Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom .... Dosri Baeyat E Obqah - Article No. 1458

Al Raheeq Almakhtoom .... Dosri Baeyat E Obqah

الرحیق المختوم، دوسری بیعت عبقہ - تحریر نمبر 1458

دوسری بیعت عبقہ ہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام و بت پرستی کی جنگ میں رفتار زمانہ کا رخ موڑ دیا

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری منگل 16 جنوری 2018

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج جون 622ء میں یثرب کے ستر سے زیادہ مسلمان فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے اور ابھی یثرب ہی میں تھے، یا مکے کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کو یوں ہی مکے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے، ٹھوکریں کھاتے اور خوفزدہ کئے جاتے چھوڑے رکھیں گے؟
پھر جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو درپردہ نبیﷺ کے ساتھ سلسلہ اور رابطہ شروع کیا اور آخرکار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں فریق ایام تشریق (ماہ ذی الحجہ گیارہ بارہ تیرہ تاریخوں کو ایام تشریق کہتے ہیں) کے درمیانی دن 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں جمرہ اولیٰ یعنی جمرہ عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اس میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں بالکل خفیہ طریقے پر ہو۔

(جاری ہے)


آئیے اب اس تاریخی اجتماع کے احوال، انصار کے ایک قائد کی زبانی سنیں کہ یہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام و بت پرستی کی جنگ میں رفتار زمانہ کا رخ موڑ دیا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ہم لوگ حج کے لیے نکلے۔ رسول اللہﷺ سے ایام تشریق کے درمیانی روز عقبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں رسول اللہﷺ سے ملاقات طے تھی۔
ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبداللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا۔ ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے۔ مگر ہم نے عبداللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا کہ اے ابو جابر! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔
اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہﷺ سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔“
حضرت کعب رضی اللہ عنہ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”ہم لوگ حسب دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہﷺ کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔
ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہو گئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی، تہتر مرد اور دو عورتیں۔ ایک ام عمارہ رضی اللہ عنہا نسیبہ بنت کعب تھیں جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع رضی اللہ عنہا اسماء بنت عمرو تھیں جن کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا۔

ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہﷺ کا انتظار کرنے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ کے ساتھ آپﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی تھے۔ وہ اگرچہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملے میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کر لیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔

گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح:
مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد و پیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کر دیں جو اس عہد و پیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔
چنانچہ انہوں نے کہا:
”خزرج کے لوگو! عام اہل عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے۔ ہمارے اندر محمدﷺ کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطہ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں ہم نے محمدﷺ کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت و عزت اور طاقت و حفاظت کے اندر ہیں مگر اب وہ تمہارے جانے اور رتمہارے ساتھ لاحق ہونے پر مصر ہیں،لہٰذا اگر تمہارا خیال ہے کہ تم انہیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو اسے نبھا لو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچا لو گے تب تو ٹھیک ہے، تم نے جو ذمے داری اٹھائی ہے اسے تم جانو۔
لیکن اگر تمہارا یہ اندازہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کش ہو جاؤ گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہرحال عزت و حفاظت سے ہیں۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسولﷺ آپﷺ گفتگو فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو عہد و پیمان پسند کریں لیجیے۔
(اسے امام احمد بن حنبل نے حسن سند سے روایت کیا ہے اور امام حاکم اور ابن عبان نے صحیح کہا ہے۔ ابن اسحاق نے قریب قریب یہی چیز حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے البتہ اس میں ایک دفعہ کا اضافہ ہے جو یہ ہے کہ اہل حکومت کے لیے نزاع نہ کریں گے۔)
اس جواب سے پتا چلتا ہے کہ اس عظیم ذمے داری کو اٹھانے اور اس کے پر خطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصار کے عزم محکم، شجاعت و ایمان اور جوش و اخلاص کا کیا حال تھا۔
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے گفتگو فرمائی، آپﷺ نے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی، اس کے بعد بیعت ہوئی۔
بیعت کی دفعات:
بیعت کا واقعہ امام احمد رحمتہ اللہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپﷺ سے کس بات پر بیعت کریں۔
آپﷺ نے فرمایا اس بات پر کہ:
1۔ چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔
2۔ تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے۔
3۔ بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔
4۔ اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرو گے۔
5۔ اور جب میں تمہارے پاس آ جاؤں گا تو میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری بھی حفاظت کرو گے۔

