ذات کے ہوں یا بڑی ذات کے ‘حاکم ہوں یا محکوم‘امیر ہوں یا مفلس ‘خوشحال ہوں یا مفلوک الحال‘عربی ہوں یا عجمی‘تندرست ہوں یا معذور ‘کالے ہوں یا گورے’میرے ساتھ ہوں گے۔پھر یہ متقی لوگ دنیا کے کسی خطے میں رہتے ہوں عرب میں ہوں یا عجم میں ’قیامت کے دن ایسے لوگوں کو میری رفاقت نصیب ہو گی۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس گفتگو میں گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی جامع نصیحت فرمائی کی دنیا میں زندگی اللہ تعالیٰ کے خوف میں گزاری جائے‘ہر وہ کام کیا جائے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی ہے ۔فرائض دینی کو پوری استطاعت کے مطابق بجا لایا جائے اور ہر اس کام سے باز رہا جائے‘جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے یا پسند نہیں کیا۔
نیز حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رہے۔یہی تقویٰ ہے اور ایسے ہی متقی لوگ اللہ کے ہاں معزز اور مکرم ہوں گے‘جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:(الحجرات:13)”بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے بڑھ کر متقی ہے۔“
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ 9ھ کو یمن گئے اور 11ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت ہو گئی۔چنانچہ جب وہ 11ھ میں واپس مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات نہ ہو سکی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہو چکی تھی۔اب حضرت معاذ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے ہی گزرہوا‘جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو خبر دی تھی۔

Browse More Islamic Articles In Urdu