Open Menu

Walden Ka Ehteraam - Article No. 3202

Walden Ka Ehteraam

والدین کا احترام - تحریر نمبر 3202

دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب واحترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

جمعہ 26 جولائی 2019

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب واحترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے۔مثلاً جب کبھی اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف توجہ دلانا چاہی ہے اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تعلیم دی ہے ۔
سورة لقمان:14(ترجمہ)اے بندوتم میرا(اللہ کا)شکرکرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کروتم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
یاد رکھئے کہ جس طرح سے اللہ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں۔انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں ۔

(جاری ہے)

ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔

سورة الاحقاف15-16(ترجمہ)اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنم دیا،اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچاتو کہنے لگا اے میرے پروردگار!مجھے تو فیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجالاؤں جوتو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا۔
میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فرمالیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں،(یہ)جنتی لوگوں میں ہیں ۔اس سچے وعدے کے مطابق جوان سے کیا جاتا تھا۔والدین سے نافرمانی کرنے والوں کے لئے گھاٹا ہی گھاٹا ہے ۔ سورة الاحقاف17-18(ترجمہ)اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا ،تم مجھ سے یہی کہتے رہوگے کہ میں مرنے کے بعد پھر زندہ کیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں ،وہ دونوں والدین جناب باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہوتو ایمان لے آ،بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے ،وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں،یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہے اور جنوں اور انسانوں کی ان امتوں میں شامل ہو گئے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں، یقینا وہ تھے ہی گھاٹا اٹھانے والے ۔
اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا کہ :(ترجمہ)۔”تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کروتم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کروتم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرو،پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔پھر اس کے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(مظہری)ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم اللہ تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر دیاہے۔

(1)بچہ کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے ۔
(2)بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور نشونما کے لئے اس کے بدن سے بچے کو غذادی جاتی ہے ۔
(3)ہر وقت بچہ کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا۔
(4)ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے ،نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کی تعلیم وتربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے ۔
دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم ماؤں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔
واضح ہے کہ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں۔اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں،بہت ساری مائیں بچوں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپا ہج بنادیتی ہیں یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھریلو معاملات میں باپ کا مخالف بنادیتی ہیں ۔
جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کررہ جاتا ہے ۔ایسی مائیں اللہ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایساکرتی ہیں ،سورة النساء:34(ترجمہ)مردعورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں،پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں)اطاعت شعار۔(مردوں کی)غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں دی ہیں ۔اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں۔کیونکہ گھر یلو سکون کی اہمیت اور بقاللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے۔ایسی ماؤں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسی ماؤں کا اجر کم ہوجاتا ہے ۔کیونکہ وہ خاوند کو اس کے مقام سے گراکراولاد کی مدد سے گھر یلو سکون کو تباہ وبرباد کرتی ہیں۔کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں ۔جب وہ خود اپنے پیدا کئے ہوئے مسائل میں گھر کر پریشان ہوجاتی ہیں۔لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔

حقیقت میں ہر بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہو جاتا ہے ۔سورة الفاطر:43(ترجمہ)کسی بھی بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو مل کر رہتا ہے ۔سورة الاسراء23-24-25میں والدین کے ادب واحترام کے لئے مزید تفصیل دی گئی ہے۔(ترجمہ)اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔
اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار !ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ۔جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہوتو وہ تورجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب واحترام کی بات کی ہے ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھا یا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا،ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے۔مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ ،اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔
اگر چہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرنا چاہیے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہوجائیں۔کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارومددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے،اللہ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں:۔
(1)والدین کو ان کی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے۔

(2)ان کے سامنے چلا کر نہیں بولنا چاہئے۔
(3)انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہمدردی کے انداز میں ان سے بات کرنی چاہئے۔
(4)والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرمانبردای اور نرمی سے کرنا چاہئے۔ان کے ساتھ رحمددلی کا معاملہ ہونا چاہئے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہئے ،محض دکھانے کے لئے روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔
(5)ہمیں والدین کے لئے دعا کرنا چاہئے ،اے اللہ تعالیٰ میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جسم طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم وکرم کرتے تھے۔
یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہئے،ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے ۔اور اس کی تلقین فرمائی ہے۔
(6)سورة الاسراء کی آیت نمبر 25میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کردی ہے کہ ا گرکسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی ناز یبا کلمات نکل جائیں جو لا پر واہی کی وجہ سے نہیں بلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہوجائے تو اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں سزانہ دے گا ۔بشر طیکہ ہم خلوص دل سے توبہ کرلیں اور معافی مانگ لیں، اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔

Browse More Islamic Articles In Urdu