اور تمہارے لیے جنت ہے۔“
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی روایت میں، جسے ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے، صرف آخری دفعہ کا ذکر ہے چنانچہ اس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے قرآن کی تلاوت، اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی ترغیب دینے کے بعد فرمایا: ”میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔
“ اس پر حضرت برأ رضی اللہ عنہ بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا ہاں! اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں لہٰذا اے اللہ کے رسولﷺ آپﷺ ہم سے بیعت لیجیے، ہم خدا کی قسم جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے، ہماری یہی ریت باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔

حضرت کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت برأ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ سے بات کر ہی رہے تھے کہ ابو الہیثم رضی اللہ عنہ بن تیہان نے بات کاٹتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ہمارے اور کچھ لوگوں یعنی یہود کے درمیان عہد و پیمان کی رسیاں ہیں، اور اب ہم ان رسیوں کو کاٹنے والے ہیں، تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم ایسا کر ڈالیں پھر اللہ آپﷺ کو غلبہ و ظہور عطا فرمائے تو آپﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔

یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، پھر فرمایا: (نہیں) بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون اور آپ لوگوں کی بربادی میری بربادی ہے، میں آپ سے ہوں اور آپ مجھ سے ہیں، جس سے آپ جنگ کریں گے اس سے میں جنگ کروں گا اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے میں صلح کروں گا۔
خطرناکیٴ بیعت کی مکرر یاد دہانی:
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت و شنید مکمل ہو چکی اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو صف اوّل کے دو مسلمان، جو 11 نبوت اور 12 نبوت کے ایام حج میں مسلمان ہوئے تھے، یکے بعد دیگرے اٹھے تاکہ لوگوں کے سامنے ان کی ذمہ داری کی نزاکت اور خطرناکی کو اچھی طرح واضح کر دیں اور یہ لوگ معاملے کے سارے پہلوؤں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی بیعت کریں۔
اس سے یہ بھی پتہ لگانا مقصود تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہو گئے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ نضلہ نے کہا: تم لوگ جانتے ہو کہ ان سے (اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا) کس بات پر بیعت کر رہے ہو؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تم ان سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔
اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کر دیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دو گے تو ابھی سے چھوڑ دو کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہد نبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو کیونکہ یہ خدا کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

اس پر سب نے بیک آواز کہا: ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں، ہاں! اے اللہ کے رسولﷺ! ہم نے یہ عہدپورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا جنت۔ لوگوں نے عرض کی اپنا ہاتھ پھیلائیے، آپﷺ نے ہاتھ پھیلایا اور لوگوں نے بیعت کی۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے، جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے، آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے اہل یثرب ذرا ٹھہر جاؤ، ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے کلیجے مار کر یعنی لمبا چوڑا سفر کرکے اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں، آج آپﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل اور رتلواروں کی مار۔
لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو اور تمہارا اجر اللہ پر ہے، اور اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابل قبول عذر ہوگا۔
بیعت کی تکمیل:
بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہو چکی تھیں، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہو چکی تھی، اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا: ”اسعد بن زرارہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ، خدا کی قسم ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔

اس جواب سے حضرت اسعد رضی اللہ عنہ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ قوم کس حد تک اس راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہے۔ درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہ حضرت مصعب بن عمیر کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تھے، اس لیے طبعی طور پر وہی ان بیعت کنندگان کے دینی سربراہ بھی تھے اور اسی لیے سب سے پہلے انہیں نے بیعت بھی کی۔ چنانچہ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ بنو النجار کہتے ہیں کہ ابو امامہ اسعد زرارہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ سے ہاتھ ملایا۔
(ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ بنو عبدالاشہل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ابوالہیثم بن تہیان نے بیعت کی اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کہتے ہیں کہ برأ بن معرور نے کی۔راقم کا خیال ہے کہ ممکن ہے بیعت سے پہلے نبیﷺ سے حضرت ابوالہیثم اور برأ کی گفتگو ہوئی تھی، لوگوں نے اسی کو بیعت شمار کرلیا ہو ورنہ اس وقت آگے بڑھائے جانے کے سب سے زیادہ حقدار حضرت اسعد بن زرارہ ہی تھے۔
واللہ اعلم) اس کے بعد بیعت عامہ ہوئی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک آدمی کرکے اٹھے اور آپﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔
باقی رہیں دو عورتیں جو اس موقعے پر حاضر تھیں تو ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔
بارہ نقیب:
بیعت مکمل ہو چکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات پر عملدرآمد کے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔
آپ کا ارشاد تھا کہ آپ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نصیبوں کا انتخاب عمل میں آ گیا۔ نو خزرج سے منتخب کئے گئے اور تین اوس سے نام یہ ہیں:
خزرج کے نقباء
1۔ اسعد بن زرارہ بن عدس 2۔ سعد بن ربیع بن عمرو
3۔ عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ 4۔
رافع بن مالک بن عجلان
5۔ برأ بن معرور بن صخر 6۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام
7۔ عبادہ بن صامت بن قیس 8۔ سعد بن عبادہ بن ولیم
9۔ منذر بن عمروبن خنیس
اوس کے نقباء
1۔ اُسید بن حضیر بن سماک 2۔ سعد بن خیثمہ بن حارث
3۔ رفاعہ بن عبدالمنذر بن زبیر (زبیر حرف ب سے بعض لوگوں نے ب کی جگہ ن کہا ہے یعنی زنیر۔ بعض اہل سیر نے رفاعہ کے بدلے ابو الہیثم بن تہیان کا نام درج ذیل کیا ہے)
جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ نے ایک اور عہد لیا۔
آپﷺ نے فرمایا: آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا جی ہاں۔
شیطان معاہدہ کا انکشاف کرتا ہے
معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتا لگ گیا۔ چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچا دی جائے اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں۔
اس لیے اس شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہوکر نہایت بلند آواز سے، جو شاید ہی کبھی سنی گئی ہو، یہ پکار لگائی! خیمے والو! محمدﷺ کو دیکھو، اس وقت بددین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔“
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے اور اللہ کے دشمن سن، اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہو رہا ہوں۔“ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔

