Open Menu

Al Raheeq Almakhtoom .... Hijrat Kay Har-awal Dastay - Article No. 1554

Al Raheeq Almakhtoom .... Hijrat Kay Har-awal Dastay

الرحیق المختوم، ہجرت کے ہراول دستے - تحریر نمبر 1554

مسلمانوں نے تمام مصائب اور رنج و الم کو جانتے ہوئے ہجرت کی. مشرکین نے ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کر دیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مظمر ہیں

maulana safiur rahman mubarakpuri مولانا صفی الرحمان مبارک پوری پیر 29 جنوری 2018

جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہو گئی، اسلام، کفر و جہالت کے لق و دق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی۔ تو رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے اس نئے وطن کی طرف ہجرت کر جائیں۔
ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچا لی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے۔

ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جا سکتی ہے۔ پھر سفر بھی ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم و الم رونما ہوں گے۔
مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کر دی۔

(جاری ہے)

ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں۔

ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
۱۔ سب سے پہلے مہاجر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے تھے۔ جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی بیگم، اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آ گئے لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں؟ چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔
اس پر ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کو تاؤ آ گیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے، چنانچہ دونوں فریق نے اس بچے کو اپنی اپنی طرف کھینچا جس سے اس کا ہاتھ اکھڑ گیا اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔
اس کے بعد حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے بعد روزانہ صبح صبح ابطح پہنچ جاتیں (جہاں یہ ماجرا پیش آیا تھا) اور شام تک روتی رہتیں۔ اس حالت میں ایک سال گزر گیا بالآخر ان کے گھرانے کے کسی آدمی کو ترس آ گیا اور اس نے کہا کہ اس بیچاری کو جانے کیوں نہیں دیتے؟ اسے خواہ مخواہ اس کے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے، اس پر اُم سلمہ رضی اللہ عنہ سے ان کے گھر والوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو اپنے شوہر کے پاس چلی جاوٴ۔
حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیٹے کو اس کے ددھیال والوں سے واپس لیا اور مدینہ چل پڑیں۔ اللہ اکبر! کوئی پانچ سو کلومیٹر کی مسافت کا سفر اور ساتھ میں اللہ کی کوئی مخلوق نہیں۔ جب تنعیم پہنچیں تو عثمان بن ابی طلحہ مل گیا، اُسے حالات کی تفصیل معلوم ہوئی تو مشایعت کرتا ہوا مدینہ پہنچانے لے گیا۔ اور جب قُباء کی آبادی نظر آئی تو بولا تمہارا شوہر اسی بستی میں ہے، اس میں چلی جاؤ۔
اللہ برکت دے۔ اس کے بعد وہ مکہ پلٹ آیا۔
2۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان سے کفار قریش نے کہا کہ تم ہمارے پاس آئے تھے تو حقیر و فقیر تھے لیکن یہاں آ کر تمہارا مال بہت زیادہ ہو گیا اور تم بہت آگے پہنچ گئے، اب تم چاہتے ہو کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں لے کر چل دو، تو بخدا ایسا نہیں ہو سکتا۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ اگر میں اپنا مال چھوڑ دوں تو تم میری راہ چھوڑ دو گے؟ انہوں نے کہا ہاں۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا تو پھر ٹھیک ہے، چلو میرا مال تمہارے حوالے۔ رسول اللہﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا صہیب رضی اللہ عنہ نے نفع اُٹھایا، صہیب رضی اللہ عنہ نے نفع اٹھایا۔
3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام رضی اللہ عنہ بن عاص بن وائل نے آپس میں طے کیا کہ فلاں جگہ صبح صبح اکٹھے ہو کر وہیں سے مدینہ کو ہجرت کی جائے گی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عیاش رضی اللہ عنہ تو وقت مقررہ پر آ گئے لیکن ہشام رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا گیا۔
پھر جب یہ دونوں حضرات مدینہ پہنچ کر قبا میں اتر چکے تو عیاش رضی اللہ عنہ کے پاس ابو جہل اور اس کا بھائی حارث پہنچے، تینوں کی ماں ایک تھی۔ ان دونوں نے عیاش رضی اللہ عنہ سے کہا تمہاری ماں نے نذر مانی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لے گی سر میں گنگھی نہ کرے گی اور دھوپ چھوڑ کر سائے میں نہ آئے گی۔
یہ سن کر عیاش رضی اللہ عنہ کو اپنی ماں پر ترس آ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھ کر عیاش سے کہا عیاش دیکھو خدا کی قسم یہ لوگ تم کو محض تمہارے دین سے فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں لہٰذا ان سے ہوشیار رہو، خدا کی قسم اگر تمہاری ماں کو جووٴں نے اذیت پہنچائی تو وہ کنگھی کر لے گی اور اسے مکہ کی ذرا کڑی دھوپ لگی تو وہ سائے میں چلی جائے گی مگر عیاش رضی اللہ عنہ نہ مانے، انہوں نے اپنی ماں کی قسم پوری کرنے کے لیے ان دونوں کے ہمراہ نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اچھا جب یہی کرنے پر آمادہ ہو تو میری یہ اونٹنی لے لو۔ یہ بڑی عمدہ اور تیز رو ہے۔ اس کی پیٹھ نہ چھوڑنا اور لوگوں کی طرف سے کوئی مشکوک حرکت ہو تو نکل بھاگنا۔
عیاش رضی اللہ عنہ اونٹنی پر سوار ان دونوں کے ہمراہ نکل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ ابو جہل نے کہا:
بھئی میرا یہ اونٹ تو بڑا سخت نکلا، کیوں نہ تم مجھے بھی اپنی اس اونٹنی پر پیچھے بٹھا لو، عیاش نے کہا ٹھیک ہے اور اس کے بعد اونٹنی بٹھا دی، ان دونوں نے بھی اپنی اپنی سواریاں بٹھائیں تاکہ ابو جہل عیاش رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر پلٹ آئے لیکن جب تینوں زمین پر آ گئے تو یہ دونوں اچانک عیاش رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے اور انہیں رسی سے بندھی ہوئی حالت میں دن کے وقت مکہ لائے اور کہا کہ اے اہل مکہ! اپنے بیوقوفوں کے ساتھ ایسا ہی کرو جیسا ہم نے اپنے اس بیوقوف کے ساتھ کیا ہے۔
(ہشام اور عیاش رضی اللہ عنہ کفار کی قید میں پڑے رہے۔ جب رسول اللہﷺ ہجرت فرما چکے تو آپ ﷺ نے ایک روز کہا کون ہے جو میرے لیے ہشام اور عیاش رضی اللہ عنہ کو چھڑا لائے، ولید رضی اللہ عنہ بن ولید نے کہا میں آپ کے لیے ان کو لانے کا ذمہ دار ہوں۔ پھر ولید رضی اللہ عنہ خفیہ طور پر مکہ گئے اور ایک عورت نے (جو ان دونوں کے پاس کھانا لے جا رہی تھی) اس کے پیچھے پیچھے جا کر ان کا ٹھکانا معلوم کیا۔
یہ دونوں ایک بغیر چھت کے مکان میں قید تھے۔ رات ہوئی تو حضرت ولید رضی اللہ عنہ دیوار پھلانگ کر ان دونوں کے پاس پہنچے اور بیڑیاں کاٹ کر اپنے اونٹ پر بٹھایا اور مدینہ بھاگ آئے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ہجرت کی تھی)
عازمین ہجرت کا علم ہو جانے کی صورت میں ان کے ساتھ مشرکین جو سلوک کرتے تھے اس کے یہ تین نمونے ہیں لیکن ان سب کے باوجود لوگ آگے پیچھے پے در پے نکلتے ہی رہے چنانچہ بیعت عقبہ کبریٰ کے صرف دو ماہ چند دن بعد مکہ میں رسول اللہﷺ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کچھ ایسے مسلمان ضرور رہ گئے تھے جنہیں مشرکین نے زبردستی روک رکھا تھا۔
ان دونوں حضرات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول اللہﷺ نے روک رکھا تھا۔ رسول اللہﷺ بھی اپنا ساز و سامان تیار کر کے روانگی کے لیے حکم خداوندی کا انتظار کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رخت سفر بھی بندھا ہوا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا مجھے تمہارا مقام ہجرت دکھلایا گیا ہے، یہ لاوے کی دو پہاڑیوں کے درمیان واقع ایک نخلستانی علاقہ ہے۔
اس کے بعد لوگوں نے مدینے کی جانب ہجرت کی۔ عام مہاجرین حبشہ بھی مدینہ ہی آ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی سفر مدینہ کے لیے ساز و سامان تیار کر لیا لیکن رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا ذرا رکے رہو کیونکہ توقع ہے مجھے بھی اجازت دے دی جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے باپ آپﷺ پر فدا، کیا آپﷺ کو اس کی امید ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ رکے رہے تاکہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کریں، ان کے پاس دو اونٹنیاں تھیں، انہیں بھی چار ماہ تک ببول کے پتوں کا خوب چارہ کھلایا۔

Browse More Islamic Articles In Urdu