Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom .... Baeroon Makka Dawat E Islam - Article No. 1240

Al Raheeq Almakhtoom .... Baeroon Makka Dawat E Islam

الرحیق المختوم ۔۔۔۔۔ بیرون مکہ دعوت اسلام - تحریر نمبر 1240

آپﷺ نے طائف سے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے اور دیکھتے دیکھتے آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری جمعرات 21 دسمبر 2017

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طائف میں:
شوال 10 نبوت (اواخر مئی یا اوائل جون 619ء) میں نبیﷺ طائف تشریف لے گئے۔ یہ مکے سے تقریباً ساٹھ میل دور ہے۔ آپﷺ نے یہ مسافت آتے جاتے پیدل طے فرمائی تھی۔ آپﷺ کے ہمراہ آپﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ تھے۔ راستے میں جس قبیلے سے گزر ہوتا اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن کسی نے بھی یہ دعوت قبول نہ کی۔

جب طائف پہنچے تو قبیلہ ثقیف کے تین سرداروں کے پاس تشریف لے گئے، جو آپس میں بھائی تھے اور جن کے نام یہ تھے عبد یا لیل، مسعود اور حبیب۔ ان تینوں کے والد کا نام عمرو بن عمیر ثقفی تھا۔ آپﷺ نے ان کے پاس بیٹھنے کے بعد انہیں اللہ کی اطاعت اور اسلام کی مدد کی دعوت دی۔ جواب میں ایک نے کہا کہ وہ کعبے کا پردہ پھاڑے اگر اللہ نے تمہیں رسول بنایا ہو (یہ اردو کے اس محاورے سے ملتا جلتا ہے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو اللہ مجھے غارت کرے: مقصود اس یقین کا اظہار ہے کہ تمہارا پیغمبر ہونا ناممکن ہے، جیسے کعبے کے پردے پر دست درازی کرنا ناممکن ہے) دوسرے نے کہا: کیا اللہ کو تمہارے علاوہ کوئی اور نہ ملا؟ تیسرے نے کہا: میں تم سے ہرگز بات نہ کروں گا۔

(جاری ہے)

اگر تم واقعی پیغمبر ہو تو تمہاری بات رد کرنا میرے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر تم نے اللہ پر جھوٹ گھڑ رکھا ہے تو پھر مجھے تم سے بات کرنی ہی نہیں چاہیے۔ یہ جواب سن کر آپﷺ وہاں سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور صرف اتنا فرمایا تم لوگوں نے جو کچھ کیا کیا، بہرحال اسے پس پردہ ہی رکھنا۔
رسول اللہﷺ نے طائف میں دس دن قیام فرمایا۔ اس دوران آپﷺ ان کے ایک ایک سردار کے پاس تشریف لے گئے اور ہر ایک سے گفتگو کی لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا کہ تم ہمارے شہر سے نکل جاﺅ۔
بلکہ انہوں نے اپنے اوباشوں کو شہ دے دی۔ چنانچہ جب آپﷺ نے واپسی کا قصد فرمایا تو یہ اوباش گالیاں دیتے، تالیاں پیٹتے اور شور مچاتے آپﷺ کے پیچھے لگ گئے اور دیکھتے دیکھتے اتنی بھیڑ جمع ہوگئی کہ آپﷺ کے راستے کے دونوں جانب لائن لگ گئی۔ پھر گالیوں اور بد زبانیوں کے ساتھ ساتھ پتھر بھی چلنے لگے، جس سے آپﷺکی ایڑی پر اتنے زخم آئے کہ دونوں جوتے خون میں تر بتر ہو گئے۔
ادھر حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ ڈھال بن کر چلتے ہوئے پتھروں کو روک رہے تھے جس سے ان کے سر میں کئی جگہ چوٹ آئی۔ بدمعاشوں نے یہ سلسلہ برابر جاری رکھا یہاں تک کہ آپﷺ کو عتبہ اور شیبہ ابنائے ربیعہ کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ یہ باغ طائف سے تین میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ جب آپﷺ نے یہاں پناہ لی تو بھیڑ واپس چلی گئی اور آپﷺ ایک دیوار سے ٹیک لگا کر انگور کی بیل کے سائے میں بیٹھ گئے، قدرے اطمینان ہوا تو دعا فرمائی جو دعائے مستضعنین کے نام سے مشہور ہے۔
اس دعا کے ایک ایک فقرے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ طائف میں اس بدسلوکی سے دوچار ہونے کے بعد اور کسی ایک شخص کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپﷺ کس قدر دل فگار تھے اور آپﷺ کے احساسات پر حزن و الم اور غم و افسوس کا کس قدر غلبہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: بارالہا: میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔
یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کسی کے حوالے کر رہا ہے؟ کیا کسی بیگانے کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تُو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں؟ لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تُو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے، یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تُو خوش ہو جائے اور تیرے بغیر نازل کوئی زور اور طاقت نہیں۔

ادھر آپﷺ کو ابنائے ربیعہ نے اس حالت زار میں دیکھا تو ان کے جذبہ قرابت میں حرکت پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام کو، جس کا نام عداس تھا، بلا کر کہا اس انگور سے ایک گچھا لو اور اس شخص کو دے آﺅ۔ جب اس نے انگور آپﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپﷺ نے بسم اللہ کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور کھانا شروع کیا۔
عداس نے کہا: یہ جملہ تو اس علاقے کے لوگ نہیں بولتے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور نینویٰ کا باشندہ ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا! تم مرد صالح یونس بن متی کی بستی کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا: آپﷺ یونس بن متی کو کیسے جانتے ہیں؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ میرے بھائی تھے۔ وہ نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ یہ سن کر عداس رسول اللہﷺ پر جھک پڑا اور آپﷺ کے سر اور ہاتھ پاﺅں کو بوسہ دیا۔

یہ دیکھ کر ربیعہ کے دونوں بیٹوں نے آپس میں کہا: لو! اب اس شخص نے ہمارے غلام کو بگاڑ دیا۔ اس کے بعد جب عداس واپس گیا تو دونوں نے اس سے کہا: اجی یہ کیا معاملہ تھا؟ اس نے کہا میرے آقا روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی اور نہیں۔ اس نے مجھے ایک ایسی بات بتائی جسے نبیﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان دونوں نے کہا دیکھو عداس کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے پھیر نہ دے کیونکہ تمہارا دین اس کے دین سے بہتر ہے۔

قدرے ٹھہر کر رسول للہﷺ باغ سے نکلے تو مکے کی راہ پر چل پڑے۔ غم و الم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ قرن منازل پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے، ان کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا۔ وہ آپﷺ سے یہ گذارش کرنے آیا تھا کہ آپﷺ حکم دیں تو وہ اہل مکہ کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس ڈالے، اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔
ان کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک روز رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ کیا آپﷺ پر کوئی ایسا دن بھی آیا ہے جو احد کے دن سے زیادہ سنگین رہا ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! تمہاری قوم سے مجھے جن جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے سنگین مصیبت وہ تھی جس سے میں گھاٹی کے دن دوچار ہوا، جب میں نے اپنے آپ کو عبد یا لیل بن عبد کلال کے صاحبزادے پر پیش کیا مگر اس نے میری بات منظور نہ کی تو میں غم و الم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قزن ثعالب پہنچ کر ہی افاقہ ہوا۔
وہاں میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بادل کا ایک ٹکڑا مجھ پر سایہ فگن ہے۔ میں نے بغور دیکھا تو اس میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تھے، انہوں نے مجھے پکار کر کہا آپﷺ کی قوم نے آپﷺ سے جو بات کہی اللہ نے اسے سن لیا ہے۔ اب اس نے آپﷺ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے تاکہ آپﷺ ان کے بارے میں اسے جو حکم چاہیں دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتے نے مجھے آواز دی اور سلام کرنے کے بعد کہا: اے محمدﷺ! بات یہی ہے۔
اب آپﷺ جو چاہیں۔۔۔۔ اگر چاہیں کہ میں انہیں دو پہاڑوں (اس موقع پر صحیح بخاری میں لفظ اخشبین استعمال کیا گیا ہے جو مکہ کے دو مشہور پہاڑوں ابو قنبیس اور قیقعان پر بولا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہاڑ علی الترتیب حرم کے جنوب میں آمنے سامنے واقع ہیں، اس وقت مکے کی عام آبادی ان ہی دو پہاڑوں کے بیچ میں تھی) پہاڑوں کے درمیان کچل دوں۔۔۔ تو ایسا ہی ہوگا۔
نبیﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
رسول اللہﷺ کے اس جواب میں آپﷺ کی یگانہ روزگار شخصیت اور ناقابل ادراک گہرائی رکھنے والے اخلاق عظیمہ کے جلوے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہرحال اب سات آسمانوں کے اوپر سے آنے والی اس غیبی مدد کی وجہ سے آپﷺ کا دل مطمئن ہوگیا اور غم و الم کے بادل چھٹ گئے چنانچہ آپﷺ نے مکے کی راہ پر مزید پیش قدمی فرمائی اور وادی نخلہ میں جا فروکش ہوئے۔
یہاں دو جگہیں قیام کے لائق ہیں، ایک السیل الکبیر اور دوسرے زیمہ، کیونکہ دونوں ہی جگہ پانی اور شادابی موجود ہے لیکن کسی ماخذ سے یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ آپﷺ نے ان میں سے کس جگہ قیام فرمایا تھا۔
وادی نخلہ میں آپﷺ کا قیام چند دن رہا۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے پاس جنوں کی ایک جماعت بھیجی جس کا ذکر قرآن مجید میں دو جگہ آیا ہے۔
ایک سورة الاحقاف میں، دوسرے سورة جن میں، سورة الاحقاف کی آیات یہ ہیں:
ترجمہ: ”اور جب کہ ہم نے آپﷺ کی طرف جنوں کے ایک گروہ کو پھیرا کہ قرآن سنیں تو جب وہ (تلاوت) قرآن کی جگہ پہنچے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ چپ ہو جاؤ، پھر جب اس کی تلاوت پوری کی جا چکی تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب الہٰی سے ڈرانے والے بن کر پلٹے۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والی ہے، حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اے ہماری قوم! اللہ کے داعی کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آﺅ، اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں درد ناک عذاب سے بچائے گا۔

سورة جن کی آیات یہ ہیں:
ترجمہ: ”آپ کہہ دیں، میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور باہم کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے، ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں کر سکتے۔“ (پندرھویں آیت تک)
یہ آیات جو اس واقعے کے بیان کے سلسلے میں نازل ہوئیں ان کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو ابتداً جنوں کی اس جماعت کی آمد کا علم نہ ہوسکا تھا بلکہ جب ان آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کو اطلاع دی گئی تب آپﷺ واقف ہو سکے۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوں کی یہ آمد پہلی بار ہوئی تھی اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد ان کی آمد و رفت ہوتی رہی۔
جنوں کی آمد اور قبول اسلام کا واقعہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے دوسری مدد تھی جو اس نے اپنے غیبِ مکنون کے خزانے سے اپنے اس لشکر کے ذریعے فرمائی تھی جس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، پھر اس واقعے کے تعلق سے جو آیات نازل ہوئیں ان کے بیچ میں نبیﷺ کی دعوت کی کامیابی کی بشارتیں بھی ہیں اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کائنات کی کوئی بھی طاقت اس دعوت کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی۔
چنانچہ ارشاد ہے:
ترجمہ: ”جو اللہ کے داعی کی دعوت قبول نہ کرے وہ زمین میں (اللہ کو) بے بس نہیں کر سکتا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی کارساز ہے بھی نہیں اور ایسے لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں۔“
”ہماری سمجھ میں آ گیا ہے کہ ہم اللہ کو زمین میں بے بس نہیں کر سکتے اور نہ ہم بھاگ کر ہی اسے (پکڑنے سے) عاجز کر سکتے ہیں۔“
ان نصرت اور ان بشارتوں کے سامنے غم و الم اور حزن و مایوسی کے وہ سارے بادل چھٹ گئے جو طائف سے نکلتے وقت گالیاں اور تالیاں سننے اور پتھر کھانے کی وجہ سے آپﷺ پر چھائے تھے۔
آپﷺ نے عزم مصمم فرما لیا کہ اب مکہ پلٹنا ہے اور نئے سرے سے دعوت اسلام اور تبلیغ رسالت کے کام میں چستی اور گرم جوشی کے ساتھ لگ جانا ہے۔ یہی موقع تھا جب حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ نے آپﷺ سے عرض کی کہ آپﷺ مکہ کیسے جائیں گے جبکہ وہاں کے باشندوں یعنی قریش نے آپﷺ کو نکال دیا ہے؟ اور جواب میں آپﷺ نے فرمایا: اے زید! تم جو حالت دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے کشادگی اور نجات کی کوئی راہ ضرور بنائے گا۔
اللہ یقیناً اپنے دین کی مدد کرے گا۔ اور اپنے نبی کو غالب فرمائے گا۔
آخر رسول اللہﷺ وہاں سے روانہ ہوئے اور مکے کے قریب پہنچ کر کوہ حرا کے دامن میں ٹھہر گئے۔ پھر خزاعہ کے ایک آدمی کے ذریعے اخنس بن شریق کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ آپﷺ کو پناہ دے دے مگر اخنس نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں حلیف ہوں اور حلیف پناہ دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔
اس کے بعد آپﷺ نے سہیل بن عمرو کے پاس یہی پیغام بھیجا مگر اس نے بھی یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ بنی عامر کی دی ہوئی پناہ بنو کعب پر لاگو نہں ہوتی۔ اس کے بعد آپﷺ نے مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا۔ مطعم نے کہا: ہاں اور پھر ہتھیار پہن کر اپنے بیٹوں اور قوم کے لوگوں کو بلایا اور کہا تم لوگ ہتھیار باندھ کر خانہ کعبہ کے گوشوں پر جمع ہو جاﺅ کیونکہ میں نے محمدﷺ کو پناہ دے دی ہے۔
اس کے بعد مطعم نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ مکے کے اندر آجائیں۔ آپﷺ پیغام پانے کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کو ہمراہ لے کر مکہ تشریف لائے اور مسجد حرام میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد مطعم بن عدی نے اپنی سواری پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ قریش کے لوگو! میں نے محمدﷺ کو پناہ دے دی ہے۔ اب اسے کوئی نہ چھیڑے۔ ادھر رسول اللہﷺ سیدھے حجر اسود کے پاس پہنچے، اسے چوما۔
پھر دو رکعت نماز پڑھی اور اپنے گھر کو پلٹ آئے۔ اس دوران مطعم بن عدی اور ان لڑکوں نے ہتھیار بند ہو کر آپﷺ کے اردگرد حلقہ باندھے رکھا تا آنکہ آپﷺ اپنے مکان کے اندر تشریف لے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر ابوجہل نے مطعم سے پوچھا تھا کہ تم نے پناہ دی ہے یا پیروکار ۔۔۔۔ مسلمان ۔۔۔۔۔ بن گئے ہو؟ اور مطعم نے جواب دیا تھا کہ پناہ دی ہے اور اس جواب کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔

رسول اللہﷺ مطعم بن عدی کے اس حسن سلوک کو کبھی فراموش نہ فرمایا۔ چنانچہ بدر میں جب کفار مکہ کی ایک بڑی تعداد قید ہوکر آئی۔ اور بعض قیدیوں کی رہائی کے لیے حضرت جبیر بن مطعم آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ”اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا، پھر مجھ سے ان بدبو دار لوگوں کے بارے میں گفتگو کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا۔“

Browse More Islamic Articles In Urdu