قریش پر ضرب لگانے کے لیے انصار کی مستعدی
اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبادہ بن نضلہ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا ہے، آپ ﷺ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپﷺ نے فرمایا ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا، بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں، اس کے بعد لوگ واپس جا کر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

روٴسا یثرب سے قریش کا احتجاج
یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم و الم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان و مال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا، چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے روٴسا اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھر کم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا اور یوں عرض پرداز ہوا:
”خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔

لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے کیونکہ یہ مکمل رازداری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے، ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہی نہیں، بالآخر یہ وفد عبداللہ بن ابی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ یہ بھی کہنے لگا: ”یہ باطل ہے، ایسا نہیں ہوا ہے، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کا کام کر ڈالے، اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کئے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔

باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور چپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر روٴسا قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔
خبر کا یقین اور بیعت کرنے والوں کا تعاقب
روٴسا مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے لیکن اس کی کرید میں برابر لگے رہے۔
بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ یہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے لیکن یہ پتا اس وقت چلا جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے، اس لیے ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا لیکن موقع نکل چکا تھا، البتہ انہوں نے سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو کو دیکھ لیا اور انہیں جا کھدیڑا لیکن منذر زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے اور نکل بھاگے، البتہ سعد بن عبادہ پکڑ لئے گئے اور ان کا ہاتھ گردن کے پیچھے انہیں کے کجاوے کی رسی سے باندھ دیا گیا، پھر انہیں مارتے پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے مکہ لے جایا گیا لیکن وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ نے آکر چھڑا دیا کیونکہ ان دونوں کے جو قافلے مدینے سے گزرتے تھے وہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہی کی پناہ میں گزرتے تھے، ادھر انصار ان کی گرفتاری کے بعد باہم مشورہ کر رہے تھے کہ کیوں نہ دھاوا بول دیا جائے مگر اتنے میں وہ دکھائی پڑ گئے، اس کے بعد تمام لوگ بخیریت مدینہ پہنچ گئے۔

یہی عقبہ کی دوسری بیعت ہے جسے بیعت عقبہ کبریٰ کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ایک ایسی فضا میں زیر عمل آئی جس پر محبت و وفاداری، منتشر اہل ایمان کے درمیان تعاون و تناصر، باہمی اعتماد اور جاں سپاری و شجاعت کے جذبات چھائے ہوئے تھے۔ چنانچہ یثربی اہل ایمان کے دل اپنے کمزور مکی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے۔ ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم و غصہ تھا، ان کے سینے اپنے اس بھائی کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر محض للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے لیا تھا۔

اور یہ جذبات و احساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو جاتی ہے بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور ایمان بالکتاب تھا، یعنی وہ ایمان جو ظلم و عدو ان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سر نگوں نہیں ہوتا، وہ ایمان کہ جب اس کی بادِ بہاری چلتی ہے تو عقیدہ و عمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحات زمانہ پر ایسے ایسے کارنامے ثبت کئے اور ایسے ایسے آثار و نشانات چھوڑے کہ ان کی نظیر سے ماضی و حاضر خالی ہیں اور غالباً مستقبل بھی خالی ہی رہے گا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu